بے روزگاری کی شرح کراچی میں حد سے زیادہ بڑھتی جا رہی ہے۔ کہیں نوجوان خود کشی کر رہے ہیں تو کہیں وہ دماغی امراض میں مبتلا ہو رہے ہیں۔ گذشتہ روز کراچی کے سب سے بڑے مال '' لکی ون'' کے تیسرے فلور سے چھلانگ لگا کر ایک 28 سالہ نوجوان ظُہیر نے خودکشی کرلی کیونکہ وہ نوکری نہ ملنے کی وجہ سے پریشان اور ذہنی دباؤ کا شکار تھا۔
ظُہیر کے بھائی سے کل معروف این جی او ورکر ظفر عباس نے بات کی تو بھائی نے بتایا کہ وہ پڑھا لکھا نوجوان تھا، اس نے جامعہ کراچی سے ریاضی میں بی ایس سی کا امتحان فرسٹ کلاس ڈیوژن میں پاس کیا ہوا تھا۔
وہ جگہ جگہ نوکری کی تلاش میں گھومتا تھا، لیکن اس کو کوئی نوکری نہ ملتی، آن لائن جیسے تیسے وہ محنت کرکے صرف 20 ڈالر کماتا تھا جس سے گزارہ چلنا بہت مشکل تھا۔
کل ہی والدہ کو سکول میں پروموشن ملی تھی اور کل ہی بھائی نے خودکشی کرلی۔
ظفر عباس نے اس فیملی سے متعلق بات کرتے ہوئے بتایا کہ:
''
13 سال قبل ہاشم عابدی
یعنی ان کے والد کا انتقال ہوگیا تھا، ان کی والدہ ایک سکول میں ٹیچر ہیں۔ انہوں نے بہت محنت سے اچھی تعلیم حاصل کی مگر نوکری نہ ہونے کی وجہ سے دلبرداشتہ ہو کر نوجوان بچے نے خودکشی کرلی۔''
آخر کب تک کراچی کے نوجوان یوں بے روزگاری کی وجہ سے دم توڑتے رہیں گے؟
ظُہیر خود تو اس دنیا سے چلا گیا، مگر ان تمام اداروں کے منہ پر تماچہ مار کر گیا ہے جو کراچی کی عوام کو ان کے حقوق سے دور کر رہے ہیں، نوجوانوں کو، اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگوں کو نوکریاں نہیں دے رہے۔ کب تک کراچی میں سن کوٹہ سسٹم کی وجہ سے میرٹ کا قتل کیا جائے گا۔ آج صرف یہ ایک ظُہیر نہیں بلکہ اس کی طرح کے کئی نوجوان ہم سے دور ہوچکے ہیں۔