میری اور ایدھی صاحب کی عمر میں فرق تھا ۔۔ یتیموں کی مسیحا بلقیس ایدھی نے کیسے زندگی کے ہر سفر میں شوہر کا ساتھ دیا؟

image

بلقیس ایدھی جن کی تعریف کیلئے الفاظ کم پڑ جائیں۔ انہوں نے پوری زندگی شوہر کے ساتھ مل کر یتیم، بے سہارا اور نومولود بچوں کی فلاح و بحبود کیلئے دن رات کام کیا یہی نہیں بلکہ دنیا کی سب سے بڑی ایمبو لینس سروس کا آغاز کیا۔

بی بی سی کو دیے گئے انٹرویو میں یہ کہتی ہیں کہ عبد الستار ایدھی سے کوئی شادی کرنے کو تیار نہ تھا لڑکیاں کہتیں تھیں کہ اس کی داڑھی ہے مگر جب میری ماں نے مجھ سے ان کی شادی سے متعلق پوچھا تو میں نے کہا کر دو اب میں ہی خاندان میں آخری لڑکی رہ گئی ہوں۔ اس کے علاوہ انہوں نے بات چیت کرتے ہوئے اپنی زندگی کے ایسے واقعات لوگوں کو سنائے جو آج تک کسی کو معلوم نہ تھا ۔

بلقیس ایدھی کے مطابق پاکستان آنے کے بعد ابتدا میں ایدھی صاحب شادیوں میں برتن دھونے جاتے، دودھ اور اخبار فروخت کرتے اور اس سے جو بھی آمدن ہوتی وہ چھوٹی موٹی فلاحی سرگرمیوں پر لگا دیتے۔ فلاحی کاموں سے ان کی وابستگی کو دیکھتے ہوئے جلد ہی انھیں تھوڑا بہت چندہ بھی ملنا شروع ہو گیا تھا۔

کراچی آ کر ایدھی صاحب نے جو پہلا کام کیا وہ یہ تھا کہ انھوں نے کراچی کے علاقے میٹھادر میں ایک چھوٹے سے کمرے میں ڈسپنسری قائم کی جہاں آس پاس کے علاقوں بلخصوص لیاری میں رہائش پذیر غریب افراد کو طبی سہولیات فراہم کی جاتی تھیںبلقیس ایدھی بتاتی ہیں کہ ایدھی صاحب نے 1954ء میں پہلی ایمبولینس خریدی۔

ایدھی صاحب نے جو پہلی ایمبولینس خریدی تھی وہ دراصل ایک پرانی ‘ہل مین وین تھی جو دوسری عالمی جنگ استعمال ہوئی۔ یہ وین 2 ہزار روپے میں خریدی گئی،انہوں نے بتایا کہ جب دنیا میں ایشین فلو کی وبا پھیلی تو عبدالستار ایدھی کو بڑے پیمانے پر فلاحی کام کرنے کا موقع ملا۔ بلقیس ایدھی نے بتایا کہ ایدھی صاحب جب بھی کراچی سے باہر ایمبولینس میں میت چھوڑنے جاتے تھے تو مجھے ساتھ لے جاتے تھے۔

ایدھی فاؤنڈیشن کے جھولا پراجیکٹ سے متعلق بلقیس ایدھی نے بتایا کہ پہلے پہل کچرے کے ڈھیروں سے روزانہ نومولود بچوں کی لاشیں یا زندہ بچے ملتے تھے۔ اس صورتحال پر ایدھی صاحب رات کو بیٹھ کر مجھ سے مشورہ کرتے تھے۔وہ پڑھے لکھے نہیں تھے، میں بھی زیادہ پڑھی لکھی نہیں تھی۔

پھر ایک روز انھوں نے کہا کہ ہم جھولے لگائیں گے تاکہ لوگ بچوں کو ماریں نہ اور انھیں پھینکیں نہ کیونکہ کتے نوزائیدہ بچوں کو بھنبھوڑ کر رکھ دیتے ہیں۔ جس کے بعد ہم نے اپنے سینٹروں کے باہر جھولے لگائے اور لوگوں کو کہا کہ بچوں کو اس میں ڈال دیں، آپ سے کوئی سوال نہیں پوچھے گا۔ اور پھر ہمارے اس اقدام کی کئی لوگوں نے کھل کر مخالفت بھی کی۔

بلقیس ایدھی نے بی بی سی کو دئے گئے انٹرویو میں بتایا کہ ستر کی دہائی میں شام کے وقت کراچی کے سول اسپتال سے ایک ایمبولینس سندھ کے شہر سانگھڑ کے لیے روانہ ہوئی۔ ایمبولینس میں ایک جوان لڑکی کی میت موجود تھی جو کچھ دیر قبل ہی ٹی بی جیسے موذی مرض کے ہاتھوں ہلاک ہوئی تھی۔

فوت ہونے والی لڑکی کی بوڑھی والدہ میت کے ہمراہ سراپا غم بنی بیٹھی تھیں۔جیسے ہی ایمبولینس سانگھڑ شہر کی حدود میں ایک سُنسان رستے پر پہنچی تو چند افراد نے ایمبولینس کو رُکنے کا اشارہ کیا۔

ایمبولینس کو روکنے والے یہ دراز قد افراد گھوڑوں پر سوار تھے اور انھوں نے سفید پگڑیاں سروں پر باندھ رکھی تھیں۔ ان ڈاکوؤں ارادہ اس ایمبولینس میں سوار لوگوں کو لوٹنے کا تھا۔ڈاکوؤں کے ساتھ کچھ دیر ہونے والی بات چیت کے بعد ہلاک ہونے والی لڑکی کی ضعیف والدہ ایمبولینس سے اُتریں اور انہوں نے سندھی زبان میں ڈاکوؤں کو بتایا کہ اُن کی بیٹی کی ٹی بی کے باعث وفات پا گئی ہے اور گاڑی میں اس کی میت ہے۔

خاتون نے ڈاکوؤں کو یہ بھی بتایا کہ اس ایمبولینس کو چلانے والا اور کوئی شخص نہیں بلکہ عبدالستار ایدھی ہیں۔یہ سُننا تھا کہ ڈاکو گھوڑوں سے اُتر آئے، ایمبولینس کے ڈرائیو کو بغور اوپر سے نیچے تک اس انداز میں دیکھا جیسے وہ بزرگ خاتون کے قول کی تصدیق کرنا چاہ رہے ہوں۔ ایدھی صاحب کو سر سے پاؤں تک دیکھنے کے بعد ایک ڈاکو بولا کہ ہم مر جائیں گے تو ہمیں ہمارے ماں باپ لینے نہیں آئیں گے، ہمیں یقین ہے تم لینے آؤ گے اور ہماری قبر پر مٹی بھی ڈالو گے۔

یہ کہہ کر ڈاکو نے ایدھی صاحب کا ہاتھ چوما اور اپنی جیب سے ایدھی فاؤنڈیشن کے لیے سو روپے چندہ دیا اور ایمبولینس کو عزت کو احترام سے رخصت کر دیا معروف سماجی کارکن عبدالستار ایدھی کی اہلیہ بلقیس ایدھی انتقال کرگئیں۔ گذشتہ 2 دن سے کراچی کے نجی ہسپتال میں زیرِ علاج تھیں لیکن اب انتقال کرگئیں۔ ترجمان ایدھی فاؤنڈیشن کے مطابق بلقیس ایدھی دل کے امراض سمیت دیگر امراض میں بھی مبتلا تھیں اور 2 روز قبل ان کا بلڈ پریشر بڑھنے کی وجہ سے ان کو ہسپتال میں لایا گیا تھا۔

بلقیس بانو ایدھی ایک نرس تھیں۔ ان کو مادر پاکستان کے نام سے جانا جاتا ہے۔ یہ 1947ء میں کراچی میں پیدا ہوئیں۔ بلقیس ایدھی فاؤنڈیشن کی سربراہ تھیں اور اپنے شوہر کے ساتھ انہوں نے خدمات عامہ کے لیے 1986ء رومن میگسیسی اعزار (Ramon Magsaysay Award) حاصل کیا۔ حکومت پاکستان نے انہیں ہلال امتياز سے نوازا جبکہ بھارت نے انہیں مدر ٹریسا ایوارڈ 2015ء سے نوازا تھا۔

واضح رہے کہ بلقیس ایدھی نے بتایا کہ عبدالستار ایدھی کا تعلق ”بانٹوا میمن” کمیونٹی سے تھا۔ وہ قیام پاکستان کے بعد انڈین گجرات سے نقل مکانی کر کے کراچی آ گئے تھے۔


Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Get Alerts