اس دنیا نے جانے کا کسی کا بھی دل نہیں کرتا مگر کئی مرتبہ تو انسان خود ہی مر جاتا ہے وت کئی مرتبہ اسے پھانیس دے کے مارا جاتا ہے اور یہ پھانسی کا عمل اس وقت کیا جاتا ہے۔
جب کسی فرد نے کوئی بہت بڑا جرم کیا ہو اور معزز عدالت اسے پھانسی کا حکم دے دے تو، اب اس وقت جلاد مجرم کے کان میں کیا کچھ کہتاہے، آئیے جانتے ہیں۔
یہ بات بلکل سچ ہے کہ جب کسی بھی مجرم کو پھانسی دینے کیلئے تخت دار پر لایا جاتا ہے تو اس کے کان میں جلاد کہتا ہے کہ مجھے تمہاری اس پھانسی سے کوئی خوشی نہیں اور نہ ہی کوئی سروکار ہے۔
میں تو بس اپنی ڈیوٹی کر رہا ہوں اور یہ قانون کا حصہ ہے۔ پاکستان کے ہی ایک جلاد کے بقول جس کا نام لال مسیح ایک ریٹائرڈ جلاد ہے جس نے اپنی 27 سالہ پولیس کی نوکری میں 750 لوگوں کو پھانسیاں دیں۔
یہ کہتا ہے کہ پھانسی کے وقت پھانسی گھاٹ میں ایک عجیب سی خاموشی ہوتی ہے اس وقت کسی کا جج، پولیس کا ایس ۔پی، ڈاکٹر اور چند پولیس والے بھی موجود ہوتے ہیں۔
پھر ایس ۔پی کی ہی اجازت سے ملزم کو پھانسی دینے کیلئے پھانسی گھاٹ پر لایا جاتا ہے جہاں کالا کپڑا اس کے چہرے پر ڈال کر رسی ڈالی جاتی ہے یہاں یہ بات بھی بتانا بہت ضروری ہے کہ اس کالے رنگ کے کپڑے سے بس دھندلا دھندلا نظر آ تا ہے مجرم کو لیکن جب تک ایس۔پی خود نہ کہے اسے پھانسی نہیں دی جاتی۔
اس عجیب سی خاموشی میں پولیس ایس ۔پی ہی ملزم سے اس کی آخری خواہش پوچھتا ہے تو عموماََ تمام مجرمان بچوں سے ملنے کی خواہش کرتے ہیں جسے پوارا کر دیا جاتا ہے اور ایک چھوٹی سی ملاقات کے بعد انہیں گھر واپس بھیج دیا جاتا ہے۔
اب ایس ۔پی پولیس بھی اشارے سے کہتا ہے کہ پھانسی دے دو تو تو جلاد مجرم کچھ دور لگے لیور کو کھینچتا ہے جس سے مجرم جس تختے پر کھڑا ہوتا ہے۔
وہ کھل جاتا ہے اور وہ لٹک جاتا ہے تھوڑی دیر تڑپنے کے بعد اس کا جسم ٹھنڈا ہونا شروع ہو جاتا ہے اور کم از کم 30 منٹ تک اس کی نعش کو لٹکا رہنے دیا جاتا ہے جب تک اس کے ہاتھ کالے نہ پڑنے لگ جائیں۔