It was narrated that Mu’adh bin Jabal said:
“I was with the Messenger of Allah (ﷺ) on a journey. One morning I drew close to him when we were on the move and said: ‘O Messenger of Allah, tell me of an action that will gain me admittance to Paradise and keep me far away from Hell.’ He said: ‘You have asked for something great, but it is easy for the one for whom Allah makes it easy. Worship Allah and do not associate anything in worship with Him, establish prayer, pay charity, fast Ramadan, and perform Hajj to the House.’ Then he said: ‘Shall I not tell you of the means of goodness? Fasting is a shield, and charity extinguishes sin as water extinguishes fire, and a man’s prayer in the middle of the night.’ Then he recited: “Their sides forsake their beds” until he reached: “As a reward for what they used to do.”[32:16-17] Then he said: ‘Shall I not tell you of the head of the matter, and its pillar and pinnacle? (It is) Jihad.’ Then he said: ‘Shall I not tell you of the basis of all that?’ I said: ‘Yes.’ He took hold of his tongue then said: ‘Restrain this.’ I said: ‘O Prophet of Allah, will we be brought to account for what we say?’ He said: ‘May your mother not found you, O Mu’adh! Are people thrown onto their faces in Hell for anything other than the harvest of their tongues?’”
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي عُمَرَ الْعَدَنِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُعَاذٍ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ أَبِي النُّجُودِ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ، عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ، قَالَ: كُنْتُ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَفَرٍ، فَأَصْبَحْتُ يَوْمًا قَرِيبًا مِنْهُ، وَنَحْنُ نَسِيرُ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَخْبِرْنِي بِعَمَلٍ يُدْخِلُنِي الْجَنَّةَ وَيُبَاعِدُنِي مِنَ النَّارِ، قَالَ: لَقَدْ سَأَلْتَ عَظِيمًا، وَإِنَّهُ لَيَسِيرٌ عَلَى مَنْ يَسَّرَهُ اللَّهُ عَلَيْهِ، تَعْبُدُ اللَّهَ لَا تُشْرِكُ بِهِ شَيْئًا، وَتُقِيمُ الصَّلَاةَ، وَتُؤْتِي الزَّكَاةَ، وَتَصُومُ رَمَضَانَ، وَتَحُجَّ الْبَيْتَ، ثُمَّ قَالَ: أَلَا أَدُلُّكَ عَلَى أَبْوَابِ الْخَيْرِ؟ الصَّوْمُ جُنَّةٌ، وَالصَّدَقَةُ تُطْفِئُ الْخَطِيئَةَ كَمَا يُطْفِئُ النَّارَ الْمَاءُ، وَصَلَاةُ الرَّجُلِ مِنْ جَوْفِ اللَّيْلِ، ثُمَّ قَرَأَ: تَتَجَافَى جُنُوبُهُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ سورة السجدة آية 16 حَتَّى بَلَغَ جَزَاءً بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ سورة السجدة آية 17 ، ثُمَّ قَالَ: أَلَا أُخْبِرُكَ بِرَأْسِ الْأَمْرِ وَعَمُودِهِ وَذُرْوَةِ سَنَامِهِ؟ الْجِهَادُ ، ثُمَّ قَالَ: أَلَا أُخْبِرُكَ بِمِلَاكِ ذَلِكَ كُلِّهِ؟ ، قُلْتُ: بَلَى، فَأَخَذَ بِلِسَانِهِ، فَقَالَ: تَكُفُّ عَلَيْكَ هَذَا ، قُلْتُ: يَا نَبِيَّ اللَّهِ، وَإِنَّا لَمُؤَاخَذُونَ بِمَا نَتَكَلَّمُ بِهِ، قَالَ: ثَكِلَتْكَ أُمُّكَ يَا مُعَاذُ، وَهَلْ يُكِبُّ النَّاسَ عَلَى وُجُوهِهِمْ فِي النَّارِ إِلَّا حَصَائِدُ أَلْسِنَتِهِمْ .
معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں ایک سفر میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا، ایک دن میں صبح کو آپ سے قریب ہوا، اور ہم چل رہے تھے، میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! آپ مجھے کوئی عمل بتائیے جو مجھے جنت میں داخل کر دے، اور جہنم سے دور رکھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم نے ایک بہت بڑی چیز کا سوال کیا ہے، اور بیشک یہ عمل اس شخص کے لیے آسان ہے جس کے لیے اللہ تعالیٰ آسان کر دے، تم اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو، اس کے ساتھ کسی کو شریک مت کرو، نماز قائم کرو، زکاۃ دو، رمضان کے روزے رکھو اور بیت اللہ کا حج کرو ، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا میں تمہیں بھلائی کے دروازے نہ بتاؤں؟ روزہ ڈھال ہے، صدقہ گناہوں کو ایسے ہی مٹاتا ہے جیسے پانی آگ کو بجھاتا ہے، اور آدھی رات میں آدمی کا نماز ( تہجد ) ادا کرنا ، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت:«تتجافى جنوبهم عن المضاجع» ( سورة السجدة: 16 ) تلاوت فرمائی یہاں تک کہ «جزاء بما كانوا يعملون» تک پہنچے، پھر فرمایا: کیا میں تمہیں دین کی اصل، اس کا ستون اور اس کی چوٹی نہ بتا دوں؟ وہ اللہ کی راہ میں جہاد ہے ، پھر فرمایا: کیا ان تمام باتوں کا جس چیز پر دارومدار ہے وہ نہ بتا دوں ؟ میں نے عرض کیا: جی ہاں ضرور بتائیے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زبان مبارک پکڑی اور فرمایا: اسے اپنے قابو میں رکھو ، میں نے عرض کیا: اللہ کے نبی! کیا ہم جو بولتے ہیں اس پر بھی ہماری پکڑ ہو گی؟، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: معاذ! تیری ماں تجھ پر روئے! لوگ اپنی زبانوں کی کارستانیوں کی وجہ سے ہی اوندھے منہ جہنم میں ڈالے جائیں گے ۔