مُلک بھر میں بے روزگاری بڑھتی جا رہی ہے۔ پھر بات اگر میڈیا کی ہو تو ان اداروں میں کام کئے جانے والے ہزاروں صحافی بے روزگار ہوگئے ہیں۔ نوکری سے نکالے جانے کے بعد کوئی چھولے بیچ رہا ہے تو کوئی کرائے کا رکشہ چلا کر زندگی کی گاڑی کو دھکا دے رہا ہے۔ لیکن گذشتہ رات ایک صحافی نے حالات سے تھک ہار کر خودکشی کرلی۔
فہیم مُغل جو ایک معروف نجی ٹی وی چینل میں پروڈکشن آپریٹر کے عہدے پر فائز تھے، وہاں سے نکالے جانے کے بعد کچھ وقت تک بے روزگار تھے۔ پھر کرائے کا رکشہ چلانے لگے۔ ان کی 5 بیٹیاں اور 1 بیٹا ہے۔
فہیم کے قریبی ساتھی نے کل فیس بُک پر ان کی کچھ تصاویر پوسٹ کیں اور بتایا کہ یہ رکشہ چلاتے تھے، لیکن پیٹرول کے بڑھتے داموں کی وجہ اور ہڑتال کے باعث تنگ آکر کچھ وقت قبل پنکھے سے جھول گیا،
کرائے کے گھر میں رہنے والے صحافی بینک کے 60 ہزار قرض کی وجہ سے پریشان تھا لیکن کسی نے ان کی مدد نہ کی۔
فہیم کے گھر والوں کے نقصان کی تلافی تو نہیں کی جاسکتی، لیکن ان کی مدد ضرور کی جاسکتی ہے۔ آج ایک فہیم اس دنیا سے رخصت ہوا، کل کوئی اور یوں جائے اس سے قبل ہمیں سوچ لینا چاہیئے، اپنے قدم ضرورت مندوں کی مدد کے لئے آگے بڑھانے چاہیئے۔ اب ان بچوں کی کفالت کون کرے گا؟