مونو منیسر: ہریانہ میں پرتشدد مذہبی فسادات کے مبینہ مرکزی کردار کون ہیں؟

دارالحکومت دہلی کی سرحد پر واقع ایک پوش شہر گروگرام (سابقہ گڑگاؤں) کے کچھ حصوں اور چند دیگر اضلاع میں سڑکوں پر پرتشدد فسادات دیکھنے میں آئیں جن میں دکانوں اور متعدد کاروں کو آگ لگا دی گئی تھی۔

ایک 28 سالہ شخص پر الزام ہے کہ وہ رواں ہفتے انڈیا کی شمالی ریاست ہریانہ میں پھوٹنے والے پرتشدد مذہبی فسادات میں مرکزی کردار تھا۔

رواں ہفتے دارالحکومت دہلی کی سرحد پر واقع ایک شہر گروگرام (سابقہ گڑگاؤں) کے کچھ حصوں اور چند دیگر اضلاع میں سڑکوں پر پرتشدد فسادات دیکھنے میں آئے جن میں دکانوں اور متعدد کاروں کو آگ لگا دی گئی تھی۔

ہندو اور مسلمان مشتعل گروہوں کے درمیان ہونے والے ان فسادات میں ایک مسجد کے امام سمیت چھ افراد مارے گئے تھے جبکہ پولیس اہلکاروں سمیت درجنوں افراد زخمی ہوئے تھے۔

پولیس کا کہنا ہے ضلع نوح میں پیر کی دوپہر کو ہندو قوم پرست گروپوں بجرنگ دل اور وشوا ہندو پریشد کی طرف سے ایک مذہبی جلوس پر پتھراؤ کے بعد تشدد پھوٹ پڑا تھا۔

لیکن انڈین پریس کی رپورٹس میں الزام عائد کیا گیا ہے کہ موہت یادیو، جنھیں مونو منیسر کے نام سے بھی جانا جاتا ہے ان ہندو مسلم فسادات کے مرکزی کردار ہیں۔

ضلع نوح کے رہائشی افراد اور متعدد مسلمان سیاستدانوں کا کہنا ہے کہ مذہبی جلوس سے دو دن قبل منیسر کی جانب سے ایک ویڈیو جاری کی گئی تھی جس نے اِن فسادات کو ہوا دی تھی۔

علاقے کے بہت سے مسلمان رہائشیوں نے انڈین میڈیا کو بتایا کہ ’اگر یہ ویڈیو جاری نہ کی جاتی تو نوح میں آگ نہ لگتی۔‘

منیسر کی ویڈیو میں وہ ہندوؤں کو پیر کو ہونے والی مذہبی ریلی میں ’بڑی تعداد میں شرکت‘ کی اپیل کر رہے تھے۔ اپنے پیغام میں انھوں نے کہا کہ ’میں خود بھی اپنی ٹیم اور حامیوں کے ساتھ اس ریلی میں موجود ہوں گا۔‘

بظاہر منیسر نے ویڈیو میں جو کچھ کہا وہ بے ضرر معلوم ہوتا ہے تو ان پر ان فسادات کو بھڑکانے کا الزام کیوں لگایا جا رہا ہے؟

منیسر ایک بس ڈرائیور کےبیٹے ہیں اور وہ مزدوروں کو چھوٹے موٹے مکان کرائے پر دلانے سے اپنی روزی روٹی کماتے ہیں۔ لیکن ان کے سیاسی کاموں کی وجہ سے وہ اکثر شہ سرخیوں میں رہتے ہیں۔

انھوں نے سخت گیر ہندو قوم پرست تنظیم بجرنگ دل میں دس سال قبل شمولیت اختیار کی تھی اور وہ اس عرصے کے دوران ترقی کرتے ہوئے تنظیم میں ایک اچھے مقام پر آ گئے ہیں۔ ان کی سوشل میڈیا فیڈ پر ان کی اسلحہ تھامے تصاویر موجود ہیں۔ ان کی سوشل میڈیا فیڈ پر وزیر داخلہ امت شاہ، اعلیٰ پولیس حکام سمیت طاقتور حکومتی وزیروں کے ساتھ سیلفیاں بھی موجود ہیں۔

India
Getty Images

ہریانہ حکومت کی گائے کی تحفظ کی ٹاسک فورس اور ضلع نوح میں بجرنگ دل کاؤ پروٹیکشن یونٹ کے سربراہ منسیر کا کہنا ہے کہ ’ان کا اصل کام ہندومت اور گائے کا تحفظ ہے۔‘ ہندو مذہب میں گائے کو مقدس سمجھا جاتا ہے۔

ہریانہ اور راجستھان سمیت انڈیا کی متعدد ریاستوں میں گائے کو ذبح کرنے پر پابندی ہے۔ اور گذشتہ چند برسوں کے دوران گائے کو ذبح کرنے کے شبہ میں متعدد مسلمانوں کو مشتعل ہجوم نے تشدد کر کے قتل کر دیا ہے۔

منیسر کو ان کے حامیوں میں بہت زیادہ مقبولیت حاصل ہے اور سوشل میڈیا پر ان کے لیے کئی فین پیجز موجود ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کی اور ان کی ٹیم کی کوششوں سے 50 سے زیادہ گائیں بچائی جا چکی ہیں۔

لیکن نوح کے مسلمان باشندوں کے لیے منیسر اور اس کے پیروکار ’گائے کے محافظ‘ ہیں جو بنا کسی ثبوت کے گائے کی سمگلنگ کے الزامات کو مسلمانوں پر حملہ کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔

منیسر ہمیشہ اس بات پر زور دیتے ہیں کہ وہ اور ان کی ٹیم انتظامیہ کے ساتھ اور قانون کے دائرے میں رہ کر کام کرتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ’گائے اور ہندو مذہب کی حفاظت کرنا ہمارا فرض ہے، لیکن ہم ہمیشہ انتظامیہ کے ساتھ مل کر کام کرتے ہیں۔ جب بھی ہم گائے کے سمگلروں کو پکڑتے ہیں، ہم انھیں پولیس کے حوالے کر دیتے ہیں۔‘

لیکن ان کے اس دعوے کو چیلنج کیا جا رہا ہے کیونکہ پچھلے کچھ برسوں میں انھوں نے اور ان کے حامیوں نے معمول کے مطابق ایسی تصاویر اور ویڈیوز پوسٹ کی ہیں جن میں گائے کے مبینہ سمگلروں کے ساتھ بدتمیزی کی گئی ہے۔ اور ان ٹرکوں کا پیچھا کر کے ان پر فائرنگ کی گئی ہے جن پر ان کا دعویٰ ہے کہ اس میں گائے کا گوشت یا مویشی ذبح کرنے کے لیے لے جائے جا رہے۔

ان میں سے کئی تصاویر اور ویڈیوز میں انھیں تشدد زدہ مسلمان مردوں کے سوجے ہوئے اور خون آلود چہروں کے ساتھ پوز دیتے ہوئے دیکھا گیا ہے۔ انھوں نے ایسی ویڈیوز بھی شیئر کی ہیں جہاں مردوں کو ہندو دیوتا رام اور ’ گاؤ ماتا‘ کی تعریف کرتے ہوئے نعرے لگانے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔

فروری میں منیسر کو دو مسلمان مردوں جنید اور ناصر کے قتل میں انھیں ایک ملزم کے طور پر نامزد کیا گیا تھا۔

منیسر کو اغوا، حملے اور قتل کے الزامات کا سامنا ہے۔ وہ اپنے اوپر لگائے گئے تمام الزامات کو مسترد کرتے ہیں۔

ہریانہ کی پڑوسی ریاست راجستھان میں عدالتی دستاویزات کے مطابق، دو مسلمانوں کو 15 فروری کو نوح میں بجرنگ دل کے گائے کے تحفظ کے یونٹ نے مویشیوں کے تاجر ہونے کے الزام میں اغوا کر لیا تھا۔ ان پر وحشیانہ تشدد کیا گیا اور ایک دن بعد ان کی جلی ہوئی لاشیں ہریانہ میں ایک جلی ہوئی کار سے ملی تھیں۔

اس جرم کے بعد سے مونو منیسر مفرور ہیں اور ہریانہ پولیس کا کہنا ہے کہ انھیں علم نہیں کہ وہ کہاں ہیں۔ اس وقت راجستھان پولیس نے انھیں گرفتار کرنے کے لیے ہریانہ ریاست کا دورہ کیا تھا لیکن ان کا کہنا تھا کہ وہ انھیں تلاش نہیں کر پائے۔

لیکن منیسر کی نئی ویڈیوز سوشل میڈیا پر باقاعدگی سے ظاہر ہوتی رہتی ہیں۔ ان کے اکاؤنٹس اور ان کے حامیوں اور مداحوں کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر شیئر کی جاتی ہیں۔

اور پیر کو ہونے والے فسادات کے بعد سے منیسر نے متعدد انڈین ٹی وی چینلوں کو کئی انٹرویو بھی دیے ہیں جہاں انھوں نے اس پرتشدد فسادات میں کسی بھی کردار سے انکار کیا اور کہا ہے کہ وہ وی ایچ پی کے رہنماؤں کے مشورے پر اس تقریب میں شریک نہیں ہوئے۔ انھوں نے پیر کے روز پرتشدد ہنگاموں کا الزام کچھ مقامی مسلم رہنماؤں پر لگایا ہے اور زور دیا ہے کہ ’ہندو اپنے مذہب یا گائے پر کوئی حملہ برداشت نہیں کریں گے۔‘ انھوں نے اس موقع کا استعمال کرتے ہوئے قتل کے الزامات کو بھی مسترد کیا ہے اور صحافیوں کو بتایا ہے کہ وہ جرم کے وقت جائے وقوعہ پر موجود نہیں تھے۔

جس کے بعد بہت سے لوگ یہ سوال کر رہے ہیں کہ اگر انڈین میڈیا انھیں ڈھونڈ سکتا ہے اور ان سے بات کر سکتا ہے تو دونوں ریاستوں کی پولیس انھیں کیوں نہیں تلاش کر سکتی؟

بی بی سی نے راجستھان اور ہریانہ کی پولیس سے رابطہ کیا ہے لیکن انھوں نے ابھی تک کوئی جواب نہیں دیا۔

لیکن جیسا کہ مقامی پریس نے ان کی گرفتاری کا مطالبہ کرتے ہوئے دباؤ برقرار رکھا ہے، منیسر نے بدھ کی رات ایک ہندی نیوز چینل کو بتایا کہ وہ اپنے پر لگے الزامات کو صاف کرنے کے لیے ’وہ جلد ہی خود کو ہریانہ اور راجستھان پولیس کے حوالے کر دیں گے۔‘

جمعرات کی صبح ہریانہ کے وزیر اعلیٰ ایم ایل کھٹر نے کہا کہ منیسر اپنی ریاست میں مطلوب آدمی نہیں ہیں اور ان کی حکومت راجستھان پولیس کو ان کی تلاش میں مدد کرے گی۔

لیکن ایم ایل کھٹر کے دعوے کی خود منیسر نے تردید کی ہے۔ انھوں نے ایک نیوز چینل کو بتایا کہ ہریانہ پولیس نے بہت سے مقدمات میں ان کا نام شامل کیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ ’اگر ایک چوہا بھی مر جائے تو مجھے قصوروار ٹھہرایا جاتا ہے۔‘

پولیس کا کہنا ہے کہ انھیں فسادات اور تشدد کے دیگر مقدمات میں بھی نامزد کیا گیا ہے، جس میں چھ فروری کا واقعہ بھی شامل ہے جس میں چار افراد زخمی ہوئے تھے۔

اس کے بعد ایک پولیس اہلکار نے انڈین ایکسپریس کو بتایا کہ ’مونو اقدام قتل کے مقدمے میں ایک ملزم ہے‘ کیونکہ وہ مبینہ طور پر ’جائے وقوع کے قریب بندوق سے فائرنگ کرتے ہوئے ایک ویڈیو میں دیکھا گیا تھا۔‘

اہلکار کا کہنا ہے کہ ’کرائم برانچ سمیت کئی پولیس ٹیمیں انھیں تلاش کرنے کی کوشش کر رہی ہیں، لیکن ابھی تک ان کا سراغ نہیں لگایا جا سکا ہے۔‘


News Source

مزید خبریں

BBC

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Follow US