It was narrated that Hudhaifah said:
“The Messenger of Allah (ﷺ) told us two Ahadith, one of which I have seen, and I am still waiting for the other. He told us: ‘Honesty was preserved in the roots of men’s hearts’ – (One of the narrators) Tanafisi said: ‘Meaning in the middle of men’s hearts’ – ‘Then the Qur’an was revealed and we learned (it) from the Qur’an and the Sunnah.’ Then he told us about its disappearance, saying; ‘A man will go to sleep and honesty will be taken away from his heart, and only its trace will remain, like spots without color. Then he will go to sleep again and the remainder of the honesty will also be taken away (from his heart) and leaving a trace like a blister, as when an ember touches your foot and raises a blister which has nothing inside.’” Then Hudhaifah picked up a handful of pebbles and rolled them on his leg. He said: “People will engage in business with one another, but there will hardly be any honest persons among them. Then it will be said that in such and such a tribe there is an honest man, and a man will be admired for his intelligence, good manners and strength, but there will not be even a mustard seed of faith in his heart.” There was a time when I did not mind dealing with anyone of you, for if he was a Muslim, his religion would prevent him from cheating; and if he was a Christian, his Muslim ruler would prevent him from cheating. But today I cannot deal except with so-and-so and so-and-so.
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ زَيْدِ بْنِ وَهْبٍ، عَنْ حُذَيْفَةَ، قَالَ: حَدَّثَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَدِيثَيْنِ، قَدْ رَأَيْتُ أَحَدَهُمَا وَأَنَا أَنْتَظِرُ الْآخَرَ، قَالَ: حَدَّثَنَا: أَنَّ الْأَمَانَةَ نَزَلَتْ فِي جَذْرِ قُلُوبِ الرِّجَالِ ، قَالَ الطَّنَافِسِيُّ: يَعْنِي: وَسْطَ قُلُوبِ الرِّجَالِ، وَنَزَلَ الْقُرْآنُ، فَعَلِمْنَا مِنَ الْقُرْآنِ وَعَلِمْنَا مِنَ السُّنَّةِ، ثُمَّ حَدَّثَنَا عَنْ رَفْعِهَا، فَقَالَ: يَنَامُ الرَّجُلُ النَّوْمَةَ، فَتُرْفَعُ الْأَمَانَةُ مِنْ قَلْبِهِ، فَيَظَلُّ أَثَرُهَا كَأَثَرِ الكوكب، وَيَنَامُ النَّوْمَةَ، فَتُنْزَعُ الْأَمَانَةُ مِنْ قَلْبِهِ، فَيَظَلُّ أَثَرُهَا كَأَثَرِ الْمَجْلِ، كَجَمْرٍ دَحْرَجْتَهُ عَلَى رِجْلِكَ فَنَفِطَ، فَتَرَاهُ مُنْتَبِرًا، وَلَيْسَ فِيهِ شَيْءٌ ، ثُمَّ أَخَذَ حُذَيْفَةُ كَفًّا مِنْ حَصًى فَدَحْرَجَهُ عَلَى سَاقِهِ، قَالَ: فَيُصْبِحُ النَّاسُ يَتَبَايَعُونَ، وَلَا يَكَادُ أَحَدٌ يُؤَدِّي الْأَمَانَةَ، حَتَّى يُقَالَ: إِنَّ فِي بَنِي فُلَانٍ رَجُلًا أَمِينًا، وَحَتَّى يُقَالَ: لِلرَّجُلِ مَا أَعْقَلَهُ وَأَجْلَدَهُ وَأَظْرَفَهُ، وَمَا فِي قَلْبِهِ حَبَّةُ خَرْدَلٍ مِنْ إِيمَانٍ ، وَلَقَدْ أَتَى عَلَيَّ زَمَانٌ وَلَسْتُ أُبَالِي أَيَّكُمْ بَايَعْتُ، لَئِنْ كَانَ مُسْلِمًا لَيَرُدَّنَّهُ عَلَيَّ إِسْلَامُهُ، وَلَئِنْ كَانَ يَهُودِيًّا، أَوْ نَصْرَانِيًّا لَيَرُدَّنَّهُ عَلَيَّ سَاعِيهِ، فَأَمَّا الْيَوْمَ فَمَا كُنْتُ لِأُبَايِعَ إِلَّا فُلَانًا وَفُلَانًا.
حذیفہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے دو حدیثیں بیان کیں، جن میں سے ایک تو میں نے دیکھ لی ۱؎ اور دوسری کا منتظر ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے یہ بیان فرمایا: امانت آدمیوں کے دلوں کی جڑ میں اتری ( پیدا ہوئی ) ، ( طنافسی نے کہا: یعنی آدمیوں کے دلوں کے بیچ میں اتری ) اور قرآن کریم نازل ہوا، تو ہم نے قرآن و سنت کی تعلیم حاصل کی ۲؎، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے امانت کے اٹھ جانے کے متعلق ہم سے بیان کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: آدمی رات کو سوئے گا تو امانت اس کے دل سے اٹھا لی جائے گی، ( اور جب وہ صبح کو اٹھے گا تو ) امانت کا اثر ایک نقطے کی طرح دل میں رہ جائے گا، پھر جب دوسری بار سوئے گا تو امانت اس کے دل سے چھین لی جائے گی، تو اس کا اثر ( اس کے دل میں ) کھال موٹا ۲؎ ہونے کی طرح رہ جائے گا، جیسے تم انگارے کو پاؤں پر لڑھکا دو تو کھال پھول کر آبلے کی طرح دکھائی دے گی، حالانکہ اس کے اندر کچھ نہیں ہوتا ، پھر حذیفہ رضی اللہ عنہ نے مٹھی بھر کنکریاں لیں اور انہیں اپنی پنڈلی پر لڑھکا لیا، اور فرمانے لگے: پھر لوگ صبح کو ایک دوسرے سے خرید و فروخت کریں گے، لیکن ان میں سے کوئی بھی امانت دار نہ ہو گا، یہاں تک کہ کہا جائے گا کہ فلاں قبیلے میں فلاں امانت دار شخص ہے، اور یہاں تک آدمی کو کہا جائے گا کہ کتنا عقلمند، کتنا توانا اور کتنا ذہین و چالاک ہے، حالانکہ اس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر بھی ایمان نہ ہو گا، اور مجھ پر ایک زمانہ ایسا گزرا کہ مجھے پروا نہ تھی کہ میں تم میں سے کس سے معاملہ کروں، یعنی مجھے کسی کی ضمانت کی حاجت نہ تھی، اگر وہ مسلمان ہوتا تو اس کا اسلام اسے مجھ پر زیادتی کرنے سے روکتا، اور اگر وہ یہودی یا نصرانی ہوتا تو اس کا گماشتہ بھی انصاف سے کام لیتا ( یعنی ان کے عامل اور عہدہ دار بھی ایماندار اور منصف ہوتے ) اور اب آج کے دن مجھے کوئی بھی ایسا نظر نہیں آتا کہ میں اس سے معاملہ کروں سوائے فلاں فلاں کے ۔