یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ اس دوا میں صحت کی بہتری، خوبصورتی اور ’جوانی کو محفوظ‘ رکھنے والی خصوصیات ہیں۔ ’جیلیٹن‘ کی تیاری کے لیے گدھے کی کھال کو اُبال کر پاؤڈر، گولیاں یا مائع شکل میں دوائی بنائی جاتی ہے۔

سٹیو اپنے گدھوں پر پانی لاد کر اسے فروخت کرتے ہیں اور اس طرح حاصل ہونے والی تھوڑی بہت آمدن میں اپنا گزر بسر کرتے ہیں۔ وہ پانی 20 کے قریب کنٹینرز میں بھرتے اور پھر ان کنٹینرز کو اپنی گدھا گاڑی پر لادتے ہیں اور اپنے گاہکوں تک پہنچ جاتے ہیں۔
مگر چند روز قبل سٹیو کے گدھے اُن کی کھال حاصل کی غرض سے نامعلوم چُرا کر لے گئے جس کے باعث ان کا کام ٹھپ ہو گیا۔
وہ ایک معمول کا دن تھا۔ سٹیو کینیا کے دارالحکومت نیروبی کے نواح میں واقع اپنے گھر سے نکلے مگر انھیں اپنے گدھے گہیں نظر نہ آئے۔
انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’میں دو روز تک اپنے گدھوں کو تلاش کرتا رہا مگر کامیابی نہ ملی۔‘ اُن کے مطابق تین دن بعد انھیں اپنے ایک دوست کی کال موصول ہوئی جس نے انھیں بتایا کہ اس کو سٹیو کے گدھوں کی لاشیں ملی ہیں۔
گدھوں کو مار کر ذبح کیا گیا تھا اور ان کی کھال اُتار لی گئی تھی۔ افریقہ سمیت دنیا میں اُن دیگر خطوں میں جہاں گدھوں کی بہتات ہے وہاں اس نوعیت کے واقعات میں تیزی سے اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔
سٹیو اور اُن کے گدھے دنیا میں گدھوں کی کھال کے متنازع کاروبار کی بھینٹ چڑھ گئے۔
اور اِس کاروبار کی جگہ نیروبی سے ہزاروں میل دور واقع ہے۔ چین میں گدھے کی کھال میں موجود ’جیلیٹن‘ سے بننے والی ایک دوا کی بہت مانگ ہے۔ اس دوا کو چین میں ’ایجیاؤ‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔
یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ اس دوا میں صحت کی بہتری، خوبصورتی اور ’جوانی کو محفوظ‘ رکھنے والی خصوصیات ہیں۔ ’جیلیٹن‘ کی تیاری کے لیے گدھے کی کھال کو اُبال کر پاؤڈر، گولیاں یا مائع شکل میں دوائی بنائی جاتی ہے۔
گدھوں کے کھالوں کے اِس متنازع کاروبار کے خلاف مہم چلانے والوں کا کہنا ہے کہ سٹیو اور اُن جیسے لوگ، جو کمائی کے لیے گدھوں پر انحصار کرتے ہیں، اس دوا کے بڑھتی مقبولیت کی بھینٹ چڑھ رہے ہیں۔
گدھے کی کھالوں کی اس تجارت کے خلاف سنہ 2017 سے سرگرم عمل برطانیہ کی ایک فلاحی تنظیم ’دی ڈنکی سینکچوری‘ کی ایک نئی رپورٹ کے مطابق اندازاً عالمی سطح پر ہر سال کم از کم 59 لاکھ گدھوں کو کھال کے حصول کے لیے مارا جا رہا ہے۔
اس تنظیم کا کہنا ہے کہ ان گدھوں کی طلب میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ بی بی سی ان اعداد و شمار کی آزادانہ طور پر تصدیق نہیں کر سکا ہے۔
چین میں اس دوا سے منسلک انڈسٹری کو سپلائی کرنے کے لیے کتنے گدھے مارے جاتے ہیں اس کی تفصیلات حاصل کرنا خاصا مشکل ہے۔
اندازے کے مطابق دنیا میں گدھوں کی آبادی پانچ کروڑ 30 لاکھ گدھے ہیں اور ان میں سے تقریباً دو تہائی گدھے افریقی ممالک میں موجود ہیں۔ افریقی ممالک میں جانوروں کی فلاح و بہود سے متعلق قوانین میں خامیاں پائی جاتی ہیں جن کا فائدہ گدھوں کی کھالوں کی تجارت میں ملوث گروہ فائدہ اٹھاتے ہیں۔
گدھے کی کھال کی برآمد کچھ ممالک میں قانونی ہے اور کچھ ممالک میں غیر قانونی ہے۔ لیکن کھالوں کی زیادہ مانگ اور کھال کی زیادہ قیمتیں گدھوں کی چوری اور انھیں مارنے کو ہوا دیتی ہے۔
’دا ڈنکی سینکچوری‘ کا کہنا ہے کہ انھیں معلوم ہوا ہے کہ گدھوں کو بین الاقوامی سرحدوں کے پار اُن مقامات تک لے جایا جا رہا ہے، جہاں اُن کی تجارت قانونی ہے۔
مگر اب شاید صورتحال کچھ بہتر ہو جائے کیونکہ اس صورتحال کے پیش نظر بیشتر افریقی ممالک کی حکومتیں اور برازیل گدھوں کی کم ہوتی ہوئی آبادی کے تناظر میں گدھوں کو ذبح کرنے اور اُن کی برآمد پر پابندی لگانے پر غور کر رہی ہیں۔
سولومن اونیاگو ’دا ڈنکی سینکچوئری‘ سے منسلک ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ ’سنہ 2016 اور 2019 کے درمیان ہمارے اندازے کے مطابق کینیا میں گدھوں کی کل آبادی کی نصف تعداد کو کھال کی متنازع تجارت کے لیے مارا گیا ہے۔‘
یہ وہی گدھے ہیں جو افراد، اشیا، پانی اور خوراک کی نقل و حمل میں استعمال ہوتے ہیں اور جو غریب دیہی آبادی کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں۔
لہٰذا ان کی کھالوں کی تجارت میں تیز رفتار ترقی نے اس کاروبار کے خلاف سرگرم اداروں اور ماہرین کو پریشانی میں مبتلا کر دیا ہے اور کینیا میں اس ضمن میں مظاہرے بھی ہوئے ہیں۔
افریقی یونین کے سربراہی اجلاس میں پورے افریقہ میں اس پر غیر معینہ مدت کے لیے پابندی کی تجویز ایجنڈے کا حصہ ہے۔
افریقہ بھر میں ممکنہ پابندی پر غور کرتے ہوئے سٹیو کا کہنا ہے کہ انھیں امید ہے کہ اس سے جانوروں کی حفاظت میں مدد ملے گی بصورت دیگر ’اگلی نسل کے پاس گدھے نہیں ہوں گے۔‘
لیکن کیا پورے افریقہ اور برازیل میں پابندی اس تجارت کو کسی اور جگہ منتقل کر سکتی ہیں؟
ایجیاؤ نامی دوا بنانے والے گدھوں کی کھالوں کو چین میں استعمال کرتے ہیں۔
لیکن وہاں کی زراعت اور دیہی امور کی وزارت کے مطابق ملک میں گدھوں کی تعداد 1990 میں 11 ملین سے کم ہو کر سنہ 2021 میں 20 لاکھ سے بھی کم رہ گئی ہے۔ اس کے ساتھ ہی ایجیاؤ عیش و عشرت سے ہٹ کر ایک مقبول اور بڑے پیمانے پر دستیاب مصنوعات بن گئی ہے۔
اس کے بعد چینی کمپنیوں نے بیرون ملک سے گدھوں کی کھال خریدنا شروع کر دیں۔ افریقہ، جنوبی امریکہ اور ایشیا کے کچھ حصوں میں گدھوں کے باقاعدہ ذبح خانے قائم کیے گئے تھے۔
افریقہ میں اس وجہ سے اس متنازع تجارت پر ایک ڈبیٹ چھڑ گئی۔
ایتھوپیا میں، جہاں گدھے کے گوشت کا استعمال قابل شرم سمجھا جاتا ہے، عوامی احتجاج اور سوشل میڈیا پر شور شرابے کے بعد سنہ 2017 میں یہاں پر قائم گدھوں کے دو ذبح خانوں میں سے ایک کو بند کر دیا گیا۔
تنزانیہ اور آئیوری کوسٹ سمیت دیگر ممالک نے سنہ 2022 میں گدھے کو کھالوں کے حصول کے لیے مارنے اور کھالوں کی برآمد پر پابندی عائد کر دی تھی۔
یونیورسٹی آف سڈنی سے تعلق رکھنے والے چین، افریقہ تعلقات کے سکالر پروفیسر لارین جانسٹن کے مطابق چین میں ’ایجیاؤ‘ مارکیٹ سنہ 2013 میں تقریباً 3.2 ارب ڈالر سے بڑھ کر سنہ 2020 میں تقریباً 7.8 ارب ڈالر تک پہنچ گئی۔
یہ بات اب صحت عامہ کے اہلکاروں، جانوروں کی بہبود کے مہم چلانے والوں اور یہاں تک کہ بین الاقوامی جرائم کے تفتیش کاروں کے لیے بھی تشویش کا باعث بن گئی ہے۔
تحقیق سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ گدھے کی کھالوں کی کھیپ کو دیگر غیر قانونی جنگلی حیات کی مصنوعات کی ترسیل کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ بہت سے لوگ پریشان ہیں کہ تجارت پر قومی پابندیاں اس تجارت کو مزید زیر زمین چلے جانے پر مجبور کر دیں گی۔

ریاستی رہنماؤں کے لیے، بنیادی سوال یہ ہے کہ کیا ترقی پذیر معیشتوں کے لیے مردہ گدھے زندہ گدھوں سے زیادہ قیمتی ہیں؟
فیتھ برڈن ’دا ڈنکی سینکچوری‘ کے چیف ویٹرنری سرجن ہیں۔ اس کا کہنا ہے کہ دنیا کے کئی حصوں میں یہ جانور دیہی زندگی کے لیے لازم و ملزوم ہیں۔ یہ مضبوط، موافقت پذیر جانور ہیں۔ ’ایک گدھا شاید 24 گھنٹے بغیر کچھ کھائے پیے چل سکتا ہے اور بغیر کسی پریشانی کے بہت تیزی سے ’ری ہائیڈریٹ‘ کر سکتا ہے۔‘
لیکن اپنی تمام خوبیوں کی وجہ سے گدھے کی آسانی سے یا جلدی افزائش نہیں ہوتی ۔ لہٰذا مہم چلانے والوں کو خدشہ ہے کہ اگر اس تجارت کو کم نہ کیا گیا تو گدھوں کی آبادی کم ہوتی چلی جائے گی، جس سے غریب ترین لوگوں کو اپنی ’لائف لائن‘سے محروم کر دیا جائے گا۔
پروفیسر جانسٹن کا کہنا ہے کہ گدھوں نے ہزاروں سالوں سے ’غریبوں کا بوجھ اٹھا رکھا ہے۔‘
اور اس میں ایک تلخ حقیقت یہ ہے کہ ایجیاؤ کی مارکیٹنگ بنیادی طور پر امیر چینی خواتین کے لیے بھی کی جاتی ہے۔
یہ ایک ایسا علاج ہے جو ہزاروں سال پرانا ہے اور جس کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ اس سے خون کی کوالٹی بہتر ہوتی ہے، بے خوابی دور ہوتی ہے اور ’فرٹیلٹی‘ یعنی بچے کو جنم دینے کی صلاحیت بڑھنے جیسے بے شمار فوائد ہیں۔ لیکن یہ سنہ 2011 کا ایک چینی ٹی وی شو تھا جو اس طریقہ علاج کی مانگ میں اضافے کا سبب بنا۔
ان کے مطابق اس شو کے ذریعے اس دوا کے استعمال کو خوبصورتی کے ساتھ بھی جوڑا گیا اور اب خود افریقی خواتین بھی اس کی بھینٹ چڑھ رہی ہیں۔
24 برس کے سٹیو پریشان ہیں کہ جب وہ اپنے گدھوں سے ہاتھ دھو بیٹھے تو پھر ان کا اپنے معمولات زندگی اور گزر بسر پر متاثر ہوئے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’میں ابھی مشکل میں پھنس گیا ہوں۔‘
اس متنازع تجارت کے خلاف سرگرم تنظیمیں ایسی مؤثر قانون سازی کا مطالبہ کر رہی ہیں جس سے سٹیو جیسے غریب لوگوں سے ان کا روزگار نہ چھن سکے اور کچھ ایسے متبادل تلاش کیے جائیں تا کہ دنیا میں گدھوں کی کھال کی تجارت پر پابندی عائد کی جا سکے۔
بروک نے اب سٹیو کو ایک نیا گدھا دیا ہے، جس کا نام انھوں نے ’جوئے لکی‘ رکھا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ اب میرے خوابوں کی تکمیل میں میرا مددگار ہو گا۔ اور میں یہ یقینی بناؤں گی کا یہ میرے پاس سے کوئی چرا نہ سکے۔‘