کسی بھی حکومت کی پہلی ذمہ داری اپنے شہریوں کو بنیادی حقوق کی فراہمی کرنا ہوتی ہے۔ اگر ملک ترقی یافتہ ہو اور اپنے پیروں پر کھڑا ہو تو کسی غریب ملک کی امداد کرنا اخلاقی طور پر فرض بن جاتا ہے لیکن اگر کوئی ملک خود قرضوں میں جکڑا ہو اور اس کے شہری مہنگائی سے تنگ آکر خودکشیاں کرنے پر مجبور ہوں تو ایسے میں بجائے اپنے لوگوں کی فکر کے کسی اور ملک کی مدد کرنا عوام کے دلوں پر چھریاں چلانے کے برابر ہے۔
افغانستان کو 5 ارب روپے کی امداد
پیر کے دن وزیرِ اعظم عمران خان نے افغانستان کو انسانی ہمدردی اور ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کے لئے 5 ارب روپے کی رقم سے تیار کردہ پیکج دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس پیکج میں 50 ہزار ٹن گندم، ادویات، طبی اور سردیوں کا سامان شامل ہوگا۔ اتنا ہی نہیں بلکہ افغانستان میں بھیجی جانے والی اشیاء کا سیلز ٹیکس بھی کم کردیا گیا ہے۔
عوام کا تنقیدی ردِعمل
اس خبر کے سامنے آتے ہی سوشل میڈیا پر حکومت کو ایک بار پھر تنقید کا سامنا ہے۔ فیس بک پر اہک صارف کا کہنا ہے “خود قرضے اٹھاتے ہو ملک چلانے اور اربوں روپے دوسروں کو امداد فراہم کرتے ہو اگر دینا ہی ہے تو کم از کم بلا سود قرض دے دیا کرو۔ یہ پیسہ پاکستانی قوم کا ہے“
احسن بگٹی نامی صارف طنزیہ ایک محاورہ لکھتے ہیں “گھر میں نہیں دانے اور اماں چلی بھنانے“
ایس کے شاہین شاہ لکھتے ہیں کہ “اپنے لوگوں کو بھوکا مار دو امداد افغانستان بھیج دو ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہمیں پاکستان سے زیادہ افغانستان کی فکر ہے“
البتہ ایسے لوگ بھی ہیں جو وزیرِ اعظم کے اس فیصلے کو سراہ رہے ہیں کہ انھوں نے اتنے سخت حالات میں بھی افغان شہریوں کی مدد کا سوچا۔