بلوچستان کے ضلع کچھی میں عسکریت پسندوں کی جانب سے ایک گھر میں یرغمال بنائے گئے سات شہریوں کو بازیاب کرالیا گیا ہے۔سی ٹی ڈی نے 11 آپریشن میں 11 عسکریت پسندوں کے مارے جانے کی تصدیق کردی۔نگراں وزیر داخلہ بلوچستان زبیر احمد جمالی کا کہنا ہے کہ کلیئرنس آپریشن ابھی تک جاری ہے ۔ ایک سرکاری اہلکار کے گھر میں پناہ لیے ہوئے تمام دہشت گردوں کو مار دیا گیا ہے۔
حکام کے مطابق ضلع سے گزرنے والی این 65 شاہراہ پر ٹریفک کے ساتھ ساتھ ٹرین سروس بھی تاحال معطل ہے۔
مچھ میں ایک پارک سے مزید تین مزدوروں کی لاشیں ملی ہیں جس کے بعد حملوں اور بم دھماکوں میں مارے جانے والے شہریوں کی تعداد گیارہ تک پہنچ گئی۔حکام کے مطابق دوپولیس اور دو ایف سی اہلکار بھی مقابلے میں جان کی بازی ہارگئے ہیں۔ضلع کچھی میں پیر کی رات کو شدت پسندوں نے مچھ ، کولپور ، گوکرت اور پیرغائب میں بیک وقت حملے کئے ۔ حملے کا مرکز کوئٹہ سے تقریباً 65 کلومیٹر دورضلع کچھی کا علاقہ مچھ تھا جہاں قریبی پہاڑوں سے راکٹ حملوں کے بعد درجن سے زائد دہشتگردوں نے ایف سی کیمپ، ریلوے اسٹیشن، پولیس تھانہ سمیت مختلف سرکاری دفاتر اور عمارات کو نشانہ بنایا۔حملہ آوروں نے ایف سی کیمپ میں گھسنے کی کوشش کی جس پر ان کا ایف سی اہلکاروں کے ساتھ مقابلہ ہوا۔ شہر کے مختلف مقامات پر 40 گھنٹوں سے حملہ آوروں اور سکیورٹی فورسز کے درمیان فائرنگ کا سلسلہ جاری رہا۔مچھ کے ایک شہری مقصود بلوچ نے بتایا کہ تقریباً چالیس گھنٹوں بعد بدھ کی دوپہر کو فائرنگ کا سلسلہ رک گیا۔دو راتیں اور کل کا پورا دن شہریوں نے گھروں میں گزارا۔ شہر مکمل طور پر بند رہا۔ شہر کی بیس 20 آبادی گھروں میں محصور رہی۔Captionمچھ پولیس کے ایک آفیسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ حملہ آور وں نے ایک سرکاری اہلکار کے گھر میں گھس کر شہریوں کو یرغمال بنالیا تھا جس کی وجہ سے کلیئرنس آپریشن میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔بدھ کو بلوچستان پولیس کے کاؤنٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ (سی ٹی ڈی) نے اپنے ایک بیان میں بتایا کہ ’مچھ میں سی ٹی ڈی اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں نے کلیئرنس آپریشن میں 11 دہشت گردں کو ہلاک کردیا۔ الحمداللہ سی ٹی ڈی اور سکیورٹی اداروں کے تمام اہلکار محفوظ اور ان کے حوصلے بلند ہیں۔‘ بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ ’کلیئرنس آپریشن کے دوران ان سات شہریوں کو بحفاظت بازیاب کرالیا گیا ہے جنہیں یرغمال بنایا گیا تھا۔ ‘مچھ پولیس کے افسر کے مطابق مارے گئے حملہ آوروں میں سے نو سرکاری افسر کے گھر میں پناہ لئے ہوئے تھے جبکہ دو پولیس تھانے پر حملے کے دوران پولیس اہلکاروں کی جوابی کارروائی میں مارے گئے۔کلاشنکوف اور راکٹ لانچر، راکٹ گولوں سمیت بڑی تعداد میں بھاری اسلحہ بھی برآمد کیا گیا ہے۔مچھ سول ہسپتال کے سپرنٹنڈنٹ ڈاکٹر سجاد حیدر نے بتایا کہ بدھ کو مزید تین افراد کی لاشیں ہسپتال لائی گئی ہیں جو لائبریری پارک کے قریب سے ملی تھیں۔تینوں مزدور تھے اور لکڑیاں جمع کررہے تھے جب انہیں گولیاں ماری گئیں۔انہوں نے بتایا کہ دو دنوں میں اب تک 9 لاشیں ہسپتال لائی گئی ہیں جن میں مچھ پولیس تھانے کے ایس ایچ او ساجد سولنگی، ریلوے پولیس کے اہلکار فیصل شاہوانی کے علاوہ باقی سات سویلین شامل ہیں۔Captionڈھاڈر پولیس کے ایس ایچ او جاوید کلواڑ نے بتایا کہ مچھ کے علاقے گوکرت سے تین ٹرک ڈرائیوروں کی لاشیں سول ہسپتال ڈھاڈر لائی گئی تھیں جو تینوں پنجاب کے ضلع ڈیرہ غازی خان کے رہائشی تھے۔محکمہ صحت کے حکام کے مطابق دو لاشیں سول ہسپتال کوئٹہ، ایک پانچ سالہ بچے کی لاش نواب غوث بخش ہسپتال مستونگ لائی گئی ہیں۔ سول ہسپتال کے ترجمان کے مطابق ٹراما سینٹر میں مچھ سے لائے گئے زخمیوں کی تعداد 17 تک پہنچ گئی ہے۔کمشنر نصیرآباد ڈویژن طارق قمر نے اردو نیوز کو بتایا کہ صورتحال اب تک کلیئر نہیں۔ سکیورٹی فورسز کلیئرنس آپریشن میں مصروف ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ اب تک ضلع کچھی سے گزرنے والی این 65 شاہراہ پر ٹریفک مکمل طور پر بحال نہیں کی گئی۔ریلوے کنٹرول کوئٹہ کے مطابق بدھ کو کوئٹہ کراچی، کوئٹہ راولپنڈی اور سبی ہرنائی کے درمیان چلنے والی مزید چار ٹرینیں منسوخ کردی گئیں۔اب تک آٹھ ٹرینیں منسوخ کی جاچکی ہیں۔ صورتحال واضح ہونے تک ٹرین سروس معطل رہے گی۔ان حملوں کی ذمہ داری کالعدم بلوچ لبریشن آرمی نے قبول کی ہے اور بتایا ہے کہ حملے میں تنظیم کے خودکش سکواڈ مجید بریگیڈ نے بھی حصہ لیا۔کولپور لیویز کے مطابق حملہ آوروں نے مچھ کے علاوہ ضلع کچھی کے علاقے کولپور میں چھ دکانوں، تین ٹرالرز اور دو چھوٹی گاڑیوں کو پٹرول چھڑک کر آگ لگادی۔ ’زخمی حالت میں دس گھنٹے سے زائد پڑا رہا ، کوئی اٹھانے والا نہیں تھا‘کچھی سے لائے گئے زخمی عبدالنادر نے سول ہسپتال کوئٹہ میں بتایا کہ ’ہم گاڑیوں میں لکڑیاں لوڈ کررہے تھے۔ رات دس بجے اچانک فائرنگ شروع ہوگئی۔ نامعلوم افراد نے فائرنگ کی جس سے ہمارے کئی ساتھی فوت ہوگئے اور میں اور میرا ایک ساتھی زخمی ہوگیا۔‘انہوں نے بتایا کہ حالات اتنے خراب تھے کہ ہمیں اٹھانے والا کوئی نہیں تھا اور ہم صبح تک وہی 10 گھنٹے سے زائد زخمی حالت میں پڑے رہے۔Caption’ایس ایچ او نے سرنڈر کرنے کی بجائے بہادری سے مرنے کو ترجیح دی ‘مچھ پولیس تھانے کے ایس ایچ او ساجد سولنگی حملہ آوروں کے ساتھ مقابلے میں جان کی بازی ہار گئے جب کہ مچھ پولیس تھانے کے متعدد اہلکار زخمی ہوگئے۔سول ہسپتال کوئٹہ لائے گئے ایک زخمی اہلکار نے اردو نیوز کو بتایا کہ مچھ میں ایف سی کیمپ ، ریلوے اسٹیشن اور دیگر عمارات پر رات نو سے دس بجے کے درمیان حملہ ہوا تھا ۔ تھانے پر رات دو بجے کے بعد حملہ ہوا۔انہوں نے بتایا کہ ’حملہ آوروں نے پولیس اہلکاروں کو سرنڈر کرنے کا کہا، ہم نے کہا کہ مریں گے یا مارینگے لیکن سرنڈر نہیں ہوں گے۔ ہم نے آخر تک مقابلہ کیا اور دو دہشت گردوں کو ہلاک کردیا۔ ہمارے ایس ایچ او بھی شہید ہوگئے۔‘مچھ پولیس تھانے کے ایک حوالدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ جب رات کو راکٹ حملے شروع ہوئے تو میں گھر پر تھا۔ حالات کو دیکھتے ہوئے میں نے تھانے جانے کا فیصلہ کیا اور جب وہاں پہنچا تو تھانے میں ایس ایچ او ساجد سولنگی سمیت بارہ تیرہ اہلکار موجود تھے۔انہوں نے بتایا کہ رات گئے سی سی ٹی وی کیمروں سے معلوم ہوا کہ ایک درجن سے زائد حملہ آور تین مختلف اطراف سے تھانے کی دیوار پھلانگنے اور چھت پر چڑھنے کی کوشش کررہے ہیں۔’تھانے کی چھت پر مورچہ قائم تھا ایس ایچ او ساجد سولنگی نے کلاشنکوف لے کر حملہ آوروں کو روکنے کا فیصلہ کیا۔‘انہوں نے بتایا کہ حملہ آور باہر سے اونچی آواز دے کر سرنڈر کرنے کا کہہ رہے تھے لیکن ایس ایچ او نے کہا کہ وہ سرنڈر نہیں ہوں گے اور بہادری سے لڑنے کا فیصلہ کیا۔انہوں نے بتایا کہ ’دہشت گردوں نے تھانے کے گیٹ پر راکٹ کے گولے داغے اور اندر متعدد دستی بم بھی پھینکے۔ وہ شدید فائرنگ کررہے تھے ۔ اس دوران گولی لگنے سے ایس ایچ او شہید ہوگئے۔‘پولیس اہلکاروں نے جوابی کارروائی میں دو دہشت گردوں کو ہلاک کردیا تو وہ پسپا ہوکر پیچھے ہٹ گئے۔ضلع کچھی کہاں واقع ہے؟کچھی پہلے بولان کے نام سے جانا جاتا تھا۔ 4 لاکھ 42 ہزار آبادی والے اس ضلع میں اکثریت بلوچ اور براہوی قبائل کی ہے۔کچھی کا شمار بلوچستان کے سب سے شورش زدہ اضلاع میں ہوتا ہے۔ اس کے پہاڑوں میں کالعدم بلوچ مسلح تنظیموں کے علاوہ داعش ، تحریک طالبان پاکستان اور لشکر جھنگوی کے ٹھکانے بھی رہے ہیں۔ضلع کچھی کوئٹہ سے صرف 35کلومیٹر دور کولپور کے مقام سے شروع ہوتا ہے۔اس کی سرحدیں مستونگ، قلات، سبی اور ہرنائی سے لگتی ہیں۔ یہاں کے سنگلاخ پہاڑوں کے درمیان میں سے گزرنے والا درہ بولان کو تاریخی اور تزویراتی اہمیت حاصل ہے۔ یہ سینکڑوں سالوں تک افغانستان اور ایران سے ہندوستان کو جانے والے تاجروں اور حملہ آورکی گزرگاہ رہا ہے۔انگریزوں نے افغانستان پر حملے کے لیے درہ بولان کو استعمال کیا ۔ 18 ویں صدی کے آخر میں برطانوی حکومت نے یہاں کے مشکل پہاڑی سلسلوں میں ریلوے لائن بچھائی۔