سماعت میں وقفے کے بعد جب ہم کمرہ عدالت سے باہر نکلے تو وہاں پر سکیورٹی پر تعینات ایک اہلکار موبائل فون پر بات کر رہا تھا اور وہ پنجابی میں یہ کہہ رہا تھا کہ ’اج پکا ٹنگن گے‘ یعنی آج عمران خان کو یقیناً سزا سنائی جائے گی۔

ایڈیشنل سیشنز جج ہمایوں دلاور کی عدالت میں سابق وزیر اعظم عمران خان کے خلاف توشہ خانہ کیس کی سماعت شروع ہونے سے قبل ہی پولیس کی بھاری نفری جوڈیشل کمپلیکس کے اطراف میں موجود تھی۔
سنیچر کی صبح اتنی زیادہ نفری پہلے کبھی بھی جوڈیشل کمپلیکس کے اندر اور باہر تعینات نہیں کی گئی تھی تاہم جلد ہی معلوم ہوا کہ یہ نفری تعینات کرنے کا مقصد عمران خان کی عدالت میں ممکنہ پیشی ہی ہے۔
یاد رہے کہ جمعہ کے روز عدالت نے عمران خان کو اس مقدمے میں ذاتی حیثیت میں پیش ہونے کا حکم دیا تھا۔ پولیس کی اتنی بھاری نفری کی موجودگی کے باعث جوڈیشل کمپلیکس میں موجود صحافیوں میں یہ چہ میگوئیاں شروع ہو گئیں کہ آج شاید کچھ خاص ہونے جا رہا ہے۔
تاہم سماعت شروع ہونے سے پہلے ہی سابق وزیر اعظم کی وکلا ٹیم میں شامل ایک رکن کا کہنا تھا کہ عمران خان اس وقت زمان پارک لاہور میں ہیں اور وہ اس عدالت میں پیش نہیں ہوں گے۔
سنیچر کو صبح ساڑھے آٹھ بجے سماعت کا جب آغاز ہوا تو عدالتی اہلکار نے معمول کے مطابق کمرہ عدالت کے باہر آ کر ’الیکشن کمیشن آف پاکستان بنام عمران احمد خان نیازی‘ کے مقدمے کی آواز لگائی۔
لیکن عمران خان کی طرف سے کوئی پیش نہ ہوا تو عدالت نے سماعت میں کچھ دیر کا وقفہ کر دیا اور وقفے کے بعد جب سماعت دوبارہ شروع ہوئی تو عمران خان کی وکلا ٹیم میں شامل بیرسٹر گوہر کے جونئیر وکیلخالد یوسف متعلقہ جج کے سامنے پیش ہوئے۔
انھوں نے عدالت کو آگاہ کیا کہ اُن کی لیگل ٹیم کے سربراہ خواجہ حارث اس وقت احتساب عدالت میں مصروف ہیں، اس لیے مزید کچھ وقت دیا جائے۔

عدالت نے استفسار کیا کہ ’بھائی بتاؤ کب تک آئیں گے؟ کیا ہم رات بارہ بجے تک بیٹھے رہیں؟‘ تاہم عدالت نے دوپہر 12 بجے کی مزید مہلت دیتے ہوئے عمران خان اور ان کے وکلا کو عدالت میں پیش ہونے کا حکم دیا۔
سماعت میں وقفے کے بعد جب ہم کمرہ عدالت سے باہر نکلے تو وہاں پر سکیورٹی پر تعینات ایک اہلکار موبائل فون پر بات کر رہا تھا اور وہ پنجابی میں یہ کہہ رہا تھا کہ ’اج پکا ٹنگن گے‘ یعنی آج انھیں یقیناً سزا سنائی جائے گی۔
ٹھیک دن کے بارہ بجے جب عدالت دوبارہ لگی تو عدالتی اہلکار نے الیکشن کمیشن بنام عمران احمد خان نیازی کے مقدمے کی دوبارہ صدا لگائی۔ ایک مرتبہ پھر نہ تو عمران خان اور نہ ہی ان کی وکلا ٹیم میں سے کوئی بھی پیش نہ ہوا جس کے بعد عدالت نے فیصلہ محفوظ کر لیا۔
الیکشن کمیشن کے وکیل امجد پرویز نے عدالت کو بتایا کہ کمیشن کا ایک نمائندہ احتساب عدالت میں گیا اور وہاں کے عدالتی عملے نے بتایا کہ نہ تو یہاں پر خواجہ حارث آئے ہیں اور نہ ہی ان کا عملہ پہنچا ہے کیونکہ 190 ملین پاؤنڈ کے مقدمے میں ضمانت قبل از گرفتاری پر درخواست کی سماعت دن ڈھائی بجے ہونا ہے۔
ایڈیشنل سیشنز جج ہمایوں دلاور نے اعلان کیا کہ وہ دن ساڑھے بارہ بجے فیصلہ سنائیں گے جس کے بعد وہ اپنے چیمبر میں چلے گئے۔
عدالتی فیصلہ محفوظ ہونے کے بعد خواجہ حارث، نیاز اللہ نیازی اور پی ٹی آئی وکلا ونگ سے منسلک وکیل رہنما کمرہ عدالت میں پہنچ گئے اور نیاز اللہ نیازی نے عدالتی عملے کو کہا کہ ’جائیں جا کر جج صاحب کو بتائیں کہ خواجہ حارث صاحب تشریف لے آئے ہیں۔‘ تاہم عدالتی عملے نے ان کی بات پر دھیان نہیں دیا۔
جب عدالتی فیصلہ محفوظ کر لیا گیا تو عمران خان کی لیگل ٹیم میں شامل ایک وکیل نے خواجہ حارث سے کہا کہ ’سر! ابھی ہم عمران خان کی حاضری سے استثنی کی درخواست دائر کرتے ہیں۔‘
خواجہ حارث نے ان کی طرف معنی خیز نظروں سے دیکھا اور خاموش رہے۔ اس کے بعد عمران خان کی وکلا ٹیم میں شامل افراد ایک دوسرے سے سوال کرتے رہے کہ عمران خان کی استثنیٰ کی درخواست کیوں دائر نہیں کی گئی جبکہ ان میں سے زیادہ تر وکلا اس وقت جوڈیشل کمپلیکس میں ہی موجود تھے۔
اس وکیل نے خواجہ حارث کو بتایا کہ مذکورہ جج نے جمعے کے روز میرے بارے میں توہین امیز الفاظ کہے ہیں تاہم خواجہ حارث نے اس کا کوئی جواب نہ دیا۔

ٹھیک دن ساڑھے بارہ بجے ایڈیشنل سیشنز جج ہمایوں دلاور فیصلہ سنانے کے لیے عدالت میں آئے تو عمران خان کی لیگل ٹیم کے سربراہ خواجہ حارث نے جج کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ وہ اسلام آباد ہائیکورٹ میں انھی کے خلاف درخواست دائر کرنے کے لیے گئے تھے لیکن وہاں پر موجود عملے نے انھیں اندر داخل ہونے نہیں دیا جس پر متعلقہ جج کا کہنا تھا کہ ’بڑے شوق سے میرے خلاف درخواست دائر کریں لیکن اِس وقت مجھے فیصلہ سنانے دیں۔‘
اس کے بعد عدالت نے فیصلہ سناتے ہوئے عمران خان کو توشہ خانہ سے حاصل کیے گئے تحائف کی الیکشن کمیشن میں جمع کروائے گئے گوشواروں میں غلط معلومات فراہم کرنے اور قومی خزانے کو نقصان پہنچانے کا مجرم قرار دیا۔ انھیں تین سال قید اور ایک لاکھ روپے جرمانے کی سزا سنائی گئی۔
عدالتی فیصلہ سنائے جانے کے بعد جوڈیشل کمپلیکس میں موجود پاکستان مسلم لیگ نواز کے لیگل ونگ کے کچھ وکلا نے عمران خان کے خلاف نعرے بازی کی تاہم دلچسپ امر یہ ہے کہ جب عدالتی فیصلہ سنایا گیا تو وہاں پر پاکستان تحریک انصاف کے بیانیے کے حمایتی وکلا قابل ذکر تعداد میں موجود تھے۔
لیکن کسی ایک نے بھی باہر آ کر احتجاج نہیں کیا اور نہ ہی نعرے بازی کی تاہم عمران خان کی لیگل ٹیم میں شامل وکلا کا کہنا تھا کہ وہ اس عدالتی فیصلے کو چیلنج کریں گے۔
عدالتی فیصلہ سنائے جانے کے بعد کمرۂ عدالت میں یہ گفتگو شروع ہو گئی کہ سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کو چھ جولائی 2018 کو جب پاناما کیس میں اسلام آباد کی احتساب عدالت سے سزا سنائی گئی تھی تو اس وقت خواجہ حارث ہی نواز شریف کے وکیل تھے اور اب پانچ اگست سنہ 2023 میں سابق وزیر اعظم عمران خان کو توشہ خانہ کے مقدمے میں سزا سنائی گئی تو خواجہ حارث ہی ان کے وکیل ہیں۔
اس پر ایک وکیل نے کہا کہ ’صرف 29 دنوں کا ہی تو فرق ہے‘ جس پر کمرۂ عدالت میں قہقہ بلند ہوا۔
