ماں کی محبت کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ ماں کی چاہے اولاد اکلوتی ہو یا دو چار وہ سب سے برابر کی محبت کرتی ہے۔ بچہ تکلیف میں ہو تو والدین ہی ہوتے ہیں جو انہیں سنبھالتے ہیں۔ ماں باپ ہی حقیقی دوست ہیں جو سنتے ہیں، برداشت کرتے ہیں جو اپنی خؤاہشات کا گلا گھونٹ کر بچے کو آگے بڑھاتے ہیں۔
جب بچہ بیمار ہو ییا تکلیف میں ہو تو ماں کا دل پھٹنے لگتا ہے وہ اس وقت تک سکون سے نہیں سوتی جب تک بچہ سکون میں نہ آئے۔ بھارتی متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والی یہ ماں بھی اپنے بیٹے کو دنیا جہان کی خوشی دینا چاہتی ہے۔ 21 سال کی عمر میں ان کا ایک بیٹا پیدا ہوا جو ان کی اکلوتی اولاد ہے۔
انہوں نے ہمیشہ ہی بیٹے کو سہولت دینے کی کوشش کی۔ غربت کے باعث یہ ہر خواہش کو تو پورا نہ کرسکیں لیکن کبھی بھی بچے کی تعلیم میں کسی حد تک کوئی کمی نہ چھوڑی اور بچے نے والدین کے خواب پورے کرنے کیلئے دن رات محنت سے پڑھائی کی اور ٹیوشن سینٹر میں کام بھی کیا۔ خوب محنت کی آگے بڑھا۔ لیکن 2020 میں کورونا کے وقت اس کی اچانک طبیعت بگڑی تو ڈاکٹر نے بتایا کہ گردے فیل ہوگئے ہیں اب ڈائیلاسز کرواؤ جب تک کوئی ڈونر نہیں ملتا۔
موت کے منہ میں جاتے ہوئے بیٹے کو دیکھ کر ماں کیسے رہ سکتی تھی۔ اس خاتون نے ڈاکٹر سے کہا کہ میے گردے میرے بچے کے لیے حاضر ہیں اگر میں یہ بھی نہ کرسکی اسکے لیے تو میں بیٹا کس کو کہوں گی؟
ان کی کہانی بھارت میں بہت مشہور ہو رہی ہے کیونکہ یہ وہ وقت تھا جب بیٹا ماں باپ کی ڈھال بنے مگر قسمت نے اسے ایک مرتبہ پھر ماں باپ کے ہاتھوں میں ڈال دیا۔