انڈیا کے مسلم اکثریتی ضلع میں تشدد کی وہ چنگاری جس نے چھ افراد کی جان لے لی

کیا یہ ایک سوچی سمجھی سازش تھی؟ یہ سب کب اور کیسے شروع ہوا؟ کیا انتظامیہ کو اس کا علم تھا؟ کیا جان و مال کے نقصان کو روکا جا سکتا تھا؟ یہ وہ سوالات ہیں جو اس وقت خوف میں مبتلا اکثر افراد کے ذہن میں ہیں۔
سنسان سڑکیں
BBC

دارالحکومت دہلی سے ملحقہ ریاست ہریانہ کے ضلع نوح کی سڑکوں پر عام دنوں میں چہل پہل رہا کرتی تھی لیکن اس وقت خاموشی ہے البتہ گشت کرتے نیم فوجی دستوں کی آوازیں ضرور سنی جا سکتی ہیں۔

انتظامیہ نے جلی ہوئی گاڑیوں کو سڑکوں سے ہٹا دیا ہے لیکن ان کے نشانات سڑکوں پر اب بھی موجود ہیں جو پیر کو ہونے والے مذہبی فسادات کی گواہی دیتے ہیں۔

گذشتہ تین روز سے کرفیو کے باعث لوگ گھروں میں قید ہیں اور دکانوں کے باہر تالے پڑے ہیں۔ گذشتہ روز جمعے کی نماز کے لیے پہلی بار کرفیو میں نرمی کی گئی۔

نوح میں فرقہ وارانہ تشدد تو ختم ہو چکا ہے لیکن آس پاس کے شہروں سے آتشزدگی کی خبریں مسلسل آ رہی ہیں جس کی وجہ سے شہر میں کشیدگی بدستور محسوس کی جا سکتی ہے۔

31 جولائی بروز پیر نوح کا علاقہ دن بھر جلتا رہا۔ مجمع میں کچھ لوگ تلواریں، لاٹھیاں اور بندوقیں لہراتے نظر آئے۔ شہر میں جگہ جگہ ہزاروں لوگ اپنی جان بچانے کے لیے ادھر ادھر بھاگتے نظر آئے۔

یہاں کے لوگوں نے یہ مناظر پہلے کبھی نہیں دیکھے تھے۔ آزادی کے بعد پہلی بار اس علاقے میں پھوٹنے والے فرقہ وارانہ تشدد نے نوح کے ہندو مسلم باہمی بھائی چارے پر ایسے سیاہ دھبے ڈال دیے ہیں جنھیں بھلانا اور مٹانا آسان نہیں ہو گا۔

سوال یہ ہے کہ کیا شہر میں اتنے بڑے پیمانے پر یہ تشدد اچانک کیسے پھوٹ پڑا؟

کیا یہ ایک سوچی سمجھی سازش تھی؟ یہ سب کب اور کیسے شروع ہوا؟ کیا انتظامیہ کو اس کا علم تھا؟ کیا جان و مال کے نقصان کو روکا جا سکتا تھا؟ یہ وہ سوالات ہیں جو اس وقت خوف میں مبتلا اکثر افراد کے ذہن میں ہیں۔

فرقہ وارانہ تشدد کیسے شروع ہوا؟

ہندو مسلم فسادات کا مرکز نوح ہریانہ کا ایک ضلع ہے جس کی سرحد راجستھان کے ساتھ ملتی ہے۔ یہ علاقہ میوات کے نام سے مشہور بڑے علاقے کا ایک حصہ ہے۔

میوات کے علاقے میں ہریانہ، راجستھان اور اتر پردیش کے کچھ حصے شامل ہیں جو مسلم اکثریتی علاقے ہیں۔

یہ علاقہ معاشی اور سماجی طور پر پسماندہ ضرور ہے لیکن یہاں سے کبھی فرقہ وارانہ تشدد یا فسادات جیسی خبریں نہیں آئیں، لیکن پیر کو جو کچھ ہوا اس نے سب کچھ بدل کر رکھ دیا۔

سب سے پہلے، 31 جولائی کو راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) سے منسلک تنظیم بجرنگ دل کی قیادت میں برجمنڈل (میوات) جلابھیشیک یاترا کا اہتمام کیا گیا۔

پروگرام کے مطابق اس یاترا کو نہلاد کے شیو مندر سے 35 کلومیٹر دور فیروز پور جھرکا کے جھیر مندر پہنچنا تھا اور پھر وہاں سے تقریباً 30 کلومیٹر دور پنہانا کے کرشنا مندر جانا تھا۔

بجرنگ دل اور وشو ہندو پریشد نے ہریانہ صوبے کے تمام اضلاع سے اپنے کارکنوں اور عقیدت مندوں کو اس یاترا میں شرکت کے لیے مدعو کیا تھا۔

پانی پت کے ایک بجرنگ دل کے کارکن مہیش کمار (جو یاترا میں شامل تھے) نے کہا: '50 لوگ صبح 6 بجے ایک بس میں پانی پت سے روانہ ہوئے، جو نوح سے تقریباً 180 کلومیٹر دور ہے۔ ہم صبح گیارہ بجے نلہڈ کے شیو مندر پہنچے۔ یہاں ہزاروں لوگ آئے ہوئے تھے۔ بھنڈارا اور جلابھیشیک کا پروگرام 12 بجے تک چلتا رہا۔

دوپہر کے وقت مندر کے اندر اور باہر کافی ہجوم تھا۔ 50 سے زائد بسیں اور کاریں سڑکوں پر کھڑی تھیں اور لوگ آتے جاتے رہے۔

'جیسے ہی ہم آگے بڑھے پتھراؤ شروع ہو گیا'

مہیش کے مطابق دوپہر 12.30 بجے برجمنڈل یاترا فیروز پور جھرکا کے جھیر مندر کے لیے روانہ ہوئی۔

لوگ بسوں اور کاروں میں بیٹھ کر نکلنے لگے۔ یاترا میں سینکڑوں خواتین اور بچے بھی شامل تھے لیکن جیسے ہی یاترا تقریباً دو کلومیٹر آگے بڑھ کر مین روڈ پر پہنچی تو پتھراؤ شروع ہو گیا۔

نوح کے ایک مقامی رہائشی مصطفیٰ خان کا کہنا ہے کہ 'یاترا میں شامل لوگ مین روڈ پر پہنچے اور مونو مانیسر زندہ باد کے نعرے لگائے، جس کے بعد تشدد پھوٹ پڑا۔'

یاترا کی کئی دیگر ویڈیوز جو سوشل میڈیا پر وائرل ہو رہی ہیں ان میںبھی کچھ لوگ 'مونو مانیسر زندہ باد' کے نعرے لگا رہے ہیں۔

نوح کے مقامی رہائشی وسیم خان کا کہنا ہے کہ لوگ مونو مانیسر کے بارے میں ناراض تھے اور یاترا میں شامل لوگ مذہبی نعرے لگا رہے تھے جس سے ماحول خراب ہو گیا۔

مونو مانیسر نے ایک ویڈیو جاری کر کے تشدد کے الزامات پر وضاحت کی ہے۔ انھوں نے کہا: 'میوات کے چھوٹے یوٹیوبرز نے ماحول کو خراب کر دیا۔ پولیس نے صحافیوں کو پہلے ہی بتا دیا تھا کہ مونو مانیسر نہیں آئے گا، اس کے بعد بھی مقامی یوٹیوب والوں نے ماحول خراب کیا۔'

مونو مانیسر نے کہا کہ تشدد سے تین دن پہلے انھوں نے جو ویڈیو جاری کیا تھا اس میں 'ایک لفظ بھی غلط نہیں تھا' اور انھوں نے صرف لوگوں سے اپیل کی کہ وہ یاترا میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں، جو وہ ہر سال کرتے ہیں۔

سنجے کمار وہان ایک دکان چلاتے ہیں جہاں سے پتھراؤ شروع ہوا۔ انھوں نے کہا: 'بجرنگ دل کے لوگ دوپہر 1:30 بجے کے قریب یہاں آنے لگے۔ اچانک پتھراؤ شروع ہو گیا اور کچھ لوگ تلواروں کے ساتھ میری دکان میں گھس آئے اور توڑ پھوڑ شروع کر دی۔ میرے لڑکے بمشکل بچ نکلے اور ہجوم نے دکان کے باہر کھڑی ایک کار کو آگ لگا دی۔

دوپہر دو بجے نوح کی سڑکوں پر آتش زنی شروع ہو گئی۔ جو لوگ یاترا سے آگے تھے وہ مین روڈ پر پھنس گئے اور سینکڑوں لوگ واپس مندر کی طرف بھاگے۔

ابھیشیک
BBC
اہل خانہ کا کہنا ہے کہ ابھیشیک کی موت گولی لگنے سے ہوئی ہے

فائرنگ میں ہلاکت کا الزام

یاترا (مذہبی جلوس) میں شامل انوپ نے کہا: 'جیسے ہی ہمیں معلوم ہوا کہ آگے کا ماحول خراب ہے، ہم نے بس کو واپس مندر کی طرف موڑ دیا۔ ہمارے سامنے گاڑیاں جلائی جا رہی تھیں، گولیاں چل رہی تھیں، ہم کسی طرح جان بچا کر مندر کے قریب پہنچے۔

عینی شاہدین کے مطابق دوپہر سے شروع ہونے والا یہ تشدد شام 5 بجے کے قریب پھر سے بھڑک اٹھا اور اس بار بھیڑ نے شیو مندر کو گھیر لیا۔

نہلاد شیو مندر کے پجاری نے بی بی سی کو بتایا: ’شام کو ماحول مزید خراب ہو گیا۔ باہر فائرنگ ہو رہی تھی اور لوگ مندر میں پناہ لیے ہوئے تھے۔ اس وقت دو سے ڈھائی ہزار لوگ مندر کے اندر تھے۔

پانی پت کے رہنے والے مہیش کا دعویٰ ہے کہ وہ اس وقت اپنے چچا کے بیٹے ابھیشیک کے ساتھ مندر کے باہر تھے اور فائرنگ کے تبادلے میں ابھیشیک مارا گیا۔ وہیں پولیس کا کہنا ہے کہ پوسٹ مارٹم کے بعد ہی موت کی وجہ کی تصدیق ہوسکے گی۔

مندر کے آس پاس کئی مسلم گاؤں ہیں، جہاں تشدد کے بعد خاموشی پھیل گئی ہے۔ پولس کارروائی کے خوف سے کئی مسلم محلے خالی ہو گئے ہیں۔ فائرنگ کے سوال پر یہاں موجود لوگوں کا کہنا ہے کہ ’باہر سے کچھ شرارتی عناصر مقامی لوگوں کے ہجوم میں گھس گئے۔ یہاں کے لوگوں نے کسی پر گولی نہیں چلائی۔'

نوح سے شروع ہونے والا تشدد شام دیر گئے ہریانہ کے سوہنا اور گروگرام تک پہنچا، جہاں ہجوم نے مسلمانوں کی املاک کو نقصان پہنچایا اور آگ لگا دی اور مسجد کے 22 سالہ نائب امام محمد سعد کو قتل کر دیا گيا۔

ہریانہ کے وزیر اعلیٰ منوہر لال اس فرقہ وارانہ تشدد کو ایک سوچی سمجھی سازش قرار دیتے ہیں۔ میڈیا سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ جیسے ہی ہمیں اس واقعہ کا علم ہوا، ہم نے پولیس کے اعلیٰ حکام کو موقع پر بھیجا جس میں ڈی جی پی، اے ڈی جی، ڈی جی پی لاء اینڈ آرڈر اور قریبی اضلاع کی پولیس شامل تھی۔

انھوں نے کہا: 'کچھ لوگوں نے سازش رچی اور یاترا پر حملہ کرنا شروع کر دیا، نہ صرف یاترا بلکہ پولیس کو بھی نشانہ بنایا گیا۔ جس کے بعد یاترا میں بھی خلل پڑا اور کئی مقامات پر آتش زنی کے واقعات بھی پیش آئے۔ یقینی طور پر یہ کسی بڑی سازش کا حصہ لگتا ہے۔'

ہریانہ حکومت کے مطابق امن برقرار رکھنے کے لیے نیم فوجی دستوں کی 14 کمپنیاں نوح میں، تین پلول میں، دو گروگرام میں اور ایک کمپنی فرید آباد میں تعینات کی گئی ہیں۔

وزیراعلیٰ کے مطابق تشدد میں اب تک چھ افراد ہلاک ہوچکے ہیں جن میں دو پولیس اہلکار بھی شامل ہیں۔ ساتھ ہی 116 لوگوں کو گرفتار کیا گیا ہے اور 90 لوگوں کو حراست میں لے کر پوچھ گچھ کی جا رہی ہے۔

وشو ہندو پریشد کے کارگزار صدر آلوک کمار نے اس تشدد کے لیے پولیس انتظامیہ پر سوال اٹھایا ہے۔ انھوں نے کہا:'برج منڈل یاترا ہر سال ہوتی ہے۔ بیس ہزار لوگ حصہ لیتے ہیں، یہ سب جانتے تھے۔ پولیس نے اس کی تیاری نہیں کی لیکن مسلمانوں نے کی۔ کئی دنوں سے پتھر اکٹھے کیے جا رہے تھے۔ منصوبہ بنایا جا رہا تھا۔ سفر ابھی ایک کلومیٹر ہی بڑھا تھا کہ حملہ ہوگیا۔ یہ انٹیلیجنس کی بہت بڑی غلطی ہے۔'

مونو مانیسر
BBC
مونو مانیسر کے خلاف دو مسلم نوجوانوں کے اغوا اور قتل کا الزام ہے

تشدد کے پس پشت وجہ؟

یہ فرقہ وارانہ تشدد شروع ہونے سے پہلے ہی نوح کے علاقے میں بہت غصہ تھا۔ سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والے ویڈیوز اس کی وجہ ہیں۔ یہ ویڈیوزبجرنگ دل کے ہریانہ علاقے کے گاؤ رکشا گروپ کے سربراہ مونو مانیسر، بٹو بجرنگی اور فیروز پور جھڑکا کے کانگریس ایم ایل اے مامن خان کے ہیں۔

ایک ویڈیو میں مونو مانیسر کہہ رہے ہیں: 'تمام بھائی جوش و خروش سے شرکت کریں اور میوات کے تمام مندروں میں زیادہ سے زیادہ تعداد میں پہنچیں۔ ہم خود بھی یاترا میں شریک ہوں گے۔ ہماری پوری ٹیم اس میں شامل ہوگی۔'

یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ مونو مانیسر کے خلاف میوات کے دو نوجوانوں ناصر اور جنید کے قتل سمیت کئی سنگین جرائم کے مقدمات درج ہیں، مونو مانیسر کے ویڈیوز آتے رہے ہیں لیکن پولیس کا کہنا ہے کہ وہ مفرور ہیں۔

ایسی ہی ایک ویڈیو بٹو بجرنگی کی ہے۔ وہ خود کو گائے کا محافظ بتاتے ہیں۔ اس ویڈیو میں وہ کہہ رہے ہیں: 'میں پوری لوکیشن دے دوں گا کہ میں کہاں کہاں آ رہا ہوں۔ نہیں تو یہ کہیں گے کہ بتایا نہیں کہ ہم سسرال آئے اور ملاقات نہیں ہوئی، اس لیے ہم پوری لوکیشن دیں گے۔ ابھی ہم پالی میں ہیں اور دھونس کے ساتھ نکلیں گے۔ پھولوں کے ہار تیار رکھیں۔ کوئی دقت نہیں ہے۔'

اس ویڈیو میں پیچھے سے آواز سنائی دے رہی ہے کہ 'جیجا تمہارے آ رہے ہیں' جس پر بٹو بجرنگی ہامی بھرتے نظر آ رہے ہیں۔

ایک ویڈیو میں فیروز پور جھڑکا کے کانگریس ایم ایل اے مامن خان نے اسمبلی میں مونو مانیسر کو دھمکی دی تھی۔ تشدد کے بعد میڈیا سے بات کرتے ہوئے انھوں نے اپنے بیان کی وضاحت کی۔ 'میں نے یہ بات (پیاز کی پھوڑنے کی) سرعام نہیں کہی تھی۔ میں نے یہ بات حکومت سے کہی تھی کہ حکومت ان (مونو مانیسر) پر لگام لگائے تاکہ بھائی چارہ خراب نہ ہو۔'

مقامی رہائشی مصطفیٰ خان کا کہنا ہے کہ ’تشدد سے پہلے بھی لوگوں نے انتظامیہ کو بتایا تھا کہ اس طرح کی ویڈیوز بنا کر ماحول خراب کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے، لیکن پولیس کو جس تیزی کا مظاہرہ کرنا چاہیے تھا وہ نظر نہیں آیا۔'

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے تھانہ نوح کے ایک پولیس افسر نے کہا: ’ہم نے دونوں فریقین کو بٹھا کر بات چیت بھی کروائی تاکہ یاترا کے دن کوئی گڑبڑ نہ ہو۔ پریس میں یہ بات بھی سامنے آئی کہ مونو مانیسر یاترا میں حصہ نہیں لے رہے ہیں۔'

مونو مانیسر پر تشدد بھڑکانے کا الزام ہے۔ بی بی سی نے ان کا جواب حاصل کرنے کے لیے کئی بار ان سے فون پر رابطہ کرنے کی کوشش کی لیکن انھوں نے بات نہیں کی۔

میوات کیوں جل رہا ہے؟

میوات کے لوگ مونو مانیسر اور بجرنگ دل کے لوگوں سے ناراض ہیں اور اس کی وجہ گذشتہ کئی سالوں سے علاقے میں مبینہ طور پر گاؤ رکشکوں کی بڑھتی ہوئی تعداد اور ان سے متعلق واقعات ہیں۔

راجستھان کے بھرت پور کے رہنے والے ناصر اور جنید کو فروری کے مہینے میں کچھ مبینہ گاؤ رکشکوں نے جلا کر ہلاک کر دیا تھا۔

متاثرہ خاندان نے اس کے پیچھے مونو مانیسر کا ہاتھ بتایا تھا۔

اس معاملے میں راجستھان پولیس کئی مہینوں سے مونو مانیسر کو گرفتار کرنے کی کوشش کر رہی ہے لیکن اس میں کامیاب نہیں ہو سکی ہے جبکہ مونو کھلے عام میڈیا کو انٹرویو دے رہے ہیں۔

اس واقعے سے چند روز قبل جنوری کے مہینے میں نوح کے رہائشی 21 سالہ وارث کی مشتبہ حالات میں موت ہو گئی تھی، اس معاملے میں بھی مقتول کے اہل خانہ نے مونو مانیسر پر قتل کا الزام لگایا تھا۔ اس وقت بھی مونو مانیسر کی موقع پر موجودگی کی تصویریں منظر عام پر آئی تھیں۔

اس وقت بی بی سی سے بات کرتے ہوئے مونو نے کہا تھا کہ ’وارث گائے کی اسمگلنگ کرتا تھا اور ہمارے کارکنان اس کا پیچھا کر رہے تھے، اس کی موت ایک سڑک حادثے میں ہوئی، میں حادثے کے کچھ دیر بعد پہنچا اور میں نے پہنچتے ہی وارث کو چائے پلائی اوراسے ہسپتال پہنچاوایا۔'

یہ دونوں واقعات میوات کے لوگوں کی زبان پر ہیں جنھیں وہ بھلا نہیں پائے۔ پچھلے کچھ سالوں سے مونو مانیسر سمیت گائے کے محافظوں پر مارپیٹ اور تشدد کے مسلسل الزامات لگ رہے ہیں۔ بجرنگ دل سے وابستہ گائے کے محافظوں نے ہریانہ کے اضلاع میں اپنی ٹیمیں تشکیل دے رکھی ہیں جو رات کے اندھیرے میں اطلاع ملنے پر مبینہ طور پر مویشیوں کے اسمگلروں کو پکڑتے ہیں۔

میوات کے مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ گاؤ رکھشکوں کا نشانہ ہمیشہ مسلمان ہوتے ہیں جس کی وجہ سے علاقے میں کافی عرصے سے خوف کا ماحول ہے۔

سینئر صحافی ہیمنت اتری کہتے ہیں: 'ہریانہ حکومت نے 2015 میں گائے کے تحفظ کا بل پیش کیا تھا۔ یہ بہت سخت قانون ہے، جس میں 10 سال تک کی سزا کا انتظام ہے۔ کسی بھی قانون کو نافذ کرنا حکومت اور پولس کی ذمہ داری ہے، لیکن حکومت اس میں گائے کے محافظوں کی مدد لے رہی ہے۔ ہریانہ حکومت نے ہر ضلع میں گائے کی ایک ٹاسک فورس بنائی ہے، جس میں سرکاری افسران کے ساتھ ایسے گائے کے محافظ بھی ممبر ہیں۔

وہ کہتے ہیں: 'نہ صرف مبینہ گاؤ رکشکوں کا تشدد، بلکہ گڑگاؤں میں کھلے میں نماز ادا کرنے سے بھی روکا جاتا ہے جس ماحول خراب ہوا ہے، یہ سب اس سلسلے کا حصہ ہیں کہ میوات کے ماحول کو کیسے خراب کیا جائے۔'

روایتی یاترا میں وی ایچ پی کا دخل

یہ پہلا موقع نہیں ہے جب میوات برج منڈل یاترا نوح کے نہلاد شیو مندر سے شروع ہوئی ہو۔ مقامی لوگوں کے مطابق یہ یاترا کئی دہائیوں سے جاری ہے۔

مقامی باشندے بتاتے ہیں کہ اس علاقے میں ہندوؤں کے تین بڑے مندر ہیں۔ گذشتہ کئی سالوں سے مقامی ہندو خاندان ان تینوں مندروں میں جاتے ہیں لیکن گذشتہ تین سالوں سے اس یاترا کی نوعیت بدل گئی ہے۔

سینیئر صحافی ہیمنت اتری کا کہنا ہے کہ ’یہ یاترا مقامی ہندو خاندانوں سے جڑی ہوئی ہے اور یہ ان کا عقیدہ ہے۔ لیکن پچھلے دو تین سالوں سے وی ایچ پی اور بجرنگ دل نے اس یاترا میں باہر سے لوگوں کو اکٹھا کرنا شروع کیا، تاکہ یہاں کے مسلمانوں پر دباؤ ڈالا جا سکے۔'

وہ کہتے ہیں: 'یہ یاترا میوات کے لوگوں کی ہے، اس میں پانی پت، حصار، بھیوانی اور کروکشیتر جیسے دور دراز کے اضلاع کے لوگ کیا کر رہے ہیں؟ یہ سازش کے تحت کیا جا رہا ہے۔ ہزاروں لوگ جمع تھے۔'

اس کے جواب میں وشو ہندو پریشد کے بین الاقوامی جوائنٹ جنرل سکریٹری ڈاکٹر سریندر جین نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا: 'اس طرح کی باتیں میو مسلمانوں کے طریقوں کو چھپانے کی کوشش ہے۔ پہلے لوگ آتے تھے لیکن ہم نے اس یاترا کا منظم کیا۔ اگر کوئی یہ کہتا ہے کہ صرف میوات کے ہندو ہی جا سکتے ہیں تو میرے خیال میں یہ یاترا کی اہمیت کی توہین ہے۔'

سریندر جین پر الزام ہے کہ انھوں نے یاترا کے دن مندر میں اشتعال انگیز تقریر کی تھی۔ سینیئر صحافی ہیمنت اتری کا کہنا ہے کہ 'یاترا سے پہلے مندر کے احاطے میں اشتعال انگیز تقریریں کی گئیں۔ کیا یاترا میں شامل لوگ کوئی جنگ لڑنے آئے تھے، وہ اپنے ہاتھوں میں ہتھیار لے کر کیا کر رہے ہیں؟'

اس کے جواب میں سریندر جین کا کہنا ہے کہ 'میں نے کوئی اشتعال انگیز تقریر نہیں کی، میں نے صرف اتنا کہا کہ ہم اپنی بیٹیوں کو اٹھنے نہیں دیں گے، ہم گائے کی حفاظت کریں گے۔'

انہوں نے کہا: ’کوئی بھی مذہبی یاترا میں ہتھیار نہیں لے جاتا ہے، لیکن جن کے پاس اسلحہ لے جانے کا لائسنس ہے وہ اپنے ساتھ لے جاتے ہیں۔ یاترا میں لوگوں کے پاس لائسنسی ہتھیار تھے۔ اگر وہ اسے استعمال نہ کرتے تو بہت سے لوگ مر چکے ہوتے۔

سوال یہ ہے کہ کیا میوات کا ماحول جان بوجھ کر خراب کیا جا رہا ہے؟

اگر ایسا ہے تو حکومت اسے روکنے کے لیے کیا کر رہی ہے؟ کیا حکومت کی جانب سے اسے روکنے کے لیے سنجیدہ کوششیں کی جا رہی ہیں؟


News Source

مزید خبریں

BBC

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Follow US