انڈیا کی اپوزیشن جماعتوں نے ریاست منی پور میں تین مہینے سے جاری نسلی فسادات اور تباہی کی صورتحال کے پس منظر میںپارلیمان کے ایوان زیریں میں وزیر اعطم نریندر مودی کی حکومت کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پیش کی ہے لیکن تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ اس سے مودی حکومت کو فائدہ ہو سکتا ہے۔

انڈیا کی اپوزیشن جماعتوں نے ریاست منی پور میں تین مہینے سے جاری نسلی فسادات اور تباہی کی صورتحال کے پس منظر میںپارلیمان کے ایوان زیریں میں وزیر اعطم نریندر مودی کی حکومت کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پیش کی ہے۔
اپوزیشن کا الزام ہے کہ مرکزی حکومت منی پور میں نسلی فسادات روکنے میں ناکام ہی نہیں ہوئی بلکہ وہ اس صورتحال پر قابو پانے کے لیے کوئی عملی اقدام بھی اٹھاتی نظر نہیں آ رہی ہے۔
انڈیا میں حزب اختلاف کی جماعتیں وزیر اعظم مودی سے منی پور کی صورتحال پر پارلیمنٹ میں تقریر کرنے کا مطالبہ کر رہی تھیں لیکن حکومت نے قواعد و ضوابط کا حوالہ دیتے ہوئے اپوزیشن کے اس مطالبے کو مسترد کر دیا۔
یہ صورتحال دیکھتے ہوئے اب اپوزیشن نے عدم اعتماد کی تحریک پیش کی ہے جس کے پس پردہ مقاصد یہ ہیں کہ وزیراعظم کو منی پور کے حالات پر بولنے پر مجبور کیا جائے۔
لوک سبھا کے سپیکر نے اپوزیشن کی اس تحریک کو منظور کر لیا ہے اور اب یہ توقع کی جا رہی ہے کہ وہ تحریک پر بحث کے لیے تاریخ کا تعین جلد کریں گے۔
منی پور کا مسئلہ کیا ہے؟
منی پور میں تین مہینے سے میتی اور کوکی قبائل کے درمیان نسلی فسادات جاری ہیں۔ ان فسادات میں ڈیڑھ سو سے زیادہ افراد مارے جا چکے ہیں اور ہزاروں مکانات جلا دیے گئے ہیں۔
50 ہزار سے زیادہ لوگوں نے ریلیف کیمپوں میں پناہ لے رکھی ہے۔ ریاست منی پور میں بی جے پی اقتدار میں ہے، اسی لیے ریاستی اور مرکزی حکومت پرفسادات نہ روکنے کے لیے بے عملی اور نااہلی کا الزام لگایا جا رہا ہے۔
منی پور کی صورتحال پر فسادات کے لگ بھگ دو مہینے بعد وزیر اعظم پہلی بار اس وقت بولے جب دو خواتین کی برہنہ پریڈ کی ویڈیو پوری دنیا میں وائرل ہوئی۔
حزب مخالف کے ارکان پارلیمان کے ایک وفد نے گذشتہ سنیچر کو منی پور کے ریلیف کیمپوں کا دورہ کیا اور ریپ اور تشدد کے متاثرین سے ملاقاتیں کی ہیں۔
دورے کے اختتام پر وفد نے کہا ہے کہ ریاست میں امن و قانون کا نظام ختم ہو چکا ہے اور ریاستی حکومت عوام کا اعتبار پوری طرح کھو چکی ہے۔
ملک کے سابق وزیر داخلہ اور کانگریس کے سینیئر رہنما پی چدامبرم نے ایک مضمون میں لکھا ہے کہ ’منی پور میں جو ہو رہا ہے وہ معمول کا ٹکراؤ نہیں ہے۔ یہ ریپ اور قتل کا اتفاقیہ واقعہ نہیں ہے۔
’یہ ذاتی مفاد کے لیے لوٹ اور غارت گری کا بھی معاملہ نہیں ہے، یہ نسل کشی کا آغاز ہے۔‘
حکومت نے اپنے دفاع میں اپوزیشن کے اقتدار والی ریاستوں بنگال، بہار، چھتیس گڑھ اور راجستھان میں خواتین پر ہونے والے مظالم کا معاملہ اٹھایا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ صرف منی پور پر ہی کیوں ان ریاستوں کی صورتحال پر بھی بحث ہونی چاہیے۔
عدم اعتماد کی تحریک کا مقصد کیا ہے؟
عدم اعتماد کی تحریک کا بنیادی مقصد وزیر اعظم نریندر مودی کو منی پور کے سوال پر بولنے کے لیے مجبور کرنا ہے۔
صحافی نیرجا چودھری کہتی ہیں کہ ’منی پور کا مسئلہ ملک میں اتنا طول پکڑ چکا ہے لیکن وزیر اعطم اس پر خاموش رہے۔ اگر انھوں نے وہاں کے حالات پر بیان دے دیا ہوتا تو اپوزیشن کا یہ حربہ کمزور پڑ جاتا۔ سیاسی اعتبار سے یہ بات سمجھ میں نہیں آ رہی ہے کہ انھوں نے پارلیمنٹ میں کوئی بیان کیوں نہیں دیا؟‘
سیںیئر تجزیہ کار رام دت ترپاٹھی کہتے ہیں کہ ’عدم اعتماد کی تحریک کا مقصد یہ نہیں ہوتا کہ حکومت کو گرا ہی دیا جائے۔ یہ حکومت کی پالیسیوں پر تنقید کرنے کا سب سے بڑا موقع ہوتا ہے۔
’سیاست میں اپوزیشن کی یہ ذمے داری ہوتی ہے کہ وہ حکومت کی مخالفت کرے اور اس کی کمیوں کو اجاگر کرے، اپوزیشن اس تحریک کے ذریعے عوام کو یہ بتانے کی کوشش کرتی ہے کہ حکومت اچھی طرح کام نہیں کر رہی ہے۔‘
مودی کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کامیاب ہوتی نظر نہیں آتی
مرکز یا ریاست میں جب اپوزیشن کو لگتا ہے کہ حکومت کے پاس ایوان چلانے کے لیے مطلوبہ اکثریت نہیں ہے یا وہ ایوان کی اکثریت کا اعتماد کھو چکی ہے تب وہ عدم اعتماد کی قرارداد لے کر آتی ہے۔ اسے لوک سبھا یعنی ایوان زیریں میں پیش کیا جاتا ہے۔
اس قرار داد کو پیش کرنے کے لیے ایوان کے کم از کم 50 ارکان کی حمایت لازمی ہے۔
بحث کے لیے منظوری ملنے کے بعد حکمراں جماعت کو ایوان میں اپنی اکثریت ثابت کرنی پڑتی ہے۔ عدم اعتماد کی قرارداد پر بحث کے بعد ووٹنگ ہوتی ہے اور فیصلہ اکثریت کی ووٹ کی بنیاد پر ہوتا ہے۔
اگر قرارداد کے حق میں ووٹ آئے تو حکومت گر جاتی ہے اور اگر تحریک کے خلاف زیادہ ووٹ آتے ہیں تو حکومت برقرار رہتی ہے۔
545 رکنی لوک سبھا میں مودی حکومت کو 300 سے زیادہ سیٹوں کی اکثریت حاصل ہے۔
عدم اعتماد کی تحریک پر بحث کے بعد ووٹنگ میں مودی حکومت کے شکست کھانے کا کوئی امکان نظر نہیں آتا۔ سنہ 1963 سے لوک سبھا میں عدم اعتماد کی 27 تحریکیں پیش ہوئیں لیکن ایک بھی کامیاب نہیں ہو سکی۔
عدم اعتماد کی تحریک پر بحث کا موضوع کیا ہو گا؟
عدم اعتماد کی تحریک میں بحث کا مرکزی موضوع منی پور کا نسلی فساد ہے۔
صحافی شرد گپتا کہتے ہیں کہ ’اپوزیشن جماعتیں یقینی طور پر منی پور کے حالات پر حکومت کو گرفت میں لینا چاہیں گی کہ تین مہینوں سے وہاں فسادات پر قابو کیوں نہیں پایا جا سکا۔
’وہ حکومت کو کٹہرے میں کھڑا کرنے کی کوشش کریں گی۔ وہ یہ بتانے کی کوشش کریں گی کہ ہزاروں نیم فوجی فورسز کی تعیناتی کے باوجد ابھی تک تشدد کے واقعات کیوں رونما ہو رہے ہیں۔‘
تجزیہ کار رام دت ترپاٹھی کا کہنا ہے کہ ’ایسا نہیں ہے کہ ساری بحث منی پور پر ہی مرکوز ہو گی اس میں امیروں اور غریبوں کے درمیان بڑھتی خلیج، مہنگائی، چین سے تعلقات، لداخ کی صورتحال، بیروزگاری، معاشی صورتحال اور کسانوں کو درپیش مسائل بھی زیر بحث آئیں گے۔
’حکومت اپنی نو سال کی کارکردگی کو اجاگر کرنے کی کوشش کرے گی۔‘
کیا مودی کی طاقتور حکومت کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لا کر اپوزیشن پھنس گئی ہے؟
دائیں بازو کے سرکردہ نظریہ ساز ڈاکٹر شوبھبروکمل دتا کا خیال ہے کہ اپوزیشن نے ملک کے موجودہ سیاسی تناظر میں سیاسی ناعاقبت اندیشی کا مظاہرہ کیا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ ’جب اپوزیشن کو کسی طرف سے کامیابی نہیں ملی تو وزیراعظم مودی کو بولنے کے لیے مجبور کرنے کی غرض سے اپوزیشن نے عدم اعتماد کی تحریک کا سیاسی شگوفہ چھوڑا ہے۔
’اب صرف منی پور پر بحثنہیں ہو گی، اب تو بنگال بھی آئے گا، بہار بھی آئے گا، چھتیس گڑھ اور راجستھان پر بھی بات ہو گی۔ ان ریاستوں میں بھی خواتین پر بہت ظلم ہوا ہے، اپوزیشن کو اس کا جواب دینا پڑے گا۔‘
یہ بحث ایک ایسے وقت میں ہو گی جب لوک سبھا میں اپوزیشن کانگریس کے رہنما راہل گاندھی نہیں ہوں گے کیونکہ کچھ عرصہ قبل ہتک عزت کے ایک معاملے میں دو سال کی سزا ہونے کے بعد ان کی پارلیمنٹ کی رکنیت معطل کر دی گئی تھی۔
لوک سبھا میں وہ وزیر اعظم کی تقاریر کا ہمیشہ نشانہ ہوتے تھے اور مودی کے لیے اب کسی اور کو ہدف بنانا مشکل امر ہو گا۔ لوک سبھا میں اپوزیشن کے پاس اعلی قیادت میں اچھے مقرر بھی نہیں ہیں۔
ڈاکٹر شبھروکمل دتا کہتے ہیں کہ ’یہ ایک بہت حساس سوال ہے۔ وزیر اعظم نے ویڈیو سامنے آتے ہی پورے ملک کی طرف سے ان واقعات کی مذمت کی، یہ صرف منی پور کا سوال نہیں ہے۔
’خواتین کے ساتھ ملک میں کہیں بھی گھمبیر جرائم ہوتے ہیں تو یہ پورے ملک کے لیے شرم کی بات ہے، اس سوال پر سیاست نہیں کی جانی چاہیے۔ اس پر پارلیمنٹ کے اندر اور باہر مثبت طریقے سے بات ہونی چاہیے تاکہ اس پر اتفاق رائے پیدا کیا جا سکے تاکہ منی پور، چھتیس گڑھ، بنگال، راجستھان اور بہار جیسے واقعات رونما نہ ہوں۔‘
ڈاکٹر دتا کا کہنا ہے کہ اپوزیشن عدم اعتماد کی تحریک لا کر خود اپنے ہی سیاسی حربے میں پھنس گئی ہے۔ معروف تجزیہ کار آرتی جے رتھ کا بھی یہی خیال ہے کہ لوک سبھا میں اپوزیشن کے پاس کوئی اچھا مقرر نہیں ہے جو مودی کا مقابلہ کر سکے۔
’جو اچھے سپیکر ہیں وہ راجیہ سبھا میں ہیں، مودی کی تقریریں بہت موثر ہوتی ہیں، انھیں ہلانا مشکل ہو گا، اس لیے اس بحث میں مودی کو فائدہ ہو سکتا ہے۔‘
آرتی جے رتھ کہتی ہیں کہ ’حکمراں بی جے پی کے پاس نمبر ہے، اور وہ یقیناً اس بحث میں جیتیں گے، لیکن یہ تاثرات کی لڑائی ہے، یہ بات اہم ہو گی کہ عوام اس بحث سے کیا نتیجہ نکالتے ہیں۔ وہ یہ سوچیں گے کہ اپوزیشن نے مودی کوشکست فاش دی ہے یا وہ یہ محسوس کرتے ہیں کہ حکومت سے منی پور میں جو غلطیاں ہوئی ہیں اس کا جواب دینے سے وہ دامن بچا رہی ہے۔ یہ پرسیپشن بہت اہم ہو گا۔‘
انھوں نے کہا کہ یہ بحث ایک ایسے وقت میں ہو رہی ہے جب فضا میں پارلیمانی انتخابات کی بازگشت سنائی دینے لگی ہے اور یہ بحث حکمراں بی جے پی اور ابھرتی ہوئے اپوزیشن اتحاد، دونوں کے لیے انتہائی اہمیت کی حامل ہو گی۔