انڈیا کی ریاست جھارکھنڈ سے تعلق رکھنے والی ایک قبائلی خاتون بدھینی مانجھیین نے اپنی تمام زندگی جلاوطنی میں گزاری کیونکہ انھیں اپنا گھر اور نوکری چھوڑنے پر مجبور کر دیا گیا تھا۔
انڈیا کی ریاست جھارکھنڈ سے تعلق رکھنے والی ایک قبائلی خاتون بدھینی مانجھیین نے اپنی تمام زندگی جلاوطنی میں گزاری کیونکہ انھیں اپنا گھر اور نوکری چھوڑنے پر مجبور کر دیا گیا تھا۔
گذشتہ ماہ وفات پانے والی بدھینی مانجھیین آج سے 63 برس قبل صرف 15 برس کی تھیں جب انھیں ان کے قبیلے ’سنتھلز‘ کی جانب سے انڈیا کے وزیرِ اعظم جواہر لال نہرو کو ہار پہنانے کی سزا کے طور پر قبیلے سے بے دخل کر دیا گیا تھا۔
اس قبیلے کی روایات کے مطابق کسی کو ہار پہنانا اس سے شادی کرنے کے مترادف ہے۔
مانجھیین اور ان کو پیش آنے والی مشکلات اکثر لوگوں معلوم نہیں ہیں لیکن ان وفات کے بعد ان کی کہانی میں دوبارہ سے دلچسپی دیکھی گئی ہے اور انھیں کچھ افراد کی جانب سے ’نہرو کی پہلی قبائلی بیوی‘ قرار دیا جا رہا ہے۔
جھارکھنڈ میں اکثر افراد ان کی یاد میں گاؤں میں موجود نہرو کے مجسمے کے پاس دعائیہ تقریب کے انعقاد کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
مانجھیین کی زندگی کے بارے میں بہت کم معلومات دستیاب ہیں۔ ان کا وکیپیڈیا پیج مختصر سا ہے جو ان کے وفات کے بعد بنایا گیا ہے۔ ہر کچھ عرصے کے بعد کوئی اخبار یا ویب سائٹ ان کے بارے میں کچھ نہ تحریر کرتی ہے لیکن یہ دیکھ کر خاصی الجھن ہوتی ہے کہ ان کے حوالے سے معلومات محدود ہوتی ہیں۔
سنہ 2012 میں ایک معروف اخبار نے ان کی وفات کی غلط خبر رپورٹ کر دی تھی کیونکہ اس وقت وہ اپنی زندگی کے بقیہ سال انتہائی خاموش حالات اور مشکلات میں گزار رہی تھیں۔
ایسی ہی متضاد باتوں کے باعث جنوبی کیرالا سے تعلق رکھنے والی ایک لکھاری سارہ جوزف نے انھیں ڈھونڈ نکالااور ’انھیں زندگی میں واپس لانے کی کوشش کرتے ہوئے‘ ان سے متاثر ہو کر کتاب لکھ دی۔
جوزف کا کہنا ہے کہ جب ان کی مانجھیین سے پہلی مرتبہ سنہ 2019 میں ملاقات ہوئی تو انھیں ان سے بات کرنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ وہ دونوں ایک زبان نہیں بولتی تھیں۔
لیکن سارہ کے مطابق ’میں ان کی باتیں مکمل طور پر سمجھ سکتی تھی۔‘
مانجھیین کا بچپن جھارکھنڈ میں کوئلے کی کانوں کے قریب موجود ایک گاؤں دھنبادمیں گزرا۔ یہ پہاڑی علاقہ ہے جس کی چوٹیوں میں قبائلی آبادی کی ایک بڑی تعداد بستی ہے۔
مانجھیین ان ہزاروں ورکرز میں سے ایک تھیں جنھیں دامودار ویلی کورپوریشن (ڈی وی سی) پراجیکٹ میں نوکری ملی تھی۔ یہ ملک کا پہلا ’ملٹی پرپز پراجیکٹ‘ تھا جس میں ڈیم، تھرمل توانائی اور ہائیڈرو الیکٹرک پلانٹس شامل تھے جو جدید انڈیا کی بنیاد رکھنے والے تھے۔ نہرو نے ان منصوبوں کو ’آزاد انڈیا کا عظیم محل‘ قرار دیا تھا۔
تاہم ان منصوبوں کا آعاز کرنا خاصا متنازع تھا۔ ہزاروں مقامی افراد جن میں سے اکثر قبائلی تھے کو ان کی آبائی زمینوں سے نکالا گیا تاکہ ان منصوبوں کا آغاز کیا جا سکے۔ کابونا سمیت سینکڑوں گاؤں جن میں مانجھیین اپنی بے دخلی سے پہلے رہتی تھیں، اب زیرِ آب ہیں۔
سنہ 1959 میں نہرو نے اعلان کیا تھا کہ وہ ان میں سے ایک پنشٹ ڈیم کا افتتاح کریں گے۔ مانجھیین کو اس وقت خاصی حیرت ہوئی جب اس پراجیکٹ کے منتظمین میں سے ایک نے انھیں اور ان کی ایک ساتھی کو وزیرِ اعظم کو خوش آمدید کہنے کے لیے چُنا۔
مگر اس فیصلے کے بعد سب کچھ غلط ہونے لگا۔

اس تقریب میں مانجھیین کو وزیرِ اعظم کو ہار پہنانے کا کام سونپا گیا تھا۔ تاہم انھوں نے یہ نہیں سوچا تھا کہ نہرو انھیں وہی ہار واپس پہنا دیں گے۔
نہرو نے اس بات پر بھی زور دیا کہ 15 سالہ مانجھیین ڈیم کی باقاعدہ لانچ کے لیے بٹن بھی دبائیں۔
اس تقریب کے بعد شام کو جب مانجھیین اپنے گاؤں واپس لوٹیں تو انھیں یہ معلوم نہیں تھا کہ وہ آخری مرتبہ اپنے گھر جا رہی ہیں۔
ان کے گاؤں کے ایک بڑے نے انھیں بلایا اور کہا کہ نہرو کو ہار پہنانے کے بعد اب وہ ان کی دلہن بن گئی ہیں۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ مانجھیین نے سنتھل قبیلے کی روایت توڑتے ہوئے قبیلے کے باہر کے مرد سے شادی کی ہے اور انھیں اس خلاف ورزی کا خمیازہ بھگتنا ہو گا اور انھیں قبیلے اور علاقے کو چھوڑ کر جانا ہو گا۔
سنتھلز کو ایک پرامن قبیلہ سمجھا جاتا ہے۔ یہ چھوٹی سے برادریایک دوسرے سے جڑی رہتی ہے اور زندگی گزارنے کے ان کے اپنے سماجی ضابطے ہیں۔
اس سماجی ضابطے کے تحت قبیلے سے باہر شادی کرنا ممنوع سمجھا جاتا ہے اور خلاف ورزی کرنے والوں کو ناصرف سزا دی جاتی ہے بلکہ اُن کا سماجی بائیکاٹ کیا جاتا ہے۔
تاہم سماجی کارکنان کے مطابق اس پریکٹس کو خواتین پر مظالم ڈھانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔
قبائلی مرد کام کے غرض سے ایک جگہ سے سے دوسری جگہ منتقل ہوتے ہیں تاہم نوجوان، غیر شادی شدہ خواتین بہت کم اپنا گاؤں چھوڑتی ہیں۔ جو ایسا کرتی ہیں ان کے ساتھ امتیازی سلوک روا رکھا جاتا ہے اور انھیں بُرا بھلا بھی کہا جاتا ہے۔
مانجھیین کو معلوم تھا کہ اگر وہ گاؤں چھوڑ کر چلی گئیں تو وہ کبھی واپس نہیں لوٹ پائیں گی۔ انھوں نے گاؤں کے سربراہ سے بحث کرنے کی کوشش کی اور اس حوالے سے مزاحمت بھی کی لیکن برادری کا اس حوالے سے فیصلہ اٹل تھا۔ ان کے لیے وہ اب قبیلے اور گاؤں سے بے دخل ہو چکی تھیں۔
جوزف کہتی ہیں کہ ’کسی نے بھی ان کی مدد نہیں کی۔ انھیں اپنے ہی لوگوں سے قتل کی دھمکیاں ملنے لگیں۔‘
مجبور ہو کر 15 سالہ مانجھیین نے اپنی چیزیں اٹھا کر گاؤں سے جانے کا فیصلہ کیا۔ اس ڈیم کے افتتاح کو جدید انڈیا کی تاریخ کے ایک سنگِ میل کے طور پر دیکھا گیا۔ تاہم مانجھیین کے بارے میں زیادہ بات نہیں کی گئی اور ان کا ذکر سطحی طور پر ہی کیا گیا۔

ایک کے بارے میں ایک اخبار نے لکھا اور کہا کہ ’نوجوان سنتھل‘ وہ پہلی ورکر ہیں جنھوں نے انڈیا میں ’ایک ڈیم کا افتتاح‘ کیا ہے۔
جوزف کا کہنا تھا کہ اس دوران انھیں ’نہرو کی قبائلی بیوی کا خطاب دیا گیا۔‘
المیہ یہ ہے کہ مانجھیین کو اس بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا، وہ اس دوران صرف بقا کی جنگ لڑ رہی تھیں اور یہ ان کی زندگی کے مشکل ترین چند ماہ تھے جن میں انھیں بے دخلی کے ساتھ انتہا درجے کی غربت کا بھی سامنا تھا۔
سارہ جوزف بتاتی ہیں کہ ’ہر کوئی ان کے بارے میں پڑھ رہا تھا لیکن کسی نے بھی ان کی مدد نہیں کی۔ ان کے پاس جانے کے لیے کوئی بھی جگہ نہیں تھی۔‘
ان کے لیے صورتحال مزید مشکل اس وقت ہوئی جب سنہ 1962 میں دامودار ویلی کارپوریشن نے انھیں نوکری سے نکال دیا اور انھیں دہاڑی پر کام کرنے پر مجبور کیا۔ انھوں نے ان کی برطرفی کی کوئی وجہ نہیں بتائی۔
حیرت انگیز طور پر وزیرِ اعظم کو بھی ان کی مشکلات کا علم نہ ہو سکا۔ یہ بات بھی اچھنبے کی ہے کہ نہرو جو ترقی پسند اور جدید خیالات کے حامل تھے اس کہانی کے ساتھ منسلک ہوئے۔
کئی سالوں بعد مانجھیین کی زندگی میں بہتری کے آثار نمودار ہونا شروع ہوئے جب ان کی ملاقات سدھیر دتا سے ہوئی۔ سدھیر ان دنوں ہمسایہ ریاست مغربی بنگال میں کام کر رہے تھے جہاں اب مانجھیین بھی رہائش پذیر تھی۔ دونوں کو ایک دوسرے سے محبت ہوئی اور ان کی شادی ہو گئی۔
سارہ کا کہنا ہے کہ دونوں نے غربت میں ہی زندگی گزاری، مانجھیین نے اس دوران اپنی نوکری واپس لینے کی ناکام کوششیں بھی کیں۔
سنہ 1985 میں دو صحافی جو ان کی کہانی پر تحقیق کر رہے تھے نے راجیو گاندھی سے رابطہ کیا جو نہرو کے پوتے اور اس وقت کے وزیرِ اعظم تھے۔
آخرکار دو دہائیوں کے بعد مانجھیین کو ڈی وی سی میں اپنی نوکری واپس ملی اور وہ وہاں اپنی ریٹائرمنٹ تک کام کرتی رہیں۔
سارہ کہتی ہیں کہ ’اس سوال کا جواب اب بھی نہیں مل سکا کہ ان کا قصور کیا تھا۔‘
مانجھیین نے کبھی پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا اور اپنے تکلیف دہ ماضی کو پیچھے چھوڑ کر سکون کی زندگی گزاری۔
ان کے پوتے نے انڈین ایکسپریس اخبار کو مانجھیین کی وفات کے بعد بتایا کہ ’میری دادی کے ساتھ جو کچھ ہوا وہ غلط تھا لیکن اپنے آخری لمحات میں بھی انھوں نے کوئی شکایت نہیں کی اور وہ پُرسکون تھیں۔‘
سارہ کہتی ہیں کہ ان کا مجسمہ بنانے سے مانجھیین کا ماضی تبدیل نہیں ہو گا لیکن اس سے ان کی کہانی دوبارہ بتانے میں مدد ملے گی۔
ان کی جدوجہد ان ہزاروں ایسی انڈین خواتین جیسی ہے جن کے خواب پدرشاہی روایاتاور شدید سماجی دباؤ کے باعث ٹوٹتے ہیں۔
سارہ کہتی ہیں کہ لیکن وہ ایسی لاکھوں خواتین کی نمائندگی بھی کرتی ہیں جنھیں جدت اور قوم کی تعمیر کے نام پر بے دخل کیا گیا اور بھلا دیا گیا۔
’وہ ترقیاتی کاموں کے باعث متاثر ہونے والے افراد کی علامت ہیں۔ ان کی کہانی کو دوبارہ بتانا سیاسی اور تاریخی ضرورت ہے۔‘