آپ نے یہ تو سنا ہوگا کہ عورت نے اندھے یا پھر گونگے لڑکے سے شادی کر لی ہے مگر یہ جانتے بوجھتے ہوئے بھی کہ میرا ہونے والا شوہر شادی سے کچھ دن پہلے معذور ہو گیا ہے پھر بھی شادی کرنا، بہت ہی دل گردے کا کام ہے۔
یہ افسوسناک داستان ایک صائمہ اور رئیس نامی لاہور کے ایک جوڑے کی ہے جس کے ساتھ کچھ یوں ہوا کہ پہلے تو والدین شادی کیلئے مانتے نہیں تھے تو جب شادی کیلئے والدین مانیں تو راضی خوشی منگنی ہو گئی۔
اور شادی سے چند ماہ پہلے صائمہ کے ہونے والے دولہے رئیس کو بخار ہوا جس کا یہ علاج تو کرواتے رہے مگر 2 سے 3 ماہ تک بخار نہ اترا اور معلوم ہوا کہ انہیں شدید قسم کا ٹائیفائیڈ بخار ہو گیا ہے۔
جس کی وجہ سے انکے پورے جسم کے مسلز کمزور ہونا شروع ہو گئے اور ایک
کڑیل جوان ایک سوکھی لکڑی بن کر رہ گیا۔ صائمہ کے مطابق رئیس ان کے ماموں کا بیٹا ہے اور یہ کراچی میں رہتے تھے۔
مزید یہ کہ جب ایک خاندان کی شادی میں میں اور میرے گھر والے اپنے شہر بورے والا سے کراچی گئے تو انہوں نے وہاں مجھے دیکھا اور مجھ سے شادی کی خواہش کا اظہار کر دیا جس پر میں نے انکار کر دیا۔
تو پھر بھی یہ پوری سچائی کے ساتھ مجھے منانے میں لگے رہے آخر میں مان گئی اور پھر 2 سال تک ہم ایک دوسرے سے فون پر بات کرتے رہے مگر میرے گھر والے ان سے شادی کروانے پر راضی نہ تھے جس پر میں نے بڑی مشکل سے ابو کو راضی کیا ، آخر جب اچھے دن آنے والے تھے تو انہیں اس بیماری نے آ گھیرا۔
مگر شادی سے تقریباََ 3 ماہ پہلے رئیس نے مجھ سے بات کرنابند کر دیا اور مجھے وقت بھی نہیں دیتے تھے جس پر میں ان سے لڑتی تھی۔
اور مجھے اب تک یہ حقیقت نہیں معلوم تھی کہ اتنا بڑا حادثہ ہو گیا ہے پر مجھے پتہ چلا تو بھی میں ان سے یہی کہا کہ ساتھ جینے مرنے کی قسمیں کھائیں ہیں تو اب جو ہوگا ساتھ ہی رہیں گے۔
لیکن مجھے کہتے رہے اپنی زندگی خراب نہ کرو جہاں ماموں کہتے ہیں وہاں شادی کر لو مگر میں نے انکا ساتھ نہ چھوڑا اور اپنے گھر والوں سے مار کھا لی انکی سختیاں برداشت کر لیں۔
مگر اور یہی کہا کہ اگر اپ اب شادی نہیں کروائیں گے تو بھی میں اسی سے شادی کرونگی کیونکہ میں اسے ہی اپنا خاوند مانتی ہوں اور پھر کراچی چلی آئی اور ان سے کورٹ میرج کر ڈالی۔
اس کے علاوہ کراچی میں ہی انکے گھر والوں کے ساتھ رہنے لگے تو کچھ عرصے بعد گھریلو جھگڑوں سے تنگ آ کر علیحدہ ہونے کا سوچا تو اسی وقت بیت المال میں نوکری کرنے والے ایک شخص نے ہم سے جھوٹا وعدہ کر ڈالا کہ آپ لاہور آ جائیں میں اپکا علاج بھی کرواؤں گا اور ہر ماہ خرچہ بھی حکومتی فنڈ سے دلواؤں گا پر ایسا کچھ نہ ہوا۔
یہاں اب رئیس کہتے ہیں کہ پھر بھی میری بیوی نے میرا ساتھ نہ چھوڑا اور خود کپڑے سلائی کا کام کرنے لگی اسی سے گھر کا گزر بسر بہت مشکل سے ہو رہا ہے اور اپنا ایک سوشل میڈیا پر پیج بنا رکھا ہے۔
جس پر اپنے حالات سے لوگوں کو آگاہ کرتے ہیں تو لوگ ہماری کچھ مدد کر جاتے ہیں۔ معذور رئیس کہتے ہیں کہ کبھی نہیں سوچا تھا کہ اپنی بیوی سے کام کرواؤں گا کیونکہ میں اس سے سچی محبت کرتا ہوں۔
اس وقت رئیس کی ایک بچی بھی ہے جو اپنے والد سے بہت پیارو محبت کرتی ہے، باتوں باتوں میں رئیس کا یہ بھی کہنا تھا کہ بیوی کے تو بہن بھائی اس سے ملتے ہیں۔
اب اور اس کی ہمت کی داد دیتے ہیں مگر بہن کے یہ حالات دیکھ کر کہتے ہیں کہ تجھے اس سے اچھا کوئی مل سکتا تھا تو دل خون کے آنسو روتا ہے کہ کوئی میری بیوی کو یوں کیوں بولتا ہے۔
لیکن پھر یہ سن کر بہت خوش ہوتا ہوں کہ جب میری بیوی کہتی ہے کہ آج بھی میں یہ بات نہیں سوچتی جب میں نے اس سے شادی کے وقت یہ بات نہیں سوچی تو اب کیوں سوچوں؟
اس کے علاوہ زندگی میں ایک اور خلش ہے کہ میرے 4 بہن بھائی ہیں مگر کسی نے مور کر نہیں پوچھا کہ تو کیسا ہے اور کیسے اس مہنگائی میں گزارا کر رہا ہے؟
اس حادثے سے پہلے رئیس ایک کراچی میں کمپنی میں کپیوٹر ایمبروڈری کا کام کرتا تھا جہاں ماہانہ تنخواہ بہت اچھی تھی.
اب بھی رئیس کی اور اسکی بیوی کی یہی خواہش ہے کہ اگر کوئی ملک کا مخیر شخص مکمل علاج کروا دے اور وہ اپنے پیروں پر کھڑا ہو جائے تو اس کیلئے تو اس سے بڑی خوشی نہیں ہو سکتی کوئی۔
واضح رہے کہ ملک کے سرکاری اسپتالوں کے ڈاکٹرز کا کہنا ہے کہ ان کے مرض کا علاج یا تو باہر کے ملک میں ہے یا تو پھر پاکستان میں تو صرف فزیو تھراپی ہے جس سے یہ 100 فیصد تو نہیں مگر 70 یا پھر 80 فیصد تک ٹھیک ہو جائیں گے لیکن اس میں بھی وقت لگے گا۔