It was narrated that Ibn ‘Abbas said:
“A man came to the Prophet (ﷺ), upon his return from Uhud, and said: ‘O Messenger of Allah, in my dream I saw a cloud giving shade, from which drops of ghee and honey were falling, and I saw people collecting them in the palms of their hands, some gathering a lot and some a little. And I saw a rope reaching up into heaven, and I saw you take hold of it and rise with it. Then another man took hold of it after you rose with it, then another man took hold of it after him and rose with it. Then a man took hold of it after him and it broke, then it was reconnected and he rose with it.’ Abu Bakr said: ‘Let me interpret it, O Messenger of Allah.’ He said: ‘Interpret it.’ He said: ‘As for the cloud giving shade, it is Islam, and the drops of honey and ghee that fall from it (represent) the Qur’an with its sweetness and softness. As for the people collecting that in their palms, some learn a lot of the Qur’an and some learn a little. As for the rope reaching up into heaven, it is the truth that you are following; you took hold of it and rose with it, then another man till take hold of it after you and rise with you, then another, who will rise with it, then another, but it will break and then he reconnected, then he will rise with it.’ He said: ‘You have got some of it right and some of it wrong.’ Abu Bakr said: ‘I adjure you O Messenger of Allah, tell me what I got right and what I got wrong.’ The Prophet (ﷺ) said: ‘Do not swear, O Abu Bakr.”*
حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ حُمَيْدِ بْنِ كَاسِبٍ الْمَدَنِيُّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَجُلٌ مُنْصَرَفَهُ مِنْ أُحُدٍ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي رَأَيْتُ فِي الْمَنَامِ ظُلَّةً تَنْطُفُ سَمْنًا وَعَسَلًا، وَرَأَيْتُ النَّاسَ يَتَكَفَّفُونَ مِنْهَا، فَالْمُسْتَكْثِرُ وَالْمُسْتَقِلُّ، وَرَأَيْتُ سَبَبًا وَاصِلًا إِلَى السَّمَاءِ، رَأَيْتُكَ أَخَذْتَ بِهِ، فَعَلَوْتَ بِهِ، ثُمَّ أَخَذَ بِهِ رَجُلٌ بَعْدَكَ، فَعَلَا بِهِ، ثُمَّ أَخَذَ بِهِ رَجُلٌ بَعْدَهُ، فَعَلَا بِهِ، ثُمَّ أَخَذَ بِهِ رَجُلٌ بَعْدَهُ، فَانْقَطَعَ بِهِ، ثُمَّ وُصِلَ لَهُ فَعَلَا بِهِ، فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ: دَعْنِي أَعْبُرُهَا يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: اعْبُرْهَا ، قَالَ: أَمَّا الظُّلَّةُ فَالْإِسْلَامُ، وَأَمَّا مَا يَنْطُفُ مِنْهَا مِنَ الْعَسَلِ وَالسَّمْنِ، فَهُوَ الْقُرْآنُ حَلَاوَتُهُ وَلِينُهُ، وَأَمَّا مَا يَتَكَفَّفُ مِنْهُ النَّاسُ، فَالْآخِذُ مِنَ الْقُرْآنِ كَثِيرًا وَقَلِيلًا، وَأَمَّا السَّبَبُ الْوَاصِلُ إِلَى السَّمَاءِ، فَمَا أَنْتَ عَلَيْهِ مِنَ الْحَقِّ، أَخَذْتَ بِهِ فَعَلَا بِكَ، ثُمَّ يَأْخُذُهُ رَجُلٌ مِنْ بَعْدِكَ فَيَعْلُو بِهِ، ثُمَّ آخَرُ فَيَعْلُو بِهِ، ثُمَّ آخَرُ فَيَنْقَطِعُ بِهِ، ثُمَّ يُوَصَّلُ لَهُ فَيَعْلُو بِهِ، قَالَ: أَصَبْتَ بَعْضًا وَأَخْطَأْتَ بَعْضًا ، قَالَ أَبُو بَكْرٍ: أَقْسَمْتُ عَلَيْكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ لَتُخْبِرَنِّي بِالَّذِي أَصَبْتُ مِنَ الَّذِي أَخْطَأْتُ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَا تُقْسِمْ يَا أَبَا بَكْرٍ .
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک شخص آیا، اس وقت آپ جنگ احد سے واپس تشریف لائے تھے، اس نے آپ سے عرض کیا: اللہ کے رسول! میں نے خواب میں بادل کا ایک سایہ ( ٹکڑا ) دیکھا جس سے گھی اور شہد ٹپک رہا تھا، اور میں نے لوگوں کو دیکھا کہ اس میں سے ہتھیلی بھربھر کر لے رہے ہیں، کسی نے زیادہ لیا، کسی نے کم، اور میں نے دیکھا کہ ایک رسی آسمان تک تنی ہوئی ہے، میں نے آپ کو دیکھا کہ آپ نے وہ رسی پکڑی اور اوپر چڑھ گئے، آپ کے بعد ایک اور شخص نے پکڑی اور وہ بھی اوپر چڑھ گیا، اس کے بعد ایک اور شخص نے پکڑی تو وہ بھی اوپر چڑھ گیا، پھر اس کے بعد ایک اور شخص نے پکڑی تو رسی ٹوٹ گئی، لیکن وہ پھر جوڑ دی گئی، اور وہ بھی اوپر چڑھ گیا، یہ سن کر ابوبکر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: اللہ کے رسول! اس خواب کی تعبیر مجھے بتانے دیجئیے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم اس کی تعبیر بیان کرو ، ابوبکر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ وہ بادل کا ٹکڑا دین اسلام ہے، شہد اور گھی جو اس سے ٹپک رہا ہے اس سے مراد قرآن، اور اس کی حلاوت ( شیرینی ) اور لطافت ہے، اور لوگ جو اس سے ہتھیلی بھربھر کر لے رہے ہیں اس سے مراد قرآن حاصل کرنے والے ہیں، کوئی زیادہ حاصل کر رہا ہے کوئی کم، اور وہ رسی جو آسمان تک گئی ہے اس سے وہ حق ( نبوت یا خلافت ) کی رسی مراد ہے جس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں، اور جو آپ نے پکڑی اور اوپر چلے گئے ( یعنی اس حالت میں آپ نے وفات پائی ) ، پھر اس کے بعد دوسرے نے پکڑی اور وہ بھی اوپر چڑھ گیا، پھر تیسرے نے پکڑی وہ بھی اوپر چڑھ گیا، پھر چوتھے نے پکڑی تو حق کی رسی کمزور ہو کر ٹوٹ گئی، لیکن اس کے بعد اس کے لیے وہ جوڑی جاتی ہے تو وہ اس کے ذریعے اوپر چڑھ جاتا ہے، یہ سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم نے کچھ تعبیر صحیح بتائی اور کچھ غلط ، ابوبکر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میں آپ کو قسم دلاتا ہوں، آپ ضرور بتائیے کہ میں نے کیا صحیح کہا، اور کیا غلط؟ تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے ابوبکر! قسم نہ دلاؤ ۔