آرٹیکل 370 کی بحالی کا وعدہ کرنے والی نیشنل کانفرنس کو برتری: کیا انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر میں مودی کا بیانیہ ہار گیا؟

90 سیٹوں پر مشتمل جموں کشمیر اسمبلی میں خطے کی سب سے پرانی سیاسی جماعت نیشنل کانفرنس نے 40 جبکہ کانگریس نے چھ سیٹوں پر فتح حاصل کی ہے جبکہ بی جے پی کو ملنے والی سیٹوں کی تعداد 29 رہی ہے۔ نیشنل کانفرنس نے اپنے انتخابی منشور میں آرٹیکل 370 کی بحالی کا وعدہ کیا تھا۔
نیشنل کانفرنس
Getty Images
نیشنل کانفرنس اپنے بل بوتے پر 40 سے زیادہ سیٹوں پر فتححاصل کرنے میں کامیاب ہوئی ہے

انڈیا کے زیرانتظام کشمیر کے انتخابی نتائج میں کشمیر کی سب سے پرانی سیاسی جماعت نیشنل کانفرنس کو دہائیوں بعد صوبائی اسمبلی میں ملنے والی برتری کو خطہ کشمیر سے متعلق انڈین وزیراعظم نریندر مودی کے ’سیاسی بیانیے کی شکست‘ سے تعبیر کیا جا رہا ہے۔

اِن انتخابات میں فاروق عبداللہ اور عمرعبداللہ کی نیشنل کانفرنس نے راہل گاندھی کی انڈین نیشنل کانگریس کے ساتھ انتخابی اتحاد کیا تھا۔

نیشنل کانفرنس اپنے بل بوتے پر 40 سے زیادہ سیٹوں پر فتححاصل کرنے میں کامیاب ہوئی جبکہ کانگریس چھ سیٹیں جیت پائی۔

اس طرح 90 سیٹوں پر مشتمل جموں کشمیر اسمبلی میں نیشنل کانفرنس اور کانگریس کے اتحاد نے واضح اکثریت حاصل کی ہے۔

دوسری جانب بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے جموں کے میدانی اور پہاڑی علاقوں میں 29 سیٹیں حاصل کی ہیں۔

انتخابی نتائج سامنے آنے کے بعد وزیراعظم نریندر مودی نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ’ایکس‘ پراپنے سلسلہ وار پیغامات میں بی جے پی کی کارکرگی کو سراہتے ہوئے الیکشن میں بھاری عوامی شرکت پر اطمینان کا اظہارکیا ہے۔

انھوں نے نیشنل کانفرنس کو اسمبلی میں برتری حاصل کرنے پر مبارکباد بھی دی ہے۔

واضح رہے کہ اگست 2019 میں آرٹیکل 370کے خاتمے اور جموں کشمیر کو مرکزی انتظام والا خطہ بنانے کے بعد کشمیر میں پہلی مرتبہ الیکشن ہوئے ہیں۔

اِن انتخابات کی خاص بات یہ تھی کہ وزیراعظم نریندر مودی اور اُن کی پارٹی کے رہنما پہلی مرتبہ ہندو چیف منسٹر بنانے اور جموں کشمیر میں اقتدار حاصل کرنے کے مسلسل دعوے کر رہے تھے۔

370 کے خاتمے سے لوگوں کے خوش ہونے کا مودی کا بیانیہ

یاد رہے کہ سنہ 2014 میں محبوبہ مفتی کی پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی اور بی جے پی نے اتحاد قائم کر کے جموں کشمیر میں مخلوط حکومت بنائی تھی جو چند سال ہی چل پائی تھی۔

سنہ 2018 میں بی جے پی اس اتحاد سے علیحدہ ہوئی تو حکومت کا خاتمہ ہو گیا جس کے بعد کشمیر میں صدارتی راج نافذ کیا گیا تھا۔

لیکن پچھلے کئی سال سے نریندر مودی کہتے رہے ہیں کہ جموں کشمیر میں ’باپ بیٹے‘ اور ’باپ بیٹی‘ کی سرکار نہیں بنے گی۔ اُن کا اشارہ فاروق عبداللہ اور اُن کے بیٹے عمرعبداللہ اور مفتی سید اور اُن کی بیٹی محبوبہ مفتی کی طرف تھا۔

حالیہ الیکشن میں مودی نے سرینگر اور جموں میں کئی ریلیوں سے خطاب کے دوران کہا کہ ’خاندانی راج‘ ختم ہو رہا ہے اور دفعہ 370 کو واپس لانے کی باتیں کرنے والے درحقیقت لوگوں کو بہکا رہے ہیں۔

انھوں نے کانگریس اور نیشنل کانفرنس کے اتحاد پر ’پاکستان کے ایجنڈے پر کام کرنے‘ کا الزام تک لگا دیا۔

مودی اور بی جے پی کا بیانیہ یہ تھا کہ دفعہ 370 کے خاتمے سے لوگ خوش ہیں اور وہ اس بار ’خاندانی پارٹیوں کو شکست دے کر‘ اس فیصلے کی توثیق کریں گے۔

دوسری جانب نیشنل کانفرنس اور پی ڈی پی نے لوگوں سے شناخت اور آئینی حقوق کی بحالی کے لیے ووٹ مانگا تھا۔

تجزیہ نگار ریاض ملک کہتے ہیں کہ ’الیکشن کے نتائج مودی اور بی جے پی کے کشمیر سے متعلق بیانیے کے خلاف واضح ریفرینڈم ہے۔ اس بیانیہ کی کشمیر میں ہار ہوئی ہے۔‘

اُن کا کہنا ہے کہ بی جے پی نے ماضی کے مقابلے میں جموں سے چند سیٹیں زیادہ لی ہیں، لیکن مسلم اکثریتی خطوں چناب ویلی اور پونچھ راجوری خطوں میں بی جے پی کو توقع سے بھی کم سیٹیں حاصل ہو سکی ہیں۔

ایگزِٹ پول جو غلط ثابت ہوا

کشمیر میں انتخابات
Getty Images

چند روز قبل انڈیا کی بعض میڈیا کمپنیوں نے الیکشن نتائج کی پیشن گوئی کے سروے جاری کیے تھے۔

ان سبھی ایگزِٹ پولز میں جموں کشمیر میں ایک معلق یا ہنگ پارلیمان کی پیشن گوئی کرتے ہوئے کہا گیا تھا کہ کسی بھی پارٹی کو واضح اکثریت حاصل نہیں ہو گی۔

تاہم عمرعبداللہ نے ایگزِٹ پولز کو وقت کا ضیاع قرار دے کر جیت کا اعتماد ظاہر کیا تھا۔

ایگزِٹ پول سے پہلے بی جے پی کے نیشنل جنرل سیکریٹری ترون چُگ اور جموں کشمیر میں بی جے پی کے سربراہ رویندر رینا نے دعویٰ کیا تھا کہ بی جے پی اپنے بل پر اکثریت حاصل کرکے حکومت بنائے گی۔

لیکن نتائج کے دوران رویندر رینا اپنے حلقے نوشہرہ سے الیکشن ہار گئے۔

نئی حکومت میں لیفٹنٹ گورنر کے اختیارات میں توسیع

مودی حکومت کی طرف سے مسلسل یقین دہانیوں کے باوجود جموں کشمیر کے لیے باقاعدہ ریاست کا درجہ ابھی تک بحال نہیں کیا گیا ہے۔

اس دوران لیفٹنٹ گورنر کے اختیارات میں توسیع کی گئی ہے۔ اکثر حلقے کافی عرصے سے کہہ رہے ہیںکہ ’جموں کشمیر کی نئی حکومت ایک میونسپلٹی جیسی ہو گی جہاں وزیراعلیٰ کو صرف اُسی فائل پر دستخط کرنا ہوں گے جسے گورنر ہاؤس سے گرین سگنل ملے گا۔‘

سینیئر صحافی اور تجزیہ نگار شیخ قیوم کا بھی یہی خیال ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’ایسالگتا ہے کہ یہ حکومت وزرا کی، وزرا کے لیےاور وزرا کے ذریعے ہو گی۔‘

جبکہ صحافی ریاض ملک کہتے ہیں کہ لیفٹیننٹ گورنر کو امن و قانون، مالیات، اور دوسرے اہم معاملوں میں بااختیار بنایا گیا ہے۔

’کابینہ کے اجلاس کے ایجنڈا دو دن پہلے گورنر ہاوس بھیجنا ہو گا۔ اسی طرح پولیس محکمے کی کمان براہ راست نئی دلی کے پاس رہے گی، حکومت کسی منصوبے پر رقم مخصوص کرنے کے لیے بھی لیفٹیننٹ گورنر کی محتاج ہو گی۔‘

واضح رہے بی جے پی جموں سے 29 سیٹیں حاصل کر کے نیشنل کانفرنس کے بعد دوسری بڑی پارٹی کے طور پر اُبھری ہے۔

سنہ 2014کے الیکشن میں بی جے پی کو جموں سے 25 سیٹیں ملی تھیں۔ بی جے پی اس بار پہلے کی نسبت اپنیسیٹوں کی تعداد میں چار سیٹوں کا اضافہ کرنے میں کامیاب رہی ہے۔

مبصرین کہتے ہیں مودی حکومت نے پہلے ہی گورنر کو پانچ اراکین کو اسمبلی ممبر کے طور نامزد کرنے کا اختیار دیا ہے۔ یہ نامزد ممبران پاکستان کے ہندو مہاجرین اور کشمیری پنڈتوں پر مشتمل ہوں گے۔

ریاض ملک کہتے ہیں کہ ’یہ پانچ بھی اگر بی جے پی کے ممبران کے ساتھ جوڑ دیے جائیں تو اسمبلی میں بی جے پی کی عددی قوت 34تک پہنچ جائے گی اور اگر بعض آزاد اُمیدواروں نے بھی بی جے پی کی حمایت کی تو حکومت کو ایک نہایت طاقتور اپوزیشن کا سامنا ہو گا، جو حکومت کی جینا حرام کر سکتی ہے۔‘

’گھڑی کی سوئی پھر سے 22 سال پیچھے جا چکی‘

عمر عبداللہ کی جماعت جموں و کشمیر نیشنل کانفرنس کی ریلی
Getty Images
انتخابات سے قبل عمرعبداللہ کی جماعت جموں و کشمیر نیشنل کانفرنس کی ریلی

تبصرہ نگار عاشق پیرزادہ کہتے ہیں کہ دہائیوں بعد پہلی بار کشمیر میں ہونے والے انتخابات کے دوران بجلی، پانی ، سڑک اور روزگار کا مسئلہ نہیں اٹھایا گیا۔

’نیشنل کانفرنس کے منشور میں آرٹیکل 370 کی بحالی، انڈیا اور پاکستان کے درمیان تعلقات کی بحالی، قیدیوں کی رہائی اور اظہار رائے کی آزادی کو بحال کرنے جیسے وعدے کیے گئے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ لوگوں نے اسی پارٹی کو ووٹ دیے۔‘

واضح رہے پانچ سال پہلے جب آرٹیکل370 کو ہٹایا گیا تو جموں کے ہندو اکثریتی علاقوں میں جشن منایا گیا تھا اور کشمیر میں سخت ترین سکیورٹی پابندیوں اور بڑے پیمانے پر گرفتاریوں کی وجہ سے پتھراوٴ یا تشدد کا کوئی واقعہ نہیں ہوا تھا۔

اس سے یہ اندازہ لگایا جا رہا تھا کہ بی جے پی اب جموں کے بعد کشمیر میں بھی سیاسی جگہ بنانے میں کامیاب ہو جائے گی۔

’اس سلسلے میں کافی کچھ ہوا بھی۔ کشمیر میں سینکڑوں لوگوں نے بی جے پی میں شمولیت بھی کر لی۔ لیکن وادیٴ کشمیر کی 19 سیٹوں پر الیکشن لڑنے کے باوجود بی جے پی کشمیر ویلی میں اپنا سیاسی کھاتہ نہیں کھول پائی۔‘

جموں کے ہندو اکثریتی علاقوں میں بھلے سے بی جے پی کو 29 سیٹیں ملی ہوں، لیکن جموں کے سماجی اور سیاسی حلقوں میں بی جے پی کی حکمت عملی سے متعلق کافی بے چینی پائی جاتی ہے۔

جموں میں مقیممعروف صحافی اور تجزیہ نگار تَرُون اُپادھیائے کہتے ہیں: ’بی جے پی نے مذہبی کارڈ پر حد سے زیاده انحصار کیا۔ جموں کے لوگوں کی خواہش تھی اقتدار اور انتظامیہ پر کشمیریوں کا یکطرفہ غلبہ ختم ہو جائے، اس بات پر کوئی غور نہیں کیا گیا۔ نتیجہ ہم سب کے سامنے ہے۔ زیادہ سیٹیں لینے کے باوجود حکومت اور انتظامیہ میں جموں کی نمائندگینہ ہونے کے برابر ہو گی۔‘

تَرُون کا کہنا ہے کہ ’ماضی میں پی ڈی پی، کانگریس اتحاد، نیشنل کانفرنس، کانگریس اتحاد اور پی ڈی پی اور بی جے پی اتحاد کی جو حکومتیں بنیں اُن میں جموں کو اچھی خاصی نمائندگی ملی تھی، لیکن اس بار جموں دوبارہ حاشیے پر ہے۔ ‘

اُن کے مطابق ’گھڑی کی سوئی پھر سے 22 سال پیچھے جا چکی ہے جس کے لیے بی جے پی کی غلط پالیسی ذمہ دار ہے۔‘

نیشنل کانفرنس ہاٹ فیورِٹ کیوں بنی؟

تقسیم ہند سے پہلے بننے والی جموں کشمیر کی اولین سیاسی جماعت نیشنل کانفرنس کے بانی شیخ عبداللہ نے بانی پاکستان محمد علی جناح کا دو قومی نظریہ مسترد کیا تھا۔

جموں کشمیر میں مسلم اکثریت ہونے کے باوجود انھوں نے اُس وقت کے انڈین وزیراعظم جواہر لعل نہرو کا ساتھ دے کر انڈیا کے ساتھ الحاق کو تسلیم کر لیا، لیکن اُس الحاق کی بنیادی شرط یہ تھی کہ انڈیا کے پاس کرنسی، خارجہ امور اور مواصلات کے اختیارات ہوں گے جبکہ باقی تمام امور میں جموں کشمیر خودمختار ہو گا۔

یہ سب انڈین آئین کے آرٹیکل 370 کے تحت ممکن بنایا گیا تھا تاہم بعد میں یہ اختیارات رفتہ رفتہ کم کیے گئے، یہاں تک کہ سنہ 2019 میں مودی حکومت نے آرٹیکل 370 کو ختم کر کے کشمیر کو ایک یونین ٹیریٹری بنا کر یہاں سینکڑوں نئے قوانین نافذ کیے، جن میں کسی بھی انڈین شہری کو کشمیر میں زمین خریدنے، نوکری حاصل کرنے اور ووٹ ڈالنے کا حق دیا گیا۔

نیشنل کانفرنس اور اُس کی ہم خیال جماعتوںنے ان سبھی فیصلوں کو چیلنج کیا جس کی وجہ سے اس جماعت کو الیکشن میں عوامی حمایت حاصل ہوئی۔

سینیئر صحافی اور تجزیہ نگار نصیر گنائی کہتے ہیں کہ ’نیشنل کانفرنس کو پچھلے انتخابات میں 28 یا اس سے کم سیٹیں ملتی تھیں مگر اس بار انھیں 42 سیٹیں ملی ہیں، جس کا کا مطلب ہے کہ نیشنل کانفرنس کو اپنے کارکنوں کا ہی نہیں بلکہ عوام کا ووٹ ملا ہے، اور انھیں اس کا احساس ہونا چاہیے۔‘


News Source

مزید خبریں

BBC

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Follow US