گذشتہ روز کرتارپور کے احاطے میں ایک لڑکی کی جانب سے ماڈلنگ اور فوٹ شوٹ نے سوشل میڈیا صارفین سمیت سکھ برادی کو بھی شدید غم و غصے میں مبتلا کردیا۔ اس حوالے سے پنجاب پولیس نے گذشتہ روز ہی کارروائی کا فیصلہ کیا اور ساتھ ہی وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے بھی نوٹس لیا۔
کرتارپور گوردوارہ کے احاطےکے پر بال کھولے ماڈل کے اس کام پر وفاقی وزی سمیت سکھ برادی نے مذکورہ لڑکی کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔
اس حوالے سے ایک سکھ صحافی رویندر سنگھ روبن کی جانب سے تنقید بھری ٹوئٹ سامنے آئی جس میں انہوں نے سخت الفاط میں مذہبی مقام پر ماڈلنگ کرنے والی خاتون سے متعلق کہا کہ کرتارپور میں گردوارہ شری دربار صاحب کے احاطے میں سر ڈھانپے بغیر ماڈلنگ کرنے سے سکھوں کے مذہبی جذبات بری طرح مجروح ہوئے ہیں۔
اس واقعے کے تھوڑی دیر گزرنے کے بعد پنجاب پولیس ایکشن میں آئی۔ محکمہ پنجاب پولیس نے ٹوئٹ کی کہ وہ اس واقعے کے تمام پہلوؤں کی تفتیش کر رہے ہیں اور ذمہ داروں کے خلاف سخت قانونی کارروائی کی جائے گی۔
انہوں نے کہا کہ متعلقہ برانڈ اور ماڈل کی مینجمنٹ کی چھان بین کی جا رہی ہے اور تمام مذاہب کی عبادت گاہیں یکساں قابل احترام ہیں۔
اس حوالے ماڈل کا بیان بھی سامنے آیا۔ماڈل کا نام صالح امتیاز ہے جو بلاگر بھی ہے۔ صالحہ امتیاز کرتارپور کے احاطے پر تصاویر بنوانے پر معذرت کرتے ہوئے کہا کہ وہ کسی رسمی فوٹو شوٹ کا حصہ نہیں تھیں۔
انہوں نے انسٹاگرام پوسٹ میں لکھا کہ میں صرف تاریخ اور سکھ برادری کے بارے میں جاننے کے لیے کرتارپور گئی تھی، ایسا کسی کے جذبات کو ٹھیس پہنچانے کے لیے نہیں کیا گیا تھا البتہ میرے اس کیے سے کسی کو تکلیف پہنچی یا وہ سمجھتے ہیں کہ میں ان کی ثقافت کا احترام نہیں کرتی تو میں معذرت خواہ ہوں۔
بلاگر نے مزید کہا کہ میں سکھ ثقافت کا بہت احترام کرتی ہوں اور میں تمام سکھ برادری سے معذرت خواہ ہوں۔
وفاقی وزیراطلاعات فواد چوہدری کا رد عمل ببھی سامنے آیا۔ انہوں نے اپنی ٹوئٹ میں لکھا کہکہ ڈیزائنر اور ماڈل کو ان تصاویر پر سکھ برادری سے معافی مانگنی چاہیے۔انہوں نے ٹوئٹ کی کہ کرتار پور صاحب فلم کا سیٹ نہیں ایک مذہبی علامت ہے۔