سعد مسجد میں نائب امام اور مؤذن تھے اور امام کی غیر موجودگی میں امامت کیا کرتے تھے۔ سوشل میڈیا پر وائرل ویڈیو میں ان کو ایک دعائيہ نظم پڑھتے سنا جا سکتا ہے۔
سعد انور گڑگاؤں کے سیکٹر 57 کی مسجد میں امامت کے فرائض انجام دے رہے تھےانڈیا کے دارالحکومت دلی سے ملحق گروگرام (گڑگاؤں) کی مسجد پر سوموار اور منگل کی نصف شب کو حملہ کرنے والوں کے ہاتھوں امام مسجد کی موت ہو گئی لیکن بدھ کے روز ان کی ایک ویڈیو وائرل ہوئی ہے، جس پر سوشل میڈیا پر بات کی جا رہی ہے۔
اس ویڈیو میں مسجد کے نوجوان امام کو ایک دعائيہ نظم پڑھتے سنا جا سکتا ہے۔
بی بی سی آزادانہ طور پر اس ویڈیو کی تصدیق نہیں کر سکا لیکن اس میں نظر آنے والے شخص سعد انور ہیں اور ان کا تعلق شمالی ریاست بہار سے ہے۔
وہ گذشتہ چند ماہ سے گڑگاؤں کے سیکٹر 57 کی مسجد میں امامت کے فرائض انجام دے رہے تھے۔
خیال رہے کہ سخت گیر ہندو تنظیم وشو ہندو پریشد اور بجرنگ دل نے پیر کو انڈیا کے دارالحکومت دہلی سے ملحقہ ریاست ہریانہ کے ضلع میوات کے علاقے نوح ضلعے میں مذہبی جلوس نکالا تھا۔
اس جلوس کے دوران دو گروپوں میں تصادم ہوا جس کے بعد کئی جگہوں سے تشدد کی خبریں آئیں جن میں درجنوں افراد زخمی ہوئے۔
مقامی افراد کے مطابق پولیس کی جانب سے علاقے میں مساجد کو سکیورٹی بھی فراہم کی گئی تھی تاہم اس کے باوجود رات گئے مساجد پر حملوں کی اطلاعات آتی رہیں۔
اس دوران گروگرام (گڑ گاؤں) کے سیکٹر 57 میں واقع ایک مسجد میں آگ لگا دی گئی، جس کے نتیجے میں مسجد کے نائب امام سعد انور ہلاک ہو گئے۔
ویڈیو میں کیا ہے؟
دو گروپوں میں تصادم کے بعد کئی جگہوں سے تشدد کی خبریں آئیں جن میں درجنوں افراد زخمی ہوئےسوشل میڈیا پر گردش کرتی ویڈیو میں سعد انور ایک دعائیہ نظم کو ترنم سے پڑھ رہے ہیں۔ اس نظم کے بول کچھ یوں ہیں:
’ظالم ہوں انسان بنا دے یا اللہ
گھر کی مرے دیوار ہٹا دے یا اللہ
ہندو مسلم بیٹھ کے کھائیں تھالی میں
ایسا ہندوستان بنا دے یا اللہ، ایسا ہندوستان بنا دے یا اللہ‘
سوشل میڈیا پر یہ ویڈیو ابھیشیک آنند نامی صحافی نے شیئر کی ہے، جسے ساڑھے پانچ لاکھ سے زیادہ بار دیکھا جا چکا ہے۔
اس کے ساتھ انھوں نے لکھا کہ ’یہ امام سعد ہیں۔ ایسا گیت گاتے تھے۔ کل رات گروگرام میں انھیں مار دیا گیا۔‘
مسجد کے امام سعد کے بھائی شاداب انور نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’میرا بھائی موقعے پر ہی مارا گیا تھا۔ جنھوں نے بھی یہ کیا ان کی دشمنی تو مسجد والوں سے ہونی چاہیے تھی نہ کہ امام سے، وہ بیچارہ تو نوکری کر رہا تھا۔‘
ان کے بھائی نے بتایا کہ سعد مسجد میں نائب امام اور مؤذن تھے اور امام کی غیر موجودگی میں امامت کیا کرتے تھے۔

’یہ وہ امام ہیں جو ملک میں امن کی دعا کر رہے تھے‘
ابھیشیک کے ٹویٹ کا جواب دیتے ہوئے ایک صارف نے لکھا کہ ’آج ملک کے حالات اتنے خراب ہیں کہ اگر کوئی ہندو کسی مسلمان بھائی کے اچھے کام کی تعریف کردے تو لوگ اسے ملا اور مغل کی اولاد کہنے لگتے ہیں اور اگر کوئی مسلمان بھائی کسی ہندو بھائی کے اچھے کام کی تعریف کردے تو اس کے خلاف فتویٰ جاری ہو جاتا ہے اور اسے اسلام سے خارج کرنے کی دھمکی دی جاتی ہے۔‘
انھوں نے مزید لکھا کہ ’سب سے درخواست ہے کہ بھائی چارہ قائم رکھیں، ملک بڑا ہوتا ہے، اگر ملک نہ رہے تو دھرم کا کیا کریں گے۔‘
ذاکر علی تیاگی نامی صارف نے اسی ویڈیو کو شیئر کیا اور لکھا کہ ’یہ اس مسجد کے امام ہیں جو ملک میں امن اور چین کے لیے اللہ سے دعا کر رہے تھے۔'
امریش مشرا نامی ایک صارف نے ویڈیو کے ساتھ لکھا کہ اب یہ واضح ہے کہ دہشتگرد تنظیمیں ہندو مسلم اتحاد اور ملک کو توڑ رہی ہیں۔
کانگریس کی رہنما الکا لامبا نے ابھیشیک کی ویڈیو کے جواب میں کہا کہ ’ہندو مسلم اتحاد کی بات کرنے والے خدا کے بندے کو کٹر ہندوتوا والوں نے مار ڈال۔ انڈیا جوڑو، نفرت چھوڑو۔‘