جمعے کی شب نامعلوم افراد ایک بچے کو کراچی کے علاقے گُلشنِ حدید میں کچرے کے ڈھیر پر پھینک کر چلے گئے تھے، جس کی اطلاع مقامی خاتون نے فون کرکے ایدھی والوں کو دی اور پھر پولیس کو بتایا گیا، جس پر بچے کو سرکاری ہسپتال لے جایا گیا تو معلوم ہوا کہ بچے
ہاتھ مڑے ہوئے تھے، آنکھیں نظر نہیں آ رہی تھیں۔ اس پر گوشت تھا اور جسم ایسا لگتا تھا جیسے جلا ہوا ہو یا کوئی بیماری۔ یہ بچہ اب اس دنیا میں نہ رہا۔
ایدھی فاؤنڈیشن کے جس اہلکار نے بچے کو اُٹھا کر ہسپتال منتقل کیا اس کا نام ذاکر ہے۔ بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ذاکر کا کہنا تھا کہ:
''
قومی شاہراہ کے قریب واقع عائشہ ہسپتال کے نزدیک باگڑی کمیونٹی کی جگھیوں کے قریب جب وہ پہنچے تو بچہ ایک چارپائی پر موجود تھا اور اس کو کپڑوں میں لپیٹا ہوا تھا اور اس کی سانسیں چل رہی تھی۔
میں 9 سال سے ایمبولینس چلا رہا ہوں اور ایدھی سے پہلے چھیپا ایمبولینس کے ساتھ کام کرتا تھا، نوزائیدہ بچے تو ملتے ہیں لیکن اس حالت میں انھوں نے کبھی کوئی بچہ نہیں دیکھا۔ ایسا بچہ پہلی بار اٹھایا، جس کے ہاتھ مڑے ہوئے تھے، آنکھیں نظر نہیں آ رہی تھیں۔
''
ذاکر نے بچے کو نیشنل انسٹیٹیوٹ آف چائلڈ ہیلتھ لے گیا جہاں اس کو داخل کر دیا گیا تھا مگر اتوار کے دن ہی بچے کی موت ہوگئی۔ حیران کُن بات یہ ہے کہ بچے کے والدین اب تک تلاشِ گمشدہ ہیں، نہ پولیس کو ان کا پتہ ملا اور نہ ہی والدین نے خود بچے کے لئے رابطہ کیا۔
نیشنل انسٹیٹیوٹ آف چائلڈ ہیلتھ کے ڈائریکٹر ڈاکٹر ناصر کا کہنا ہے کہ
:
''
بچے کی جلد کو جلایا نہیں گیا تھا وہ Autosomal Recessive Disorders کا شکار تھا، جس کی وجہ سے انفیکشن ہو گیا تھا۔
’ان بچوں کے زندہ بچنے کے امکانات کم ہوتے ہیں۔ یہ بھی تھیلیسیمیا کی ایک قسم ہے اور ایسے بچے زیادہ تر کزن میرج کی صورت میں پیدا ہوتے ہیں۔