ماسکو ۔18فروری (اے پی پی):سینیٹ کی دفاعی کمیٹی کے چیئرمین سینیٹر مشاہد حسین سید روس کی حکمران ’یونائیٹڈ رشیا‘ پارٹی کی دعوت پر روس کا دورہ کر رہے ہیں۔ اس دوران انہوں نے سابق صدر دمتری میدویدیف اور وزیر خارجہ لاوروف سے ملاقات کی۔ انہوں نے نو تشکیل شدہ انٹرنیشنل فورم فار فریڈم آف نیشنز میں بھی شرکت کی جہاں وہ فورم کی 20 رکنی اسٹینڈنگ کمیٹی کے رکن منتخب ہوئے۔ اس فورم کا اہتمام یونائیٹڈ رشیا پارٹی نے کیا تھا۔ سینیٹر مشاہد حسین نے فورم کے مکمل اجلاس کی شریک صدارت کی جہاں وزیر خارجہ لاوروف نے خطاب کیا اور سینیٹر مشاہد حسین نے سابق صدر دمتری میدویدیف کے ساتھ جامع تبادلہ خیال کیا جو اب روس کی سلامتی کونسل کے نائب چیئرمین ہیں۔سینیٹر مشاہد حسین اور دمتری میدویدیف نے پاکستان روس تعلقات، افغانستان کی صورتحال، غزہ کی جنگ اور خطے میں پاکستان روس تعاون کے لامحدود امکانات بالخصوص توانائی اور اقتصادی رابطوں پر تبادلہ خیال کیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان کے خطے میں بنیادی مفادات جڑے ہوئے ہیں۔ سینیٹر مشاہد حسین نے کہا کہ انہیں ماسکو کے تمام سرکاری اور مقبول حلقوں میں پاکستان کے لیے ’زبردست خیر سگالی‘ ملی۔اس دورے کے دوران سینیٹر مشاہد حسین نے روسی ڈپلومیٹک اکیڈمی میں لیکچر بھی دیا، جو 50 سال میں ڈپلومیٹک اکیڈمی سے خطاب کے لیے مدعو کیے جانے والے پہلے پاکستانی ہیں۔اس ڈائیلاگ کا موضوع ’’پاکستان اور بدلتا ہوا علاقائی منظر نامہ‘‘ تھا۔ سینیٹر مشاہد حسین نے اپنی گفتگو کے دوران اس حقیقت پر بھی روشنی ڈالی کہ پاکستان اور روس کے درمیان مفادات کا کوئی بنیادی ٹکراؤ نہیں ۔انہوں نے پاکستان اور روس کے درمیان بالخصوص توانائی، روابط، تعلیم، افغانستان سمیت علاقائی سلامتی کے شعبوں میں بڑھتے ہوئے تعلقات اور ایس سی او اور اقوام متحدہ سمیت کثیرالجہتی فورمز پر تعاون کا خیرمقدم کیا۔ انہوں نے روس کے تعاون سے پاکستان کی برکس میں شمولیت پر بھی امید ظاہر کی کیونکہ روس 2024 میں برکس کا چیئر ہے۔ اسلاموفوبیا پر صدر پیوٹن کے موقف کو بھی سراہا۔ لیکچر کے بعد ڈپلومیٹک اکیڈمی کے طلباء سے سوال و جواب کا سیشن ہوا۔سینیٹر مشاہد حسین نے روس پاکستان پارلیمانی فرینڈ شپ گروپ کے صدر سینیٹر چژوف سے بھی ملاقات کی۔ سینیٹر مشاہد حسین نے ماسکو میں پاکستانی کمیونٹی کے سرکردہ افراد سے بھی ملاقات کی اور روسی میڈیا کے ساتھ کئی انٹرویوز بھی کیے۔ اپنے دورہ روس کے بارے میں اپنے تاثرات پیش کرتے ہوئے سینیٹر مشاہد حسین نے تین بنیادی نکات کا اظہار کیا:الف) افغانستان میں غیر ملکی مداخلت کے خاتمے کے بعد دونوں ممالک کے پاس ‘اسٹرٹیجک اسپیس’ ہے، مختلف شعبوں میں تعلقات کو نئے سرے سے استوار کرنا؛ ب) پاکستان کو روس اور دیگر پڑوسی ممالک کے ساتھ علاقائی روابط کے لیے خاطر خواہ اقدامات کرنے کے لیے اپنے خارجہ تعلقات میں ‘علاقائی بحالی’ کی ضرورت ہے۔ ج) چین پاکستان اور روس کے لیے اتحاد اور رابطے کا مشترکہ عنصر ہے کیونکہ دونوں ممالک کے بیجنگ کے ساتھ قریبی اسٹریٹجک تعلقات ہیں۔سینیٹر مشاہد حسین کو بھی بین الاقوامی مبصرین کا حصہ بننے کے لیے مدعو کیا گیا جو 15-17 مارچ 2024 کے دوران صدارتی انتخابات کا مشاہدہ کرنےکے لیے روس جائیں گے۔