سسی پنوں سب لوگوں کو ہی معلوم ہے کہ یہ ایک پرانی محبت کی داستان ہے مگر کیا آپ لوگوں کو معلوم ہے کہ آج بھی سسی کے پاؤں کے نشان والے پتھر موجود ہیں اور جہاں سسی کو چرواہے نے پانی پلایا وہ کنواں آج بھی موجود ہے اور کہا یہ جاتا ہے کہ اس میں پانی بھی موجود ہے، آئیے جانتے ہیں اس سے متعلق کچھ دلچسپ باتیں۔
یہی نہیں بلکہ کہا تو یہ بھی جاتا ہے کہ آج بھی اگر مزار کے نزدیک پہاڑ پر جایا جائے تو وہاں پتھروں پر پتھر مارا جائے تو پرانے زمانے والے پانی کے کٹورے کی آواز آتی ہے، یہ وہی کٹورے کی آواز ہے جو سسی کے ہاتھ میں تھا۔ اب آپ سوچ رہے ہوں گے کہ ایسا کیسے ممکن ہے۔
ان باتوں میں کتنی حقیقت ہے یہ تو اللہ پاک کی ذات ہی جانتی ہے۔یہ سب باتیں کیوں مشہور ہیں سسی پنوں کے بارے میں تو سنیے ان کی کہانی کچھ یوں ہے کہ سسی سندھ میں موجود راجہ بھمبور کی بیٹی تھی اس کی پیدائش پر نجومیوں نے کہا کہ یہ لڑکی بادشاہ صاحب شاہی خاندان کیلئے نیک شگن نہیں ثابت ہو گی۔
یہ بات سننے کے بعد راجہ نے بیٹی کو ایک لکڑی کے صندوق میں بند کر کے سمندر میں بہا دیا اور پھر یہ صندوق ایک بھمبور کے ہی ایک دھوبی کو ملا جس کی اولاد نہیں تھی اس نے اس بچی کو اللہ پاک کا تحفہ سمجھ کر رکھ لیا اور اس کی پرورش کرنے لگا مگر جب سسی جوان ہوئی تو اس کی خوبصورتی کے چرچے ہونے لگے۔
سسی کی خوبصورتی کی باتیں پنوں نے بھی سنی تو پھر یہ بلوچستان سے سسی کو دیکھنے کیلئے سسی کے علاقے آیا اور اس کے والد سے کپڑے دھلوانے اس کے گھر گیا تو وہاں اسنے پہلی مرتبہ سسی کو دیکھا تو اسکا دیوانہ ہو گیا۔ یوں انکی محبت کی داستان شروع ہوئی۔
لیکن پنوں جو کہ بلوچستان سے تعلق رکھنے والے میر علی ہوت کا سب سے چھوٹا بیٹا تھا اس کا والد اور بھائی اس شادی کے خلاف تھے مگر جب دیکھا کہ پنوں اسی لڑکی سے شادی کرنے منع نہیں ہو رہا تو وہ بظاہر تو شادی میں شریک ہوئے مگر رات کو اسے نشہ آور کوئی چیز پلائی اور باندھ کر اپنے علاقے لے آئے۔
یوں جب صبح سسی کو یہ واقعہ پتا چلا تو وہ ننگے پاؤں پنوں پنوں پکارتے ہوئے پہاڑوں اور ریتلی زمین پر چلتی رہی۔ یہاں ہی اس کی ملاقات ایک چرواہے سے ہوئی جس نے اسے پانی پلایا اور اسکی نیت سسی کو دیکھ کر خراب ہوئی تو سسی نے اس سے بچنے کیلئے اللہ سے دعا کی کہ اسے چھپا لے۔ اس کے بعد زمین پھٹی اور وہ وہاں ہی غائب ہو گئی۔
اس کے علاوہ جب پنوں کو ہوش آیا تو وہ بھی اپنے گھر سے سسی سی پکارتا ہوا اسی راستے پر نکل پڑا اور اسکی بھی ملاقات اسی چرواہے سے ہوئی تو اس نے سارا ماجرا سنایا۔ اب پنوں نے بھی یہی دعا کی اور ایک مرتبہ زمین اور پھٹی اور وہ بھی اس وقت غائب ہو گیا ۔
واضح رہے کہ سسی پنوں کا مزار کراچی سے 65 کلو میٹر کے فاصلے پر بلوچستان میں واقع ہے جہاں جانے کیلئے کم از کم 2 گھنٹے لگتے ہیں، ان کے مزار تک ایک کچی سڑک جاتی ہے۔ کہا یہ جاتا ہے کہ آج تک ان کے مزار پر ایک پتھر موجود ہے جس پر سسی کے پاؤں کا نشان ہے۔