پاکستان کے شہر کراچی میں ایک بار پھر لیاری کینگ وار کے کارندے سرگرم ہونے لگے ہیں۔
ملزمان نے لوڈشیڈنگ کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اولڈ سٹی ایریا کے تاجروں سے بھتہ وصول کیا۔ بجلی نہ ہونے کی وجہ سے علاقے میں نصب سی سی ٹی وی کیمرہ بند تھے جس کی وجہ سے ملزمان کی کارروائی کا پولیس کو کوئی سراغ نہ مل سکا۔ نگراں حکومت کے قیام کے بعد پولیس کے اعلیٰ افسران کے تبادلے کیے گئے، سندھ میں تعینات ہونے والے نئے آئی جی اور ایڈیشنل آئی جی نے دعویٰ کیا کہ جلد ہی شہر میں امن و امان کی صورتحال بہتر ہوتی نظر آئے گی۔پولیس کے اعلیٰ افسران کے ان دعووں کے اگلے روز ہی کراچی کے اولڈ سٹی ایریا میں ایک بار پھر لیاری گینگ وار کے کارندوں کی سرگرمیاں فعال ہونے لگی ہیں۔ اولڈ سٹی ایریا کے نیپئر تھانے کی حدود میں گزشتہ ہفتے کی شب ایک بھتہ خوری کا واقعہ پیش آیا، ٹمبر مارکیٹ ایسوسی ایشن کے مطابق کچھ مسلح افراد نے مارکیٹ میں گشت کیا اور دکانداروں سے بھتہ وصول کیا ہے۔ اس معاملے پر مقامی پولیس سمیت دیگر اعلیٰ حکام کو آگاہ کر دیا گیا ہے۔ نیپئر پولیس اسٹیشن کے ایس ایچ او سجاد خان نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے واقعے کی تفصیل بتائی ہے کہ نامعلوم ملزمان نے گزشتہ ہفتے ٹمبر مارکیٹ کے ایک دکاندار سے بھتہ وصول کیا ہے۔ملزمان نے اپنا تعلق لیاری کے تاجو استاد گروپ ظاہر کیا اور دکاندار سے پانچ ہزار روپے طلب کیے، پانچ ہزار روپے دکان میں نہ ہونے پر ملزمان دکاندار سے 2 ہزار روپے لے گئے۔پولیس نے بتایا کہ ملزمان نے مارکیٹ میں آنے کے لیے ایسے وقت کا انتخاب کیا جب مارکیٹ میں بجلی کی فراہمی معطل تھی۔ بجلی نہ ہونے کی وجہ سے مارکیٹ اور اطراف میں نصب سی سی ٹی وی کیمرے بند تھے، ملزمان کی آمد اور بھتہ وصولی سمیت کسی بھی عمل کی فوٹیج نہیں بن سکی ہے۔ پولیس کا کہنا ہے کہ دکاندار کی جانب سے ابھی تک کوئی تحریری درخواست نہیں دی گئی ہے تاہم واقعے کی تمام پہلوؤں سے تحقیقات کر رہے ہیں۔لیاری میں ایک مرتبہ پھر گینگز فعال ہونا شروع ہو گئی ہیں۔ فوٹو: اے ایف پیاولڈ سٹی ایریا میں ایک بار پھر لیاری گینگ وار کے کارندوں کے سرگرم ہونے پر پولیس کے اعلیٰ افسران بھی حرکت میں آ گئے ہیں۔ڈی آئی جی ساؤتھ سید اسد رضا نے ایس ایس پی سٹی کے ہمراہ کراچی ٹمبر مرچنٹ مارکیٹ کا دورہ کیا۔ ٹمبر مارکیٹ کے عہدیداران نے ڈی آئی جی ساؤتھ کو اولڈ سٹی ایریا میں تاجر برادری کو درپیش مسائل سے آگاہ کیا ہے۔ڈی آئی جی ساؤتھ نے جرائم کی روک تھام اور ٹمبر مارکیٹ کے تاجروں کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے ڈیفینس تھانے کی طرز کا کمانڈ اینڈ کنٹرول روم تھانہ نیپئر میں قائم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس حوالے سے مشترکہ سروے کر کے میپ بنانے کی ہدایت بھی کی گئی ہے۔ڈی آئی جی ساؤتھ سید اسد رضا نے اولڈ سٹی ایریا میں پولیس کی کارکردگی کو موثر بنانے کے لیے پولیس کی اضافی نفری داخلی و خارجی راستوں اور موثر پیٹرولنگ کرنے کے لیے تعینات کرنے اور تاجر برادری کے ساتھ رابطے اور تعاون بڑھانے کے احکامات بھی دیے ہیں۔ لیاری گینگ وار کیا ہے اور اس کا آغاز کب سے ہوا؟لیاری جسے کبھی فٹبال، سائیکل، باکسنگ سمیت دیگر کھیل سے محبت کرنے والوں کی زمین کہا جاتا تھا، جرائم کا گڑھ کیسے بنا؟اس سوال کا جواب لیاری کے باسی یار محمد کسرکندی کچھ یوں بیان کرتے ہیں کہ جرائم کے اس سفر کے مرکزی کردار افشانی گلی کے دو بھائی شیر محمد جسے شیرو کہا جاتا تھا اور داد محمد جسے دادل کہا جاتا تھا کے درمیان گھومتی ہے۔دادل، رحمان بلوچ (رحمان ڈکیت) کا باپ تھا اور شیرو اور دادل منشیات کا دھندہ کرتے تھے۔ اپنے کام کو پھیلانے اور طاقت حاصل کرنے کے لیے انہوں نے اپنا گروہ منظم کیا۔اس گروپ کا مضبوب مدمقابل اقبال عرف بابو ڈکیت کا گروہ تھا جو لیاری کے علاقے کلری اور اس کے گرد و نواح کے علاقوں میں فعال تھا۔ یہاں سے لیاری گینگ وار کا آغاز ہوتا ہے۔ جرائم کی روک تھام کے لیے تھانہ نیپئر میں کمانڈ اینڈ کنٹرول روم قائم کیا جائے گا۔ فوٹو: اے ایف پیاسی زمانے میں حاجی لالو بھی اپنے سات بیٹوں کے ساتھ لیاری کے سرحدی علاقوں میں اپنا دھندہ کرتے تھے۔ حاجی کے لالو کا گروہ ایک طاقتور گروہ تھا اور اس کے بیٹے ارشد پپو اور یاسر عرفات کی موجودگی میں یہ گروہ علاقے میں ایک خاص حیثیت رکھتا تھا۔ لیاری کے علاقے پاک کالونی، ریکسر لائن جہان آباد اور شیر شاہ قبرستان اس گروہ کے مضبوط علاقے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ طاقت کے حصول اور بے تحاشہ پیسے نے ان گروہوں کو اپنے علاقوں سے نکل کر شہر کے دیگر علاقوں تک اپنی سرگرمیوں پر مجبور کیا۔ اور کراچی شہر نے ایک ایسا وقت بھی دیکھا جب لیاری کی یہ گینگ وار لیاری سے نکل کر ملیر، ڈالمیا، شانتی نگر، کورنگی، شیر شاہ، منگھوپیر اور بلدیہ ٹاؤن سمیت شہر کے دیگر علاقوں میں بھی پھیل گئی۔ ایک ساتھ کام کرنے والے گینگ کب الگ ہوئے؟کراچی پولیس کے سابق افسر شعیب علی نے اپنی ملازمت میں کئی عرصہ لیاری میں گزارا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پیسے اور طاقت کے حصول کے لیے بابو ڈکیت نے دادل رحمان ڈکیت کے باپ کو اپنے راستے سے ہٹایا، دادل کی موت کے بعد حاجی لالو نے رحمان کو پروان چڑھایا۔ اپنی ماں کو اپنے ہاتھوں سے قتل کرنے والے رحمان نے حاجی لالو کی توقعات سے بڑھ کر کام کیا اور گینگ کو مضبوط کیا۔ بابو ڈکیت کو قتل کر کے رحمان نے اپنے باپ کا بدلہ لیا۔ حاجی لالو کے ساتھ کام کرنے والے رحمان بلوچ عرف رحمان ڈکیت نے جلد ہی اپنی راہیں حاجی لالو کے گروہ سے الگ کیں اور ماضی میں ساتھ کام کرنے والا یہ ایک گروپ اب دو گروہوں کی صورت میں کام کرنے لگا۔اب قتل اور غارتگری کے ایک نئے سلسلے کا آغاز ہوا۔ دونوں گرہوں نے ایک دوسرے کے قریبی رشتے داروں کو قتل کیا اور ایک دوسرے کو مارنے کی بھی بھرپور کوششیں کیں۔ رحمان نے لیاری میں اپنی ایک نئی شناخت بنائی اور تیزی سے لیاری کے چھوٹے چھوٹے گینگز کو اپنے ساتھ ملا لیا۔ مشکل حالات میں رحمان کچھ عرصے کے لیے کراچی سے باہر بھی رہا لیکن ارشد پپو کی پولیس کے ہاتھوں گرفتاری کے بعد اس نے واپس شہر کا رخ کیا اور سیاسی معاملات کے ساتھ اپنے گینگ کو پروان چڑھایا۔ سیاسی معاملات پر گہری نظر رکھنے والے سینیئر صحافی رفعت سعید کا کہنا ہے کہ رحمان نے لیاری کے جرائم کو ایک سسٹم کے طور پر متعارف کیا۔لیاری گینگ کے کارندے عزیر بلوچ سمیت دیگر افراد قانون کی گرفت میں ہیں۔ فوٹو: اے ایف پیپاکستان پیپلز پارٹی جو لیاری کو اپنا گڑھ مانتی ہے وہاں رحمان نے سیاسی لوگوں کو گینگ سے جوڑا اور پھر جب 18 اکتوبر کو بے نظیر بھٹو کی وطن واپسی پر ان کے قافلے پر حملہ ہوا تو اس وقت بھی سابق وزیراعظم بے نظیر کو باحفاظت گھر تک پہنچانے میں رحمان اور اسکے لڑکوں نے اہم کردار ادا کیا۔ لیاری گینگ وار کا نامور کردار عزیر بلوچ کون ہے؟رفعت سعید کا کہنا ہے کہ فیض محمد عرف فیضو ماما سندھ بلوچستان کے لیے چلنے والی بسوں کے اڈے پر کام کرتے تھے۔ اس کا شمار رحمان کے قریبی ساتھیوں میں کیا جاتا تھا۔فیض محمد کے ارشد پپو کے لیے کام نہ کرنے پر انہیں قتل کیا گیا۔ فیض محمد عرف فیضو ماما عزیر بلوچ کا باپ تھا۔ اس زمانے میں عزیر جرائم کی دنیا سے دور لیاری کے ہسپتال میں کام کرتا تھا اور لیاری میں فٹبال کا ایک بہترین کھلاڑی تھا۔ باپ کی موت کے بعد عزیر کو رحمان نے اسی طرح اپنی سرپرستی میں رکھا جیسے کبھی حاجی لالو نے رحمان کو رکھا تھا۔ پھر ایک روز رحمان کی پولیس مقابلے میں موت کے بعد عزیر نے لیاری کا کنڑول سنبھالا اور پیپلز امن کمیٹی کے پلیٹ فارم سے نہ صرف ماضی میں اپنی حمایتی جماعت پیپلز پارٹی کو الیکشن میں شکست دی بلکہ لیاری میں کام کرنے والے گینگز کو جدید انداز میں آپریٹ کیا۔لیکن یہ معاملہ بھی پیسے اور طاقت کی وجہ سے نہ چل سکا اور جلد ہی عزیز کے ساتھ کام کرنے والے بابا لاڈلہ عزیر سے الگ ہوئے اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے استاد تاجو، شاہد بکک سمیت دیگر گروہ اپنی اپنی سمت میں کام کرنے لگے۔لیاری میں غفار ذکری گروپ بھی فعال ہوا اور کچھی ایکشن کمیٹی بھی بنی۔ تاہم نیشنل ایکشن پلان تیار ہوا اور لیاری سمیت کراچی میں آپریشن کیا گیا جس کے نتیجے میں ان گینگز کے کارندے گرفتار بھی ہوئے اور ان کاؤنٹر میں مارے بھی گئے۔عزیر بلوچ سمیت دیگر افراد اس وقت قانون کی گرفت میں ہیں اور شہر میں یہ گینگ اب غیر فعال ہیں۔