پشتون تحفط موومنٹ: حکومت نے کالعدم تنظیم کو کیوں اور کیسے جرگہ منعقد کرنے کی اجازت دی؟

وفاقی و صوبائی حکومت کی جانب سے پی ٹی ایم کو کالعدم قرار دیے جانے کے باوجود جرگہ منعقد کرنے کی اجازت پر یہ سوال پیدا ہوئے ہیں کہ اگر اجازت دینی تھی تو پہلے اس کو روکنے کی کوشش کیوں کی گئی؟ اور وہ کون سے عوامل تھے جن کے باعث پی ٹی ایم کو یہ جرگہ منعقد کرنے کی اجازت ملی؟
پی ٹی ایم
Getty Images

پاکستان کی وفاقی و صوبائی حکومت کی جانب سے پختونوں کے حقوق کے لیے سرکردہ کالعدم تنظیم پشتون تحفظ موومنٹ کو مذاکرات کے بعد جمرود میں ’قومی جرگے‘ کا انعقاد کرنے کی اجازت ملنے کے باوجود جرگہ پہلے روز شروع نہیں ہو سکا ہے۔

بی بی سی پشتو کے نامہ نگار محمد افتخار کے مطابق پی ٹی ایم کے سربراہ منظور پشتین نے الزام عائد کیا ہے کہ ’لاہور سے منگوایا گیا سکرین راستے میں ہی غائب کر دیا گیا ہے۔ اب متبادل سکرین اور آڈیو سسٹم کا انتظام ہو چکا ہے لیکن جرگے کی کارروائی اب آج کی بجائے کل صبح (یعنی سنیچر کو) دس بجے شروع ہو گی۔ ‘

ایک ویڈیو پیغام میں انھوں نے کہا کہ ’پہلے دو دنوں کی کارروائی (ڈیٹا شیئرنگ اور مشاورت) سنیچر کو مکمل کی جائے گی جبکہ اتوار کو فیصلہ سنایا جائے گا۔‘

یاد رہے کہ پشتون تحفظ موومنٹ نے 11 اکتوبر کو ضلع خیبر کے ایک بڑے میدان میں ’پشتون قومی جرگہ‘ یا عدالت کے انعقاد کا اعلان کر رکھا تھا۔

پی ٹی ایم کے سربراہ منظور پشتین نے حکومت کی جانب سے پی ٹی ایم کو کالعدم قرار دینے اور اس جرگے کے انعقاد کو روکنے کی کوشش پر کہا تھا کہ ایک پر امن تحریک کو دہشت گردوں کی فہرست میں شامل کرنا ظلم اور جبر کا فیصلہ ہے اور صرف ہم نے نہیں پورے پختون خطے نے اس کی مذمت کی ہے۔

جمعرات کی شب وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور کے ساتھ ون آن ون ملاقات کے بعد صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے منظور پشتین نے پابندی کے حوالے سے سوال پر حکومت پر الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ انتہائی ظلم اور جبر کا فیصلہ ہے کیونکہ جو احسان اللہ احسان جیسے عسکریت پسندوں کے معاون ہیں وہ یہاں کھلے عام گھوم پھر رہے ہیں۔‘

وفاقی و صوبائی حکومت کی جانب سے پی ٹی ایم کو کالعدم قرار دیے جانے کے باوجود جرگہ منعقد کرنے کی اجازت پر یہ سوال پیدا ہوئے ہیں کہ اگر اجازت دینی تھی تو پہلے اس کو روکنے کی کوشش کیوں کی گئی؟ اور وہ کون سے عوامل تھے جن کے باعث پی ٹی ایم کو یہ جرگہ منعقد کرنے کی اجازت ملی؟

’پاکستانی فوج کے خلاف کوئی نعرے بازی یا کوئی تقریر نہیں ہو گی‘

حکومت کی جانب سے پی ٹی ایم پر پابندی لگائے جانے کے اقدام کے بارے میں بی بی سی نے وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈا پور اور صوبائی وزیر قانون آفتاب عالم سے رابطے کی کوشش کی اور انھیں سوال بھی بھیجے گئے لیکن ان کی طرف سے اب تک کوئی جواب موصول نہیں ہوا ہے۔

تاہم صوبائی حکومت کے ترجمان بیرسٹر سیف نے بی بی سی کو بتایا کہ ’وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا اور پی ٹی ایم کے رہنماؤں کے درمیان ملاقات کے بعد اس جرگے کے متعلق فیصلہ کیا گیا اور اب یہ پی ٹی ایم کا جرگہ نہیں، بلکہ وفاقی حکومت کی اجازت سے صوبائی حکومت کے زیر انتظام ہو رہا ہے اور اس میں تمام سیاسی جماعتیں شریک ہو رہی ہیں۔

’اب یہ جرگہ کسی تنظیم، تحریک یا کسی اور کا نہیں بلکہ یہ تمام پشتونوں کا نمائندہ جرگہ ہو گا۔‘

انھوں نے کہا کہ اب وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا ہی اس کے میزبان ہیں اور اس کے لیے تمام سہولیات اور انتظامات خیبر پختونخوا حکومت کر رہی ہے۔

بیریسٹر سیف کا کہنا تھا کہ حکومت نے اس جرگے کے انعقاد کے لیے مشروط اجازت دی ہے۔

انھوں نے بتایا کہ ’اس کی شرائط یہ ہیں کہ اس پورے اجتماع میں ریاست پاکستان کے خلاف، پاکستان کے آئین اور پاکستانی فوج کے خلاف کوئی نعرے بازی یا کوئی تقریر نہیں ہو گی۔ جرگے میں کسی اور تنظیم کا جھنڈا نہیں بلکہ صرف پاکستان کا جھنڈا لانے کی اجازت ہو گی اور امن کے قیام اور پشتونوں کو درپیش مسائل پر بات چیت ہو گی۔

ان کا کہنا تھا کہ ’یہ تمام شرائط جرگے کے تمام اراکین نے تسلیم کی ہیں اور یہ ریاست پاکستان سے بغاوت نہیں بلکہ ریاست پاکستان کی اجازت اور ان کے قائم کردہ جرگہ کے ذریعے سے ہو رہا ہے۔‘

اس سے قبل بی بی سی سے بات کرتے ہوئے پی ٹی ایم کے میڈیا کوارڈینیٹر زبیر شاہ آغا نے کہاکہ ’یہ کوئی جلسہ، ریلی یا مظاہرہ نہیں ہے جہاں نعرے لگائے جائیں گے۔ یہ پشتون روایات کے مطابق جرگہ ہے جہاں صرف مشاورت ہو گی اور اس کے نتیجے میں قائدین کسی فیصلے کا اعلان کریں گے اور یہ فیصلہ جو بھی ہوگا پی ٹی ایم اور آنے والے تمام پشتونوں کو اسے قبول کرنا ہو گا۔‘

اسبارے میں انسپیکٹر جنرل ریٹائرڈ اختر علی شاہ سے رابطہ کیا تو ان کا کہنا تھا کہ ’اگر یہ جرگہ پی ٹی ایم کے زیر انتظام ہو رہا ہے اور اس تنظیم کو وفاقی حکومت کالعدم قرار دے چکی ہے تو پاکستان کے قانون کے تحت تو یہ تنظیم یہ جرگہ منعقد نہیں کر سکتی۔‘

انھوں نے کہا کہ ’دوسری جانب اگر دیکھیں تو ایسی متعدد مثالیں ہمارے سامنے ہیں جن میں امریکہ نے افغان طالبان کو دہشت گرد قرار دینے کے بعد ان سے مذاکرات کیے۔‘

ان کا کہنا ہے کہ پاکستان میں ایسی تنظیمیں ہیں جن پر پابندی ہے اور ان کے دھرنے اور جلسےفیض آباد میں بھی ہوئے ہیں اسلام آباد میں بھی ہوئے ہیں۔

اختر علی شاہ کا کہنا تھا کہ ’جہاں تک پی ٹی ایم کی بات ہے تو اس تنظیم کے تو کبھی بھی کسی تشدد کے واقعہ کی ملوث ہونے کے شواہد سامنے نہیں آئے بلکہ یہ تنظیم تو امن کا مطالبہ کرتی آئی ہے۔‘

سینیئر صحافی اور اس تمام صورتحال پر نظر رکھے ہوئے صحافی ارشد عزیز ملک نے اس بارے میں بی بی سی کو بتایا کہ ’پاکستان میں یہ کوئی پہلا موقع نہیں ہے بلکہ اس سے پہلے بھی کالعدم قرار دی گئی مختلف تنظیمیں جلسے بھی کرتی رہی ہیں اور ان کے لوگ کھلے عام گھومتے بھی رہے ہیں۔‘

وزیر اعلیٰ علی امین گنڈاپور اور منظور پشتین کی ملاقات

جمعرات کی شب پارلیمانی وفد منظور پشتین سے ملاقات کے لیے جمرود پہنچا تھا لیکن اس میں کوئی کامیابی حاصل نہیں ہوئی جس کے بعد وزیر اعلیٰ کے پی کے علی امین گنڈا پور اور ان کے بھائی رکن قومی اسمبلی فیصل امین گنڈا پور جمرود گئے جہاں ان کی پی ٹی ایم کے سربراہ منظور پشتین سے ملاقات ہوئی ہے۔

اس بارے میں دونوں رہنماؤں نے زیادہ تفصیل نہیں بتائی نہ ہی وزیر اعلیٰ نے یہ بتایا کہ کالعدم قرار دیے جانے کے بعد کسی تنظیم کو حکومت کیسے جرگہ کرنے کی اجازت دے سکتی ہے۔

منظور پشتین نے گذشتہ رات وزیر اعلی کے ہمراہ صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ ’صرف ہم نے نہیں بلکہ پوری پختون بیلٹ اور سیاسی جماعتوں اور تنظیموں نے حکومت کے پی ٹی ایم پر پابندی کے اس فیصلے کی مذمت کی ہے۔‘

تنظیم پر پابندی کے ایک سوال کے دوران وزیر اعلیٰ علی امین گنڈا پور نے کہا کہ جرگہ ہو رہا ہے تو کالعدم کی بات اب نہیں ہے۔

اس دوران منظور پشتین نے کہا کہ ’انھوں (وفاقی حکومت) نے کہا تھا کہ جو ہم سے ملے گا ان کے شناختی کارڈ، پاسپورٹ بلاک کر دیں گے۔‘ جس پر وزیر اعلیٰ علی امین نے کہا کہ ’میرا بٹوہ اور شناختی کارڈ بھی ان کے پاس ہے، وہ بھی اس میں شامل کریں گے۔‘

واضح رہے کہ وزیر اعلیٰ علی امین گنڈا پور پی ٹی آئی کے اسلام آباد میں ڈی چوک پر جلسے کے دوران خیبرپخونخوا ہاؤس اسلام آباد میں رینجرز اور پولیس کی جانب سے داخل ہونے اور ان کی گاڑی کے شیشے توڑنے کا ذکر کر رہے تھے۔

میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے منظور پشتین نے کہا کہ پختونوں کا جرگہ اپنی روایات پر آج بھی قائم ہے۔

منظور پشتین نے بتایا کہ علی امین سے ملاقات میں ہلاک ہونے والوں کے لیے تعزیت کی گئی اور پختون بیلٹ میں امن اور قوم کے لیے پرامن تحریک کو سراہنے پر بات چیت ہوئی ہے اور کبھی بھی ایسا مسئلہ نہیں ہو گا کہ اس میں رکاوٹ پیدا کی جائے اس لیے جرگہ اپنے وقت پر اور اپنے مقام پر ہو گا۔

اس دوران ایک سوال پر علی امین گنڈاپور نے کہا کہ وفاقی حکومت نے جو صوبے کے اندر مداخلت کر کے اور صوبے کی روایات اور پختونوں کی روایت اور پہچان ’جرگہ‘ پر جو حملہ کیا اس کی مذمت کرتا ہوں۔

انھوں نے کہا کہ یہ ’ہماری کامیابی ہے اور قربانی دینی پڑتی ہے پاکستان بننے کے وقت بھی قربانی دی گئی اور پھر قبائل نے پورے پاکستان اور امن کے لیے قربانی دی۔‘

انھوں نے کہا کہ ’ان قربانیوں کی وجہ سے آج جرگہ اسی جگہ ہو رہا ہے اور اسی وقت پر ہو رہا ہے اور اس جرگے میں تمام مسائل اور مطالبات پر بات چیت ہو گی۔‘

بی بی سی پشتو کے محمد افتخار کی پی ٹی ایم کے ترجمان زبیر شاہ آغا سے بات ہوئی جن کا دعویٰ ہے کہ ’حکومت نے جرگے کے لیے کوئی شرائط نہیں رکھی ہیں اور نہ ہی ان کو ایسی کوئی یقین دہانی کرائی گئی ہے۔‘

پی ٹی ایم کے میڈیا کوارڈینیٹر زبیر شاہ آغا نے کہا کہ گذشتہ رات حکومت اور سیاسی جماعتوں کے وفد مذاکرات کے لیے نہیں بلکہ گذشتہ روز کے واقعات اور ہونے والے جانی نقصان پر افسوس کے لیے جرگے کی شکل میں آیا تھا۔

زبیر شاہ نے کہا کہ وزیر اعلیٰ کی قیادت میں وفد نے پی ٹی ایم سے صرف پرامن طریقے سے جرگہ کرنے کی درخواست کی ہے اور وفد کو اس کی یقین دہانی کرائی گئی ہے۔

پی ٹی ایم کے ترجمان کا کہنا ہے کہ ’حکومتی وفد نے پی ٹی ایم کو 11 اکتوبر کو تمام بند رستے کھلنے اور گرفتار افراد رہا کرنے کی یقین دہانی کرائی جس کے بعد منظور پشتین نے جرگہ نماز جمعہ کے بعد شروع کرنے کا وقت طے کیا۔‘

پی ٹی ایم
Getty Images

’تصادم اور ہلاکتوں کے باعث وزیرِ داخلہ کو خیبرپختونخوا آنا پڑا‘

حالیہ دنوں میں پاکستان اور خاص طور پر خیبر پختونخوا کے لیے جمعرات کا دن انتہائی اہم اس لیے بھی تھا کہ کل تک جو سیاسی رہنما ایک دوسرے کے خلاف سخت زبان کے ساتھ ساتھ آنسو گیس اور ربڑ کی گولیاں برسا رہے تھے وہ گذشتہ روز ایک دوسرے کو گلے لگا کر مل رہے تھے اورپی ٹی ایم کے بارے میں بات چیت کرنے کے لیے ایک ساتھ بیٹھ گئے تھے۔

وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی، گورنر خیبر پختونخوا فیصل کنڈی اور وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈا پور اس بات پر سر جوڑ کر بیٹھے تھے کہ پی ٹی ایم کے ساتھ کیسے نمٹا جائے۔

جبکہ اس سے چند روز قبل ہی پی ٹی آئی کی جانب سے ڈی چوک پر جلسہ کرنے پر وفاقی وزیر داخلہ نے وزیر اعلیٰ کے پی پر اسلام آباد پر چڑھائی کرنے کا بیان دیا تھا۔

وزیر اعلیٰ کے پی کے جو کل تک وفاقی حکومت کے زیر عتاب تھے آج وہ وفاق کی حمایت سے پی ٹی ایم سے معاملات بہتر کرنے کے لیے تیار نظر آئے۔

مقامی صحافی ارشد عزیز ملک نے بتایا کہ ’جرگہ کے مقام پر جب وفاقی حکومت کے جانب سے طاقت کے زور پر معاملہ حل کرنے کی کوشش کی اور اس تصادم میں متعدد افراد ہلاک ہوئے تو سیاسی جماعتوں اور قبائلی رہنماؤں کی جانب سے سخت رد عمل سامنے آیا۔ جس کے بعد وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی کو پشاور آنا پڑا۔‘

پی ٹی ایم اور قبائلی رہنماؤں کی حمایت

پی ٹی ایم
Getty Images

خیبر پختونخوا میں قومی جرگہ منعقد کرنے کا فیصلہ پی ٹی ایم نے تقریباً تین ماہ پہلے کیا تھا اور اس کے لیے تنظیم نے بھرپور تیاریاں کی تھیں۔

سینیئر صحافی لحاظ علی نے بی بی سی کو بتایا کہ تنظیم کی جانب سے تمام سیاسی جماعتوں، تمام تنظیموں، تمام مقامی قائدین کو دعوت دی گئی تھی اور جب تیاریاں مکمل ہو گئی تھیں تو اچانک وفاق کی جانب سے تنظیم پر پابندی عائد کر دی گئی تھی۔

پی ٹی ایم پر پابندی کی جمعیت علما اسلام (ف)، عوامی نیشنل پارٹی، آفتاب شیرپاؤ کی جماعت قومی وطن پارٹی،محسن داوڑ کی جماعت نیشنل ڈیموکریٹک موومنٹ سمیت دیگر تنظیموں نے مخالفت کی تھی۔ مولانا فضل الرحمان اور ایمل ولی خان نے تو جرگہ میں اپنی جماعت کے قائدین کی شرکت کا اعلان بھی کیا تھا۔

صحافی لحاظ علی کہتے ہیں کہ ’حکومت کی جانب سے جرگے کے انعقاد کو روکنے کی کوشش میں ہوئے تصادم کے نتیجے میں ہلاکتوں کے بعد مقامی قبائلی رہنما بھی متحرک ہوئےاور انھوں نے پی ٹی ایم کے جرگے کی حمایت کی۔

’جس کے بعد وفاقی اور صوبائی حکومت نے اس معاملے کو سلجھانے کے لیے مل بیٹھ کر اسے حل کرنے کی کوشش کی ہے۔پشتون تحفظ موومنٹ کا شروع دن سے مؤقف رہا ہے کہ وہ عدم تشدد کی تحریک پر یقین رکھتے ہیں۔‘


News Source

مزید خبریں

BBC

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Get Alerts