سپریم کورٹ میں صحافیوں کو ہراساں کرنے اور ایف آئی اے کی جانب سے نوٹسز بھجوانے کے کیس کی سماعت

image

اسلام آباد۔30جنوری (اے پی پی):سپریم کورٹ میں صحافیوں کو ہراساں کرنے اور ایف آئی اے کی جانب سے نوٹسز بھجوانے کے کیس کی سماعت کے موقع پر چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے صحافیوں کی جانب سے متفرق درخواست دائر نہ کرنے پر تشویش کا اظہار کیا۔ چیف جسٹس نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ جب تک تحریری طور پر ہمارے سامنے کچھ نہیں آئے گا ہم کیسے آرڈر جاری کریں۔ انہوں نے کہا کی اب سپریم کورٹ میں ججز کی تین رکنی کمیٹی طے کرتی ہے۔اب درخواست آنے کے بعد کمیٹی طے کرے گی۔ انہوں نے استفسار کیا کہ کیا صحافیوں نے کوئی نئی درخواست دائر کی ہے؟۔

پریس ایسوسی ایشن سپریم کورٹ کے صدر عقیل افضل نے عدالت کو بتایا کہ ہمیں ابھی تک فہرست ہی نہیں ملی کہ کن کن صحافیوں کے خلاف کارروائی کی جا رہی ہے۔چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس مسرت ہلالی پر مشتمل سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے منگل کو یہاں کیس کی سماعت کی۔ دوران سماعت عامر میر کے وکیل جہانگیر جدون نے عدالت کے روبرو اپنے دلائل دیئے اور عدالت کے سوالوں کے جواب بھی دیئے۔

سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ اٹارنی جنرل صاحب کل ہم نے محتاط رہتے ہوئے کوئی آرڈر پاس نہیں کیا۔ انہوں نے کہا کہ کوئی بندہ اپنا کام کرنے کو تیار نہیں۔ چیف جسٹس نے مزید کہا کہ ہم پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون کو دیکھ رہے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس قانون سے متعلق کیس براہ راست نشر ہوا تھا جو پورے ملک نے دیکھا۔ انہوں نے کہا کہ ہم توقع کر رہے تھے کہ آج صحافی کوئی سی ایم اے فائل کریں گے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ہمیں کوئی کاغذ تو دکھائیں کہ ہم اس کیس میں کیسے آگے بڑھیں۔ حیدر وحید ایڈووکیٹ نے اپنے دلائل میں موقف اپنایا کہ وفاقی حکومت کو ہدایت کی جائے کہ سٹیک ہولڈرز سے مل کر سوشل میڈیا کے لیے ضابطہ اخلاق بنائے۔ جس پر چیف جسٹس نے سوال کیا کہ کیا عدالت ایسا حکم جاری کر سکتی ہے؟ جسٹس محمد علی مظہر نے اس موقع پر اپنے ریمارکس میں کہا کہ ڈیجیٹل میڈیا کو ریگولیٹ کرنے کیلئے کوئی قانون نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ جو قانون ہے وہ صرف فوجداری کارروائی کیلئے ہے۔ انہوں نے کہا کہ یوٹیوب پر ہتک عزت کا قانون تو لاگو ہوتا ہے لیکن کوئی ریگولیٹری قانون نہیں ہے۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس میں کہا کہ عدالت قانون کی تشریح کر سکتی ہے۔ جب قانون ہی موجود نہیں تو کیا کریں؟ انہوں نے کہا کہ عدالت صرف اسٹیک ہولڈرز کو ایک ساتھ بیٹھنے کی درخواست کر سکتی ہے۔ پریس ایسوسی ایشن سپریم کورٹ کے صدر نے عدالت کو بتایا کہ عدالت کی آبزرویشن کے باوجود نوٹسز واپس نہیں ہوئے۔ جس پر اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نےعدالت کو بتایا کہ جو یقین دہانی کرائی تھی اس پر قائم ہوں تاہم نوٹسز کو واپس کرنے کا طریقہ کار ہے۔

جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیئے کہ ہمارے سامنے نہ جے آئی ٹی کا نوٹیفیکیشن ہے اور نہ ہی کسی نوٹس کی کاپی ہے۔ انہوں نے کہا لسٹ ملی یا نہیں لیکن جن کو نوٹسز ملے ہیں وہ تو جمع کرائے جا سکتے تھے۔ جسٹس محمد علی مظہر نے دوران سماعت اس موقع پر استفسار کیا کہ کیا کوئی ایف آئی اے میں پیش ہوا ہے؟ اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ جے آئی ٹی کو آج تک کے لئے روکا تھا۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ کسی تحریری مواد کے بغیر اٹارنی جنرل کو درخواست کر سکتے ہیں حکم نہیں دے سکتے۔ صحافی مطیع اللہ جان بھی عدالت میں پیش ہوئے۔ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر شہزاد شوکت نے عدالت کے سامنے موقف اپنایا کہ کل عدالتی سماعت کے بعد تاثر ملا جیسے نوٹسز واپس ہو گئے ہیں لیکن آج بھی کوئی نہیں مان رہا کہ غلط خبر چلی اور نوٹس واپس نہیں ہوئے۔ پی ایف یو جے کے صدر افضل بٹ عدالت میں پیش ہوئے۔

مطیع اللہ جان نے عدالت سے استدعا کی کہ صحافیوں کے خلاف کارروائی کو انتخابات کے بعد تک مؤخر کیا جائے۔ جس پر جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیئے کہ آپ اس دوران احتیاط سے رپورٹنگ کریں۔ اٹارنی جنرل نے بتایا کہ ابھی صرف صحافیوں کے بیانات قلمبند کرنے ہیں جنہوں نے ٹویٹس کئے ہیں ۔ بعد ازاں سپریم کورٹ نے صحافیوں کو ہراساں کرنے اور ایف آئی اے کی جانب سے نوٹسز کے اجراء کا کیس فروری کے آخر تک کے لیے ملتوی کر دیا۔


News Source   News Source Text

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Follow US