شاہ محمود قریشی کی 9مئی مقدمے میں بریت، مقتدر حلقوں کی عنایت یا وجہ کچھ اور؟ 

image

پاکستان تحریک انصاف کے لیے منگل 22 جولائی کا دن خاصا سخت رہا جب انسدادِ دہشت گردی کی دو مختلف عدالتوں نے 9 مئی کے مقدمات کے فیصلے سنائے جن میں پی ٹی آئی کے رہنماؤں اور کارکنوں کو توڑ پھوڑ اور دیگر الزام ثابت ہونے پر سزا سنائی گئی۔

تاہم شاہ محمود قریشی جو تحریک انصاف کے ’نائب کپتان‘ کے طور پر بھی جانے جاتے ہیں (کیونکہ عمران خان جب چیئرمین تحریک انصاف تھے تو وہ پارٹی کے وائس چیئرمین تھے) شیرپاؤ پُل لاہور پر ہونے والی توڑ پھوڑ کے مقدمے میں بری ہو جاتے ہیں۔

اس حوالے سے عدالت اپنے فیصلے میں لکھتی ہے کہ ’ان (شاہ محمود قریشی) کے خلاف ثبوت ناکافی ہیں۔‘

اسی مقدمے میں البتہ یاسمین راشد کو 10 سال کی سزا ہو چکی ہے تو ایسے میں کئی طرح کی چہ میگوئیاں سیاسی حلقوں اور سوشل میڈیا پر پائی جا رہی ہیں۔

اس حوالے سے کئی طرح کے سوالات بھی اٹھائے گئے ہیں کہ کیا شاہ محمود قریشی پر مقتدر حلقوں کی طرف سے کوئی عنایت کی گئی ہے یا پسِ پردہ کچھ اور کہانی چل رہی ہے؟ 

ملتان میں شاہ محمود قریشی کے پُرانے حریف جاوید ہاشمی نے اس موضوع پر بات کرتے ہوئے اردو نیوز کو بتایا کہ ’مجھے خوشی ہے کہ شاہ محمود کو اس مقدمے میں بری کیا گیا ہے۔‘

’شاہ محمود قریشی نے بہت جُرأت کے ساتھ جیل کاٹی ہے۔ مجھے اس بات میں کوئی ابہام نہیں ہے کہ اگر انہوں نے جُھکنا ہوتا تو بہت مواقع تھے۔ اب جب اُن کا قد بڑا ہو گیا ہے توُ وہ کسی اور طرف کیوں جائیں گے؟‘

پی ٹی آئی کے سیکریٹری جنرل سلمان اکرم راجا نے بدھ کو میڈیا سے بات کرتے ہوئے ایک سوال کے جواب میں بتایا کہ ’شاہ محمود قریشی ابھی صرف ایک مقدمے میں بری ہوئے ہیں۔‘

ان کے مطابق ’ابھی شاہ محمود قریشی کے خلاف مزید 8 سے 9 بڑے مقدمات موجود ہیں اس لیے وہ جلد رہا ہوتے نظر نہیں آرہے۔‘ ان سے سوال کیا گیا تھا کہ کیا شاہ محمود رہا ہو رہے ہیں اور کیا وہ پارٹی کی قیادت سنبھالیں گے؟

پاکستان کے سیاسی معاملات پر نظر رکھنے والے اور ایک امریکی یونیورسٹی کے استاد رضا رومی کہتے ہیں کہ ’اس فیصلے میں ایک بات واضح طور پر نظر آئی ہے کہ ریاستی اداروں کا شاہ محمود قریشی سے برتاؤ قدرے مختلف ہے۔‘ 

سیاسی ماہرین کہتے ہیں کہ ’ریاستی اداروں کا شاہ محمود قریشی سے برتاؤ قدرے مختلف ہے‘ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

’اس کی وجہ اُن کا 9 مئی پر واضح موقف ہے۔ وہ رہنما جو تحریک انصاف کی سخت سیاست کے دلدادہ ہیں شاہ محمود قریشی اُن میں شمار نہیں ہوتے۔ وہ سخت گیر نہیں ہیں۔‘

رضا رومی کہتے ہیں کہ ’شاہ محمود قریشی نے جیل ٹرائل کے دوران ایک مرتبہ گفتگو میں کہا تھا کہ سب کی نظریں عمران خان پر ہیں جبکہ باقی اسیروں کو کوئی پوچھ بھی نہیں رہا۔‘

’پھر حال ہی میں اُن کا ایک خط جس میں انہوں نے سیاست دانوں سے بات چیت کا مشورہ دیا تھا ایسی باتیں ہیں جو اُنہیں پاکستان تحریک انصاف کی پاپولر سیاست سے تھوڑا مختلف بناتی ہیں۔‘

ان کا کہنا ہے کہ ’میرا خیال ہے کوئی بھی تبصرہ اب قبل از وقت ہو گا کہ شاہ محمود قریشی کوئی ڈیل کر رہے ہیں یا نہیں۔ ابھی باقی مقدموں کے فیصلے آنے سے ہی صورت حال واضح ہو گی۔‘

سینیئر صحافی اجمل جامی کہتے ہیں کہ ’اس سارے معاملے میں صرف ایک بات واضح ہے کہ شاہ محمود قریشی کو اس مقدمے میں ریلیف دیا گیا ہے۔‘

’اس کا ایک تاثر یہ بھی ہے کہ اس ریلیف سے انصاف کے ترازو کو بھی برابر کرنے کی کوشش کی گئی ہے، اور میرے خیال میں یہ بات کسی حد تک کامیاب بھی رہی ہے۔‘ 

شاہ محمود قریشی کے والد مخدوم سجاد حسین قریشی 1985 سے 1988 تک گورنر پنجاب رہے (فائل فوٹو: فلِکر)

ملتان کے قریشی خاندان کی سیاست

شاہ محمود قریشی کا تعلق ملتان کے ایک بااثر اور تاریخی سیاسی و مذہبی خاندان سے ہے، جو صدیوں سے جنوبی پنجاب کی سیاست اور رُوحانی گدی نشینی میں کلیدی کردار ادا کرتا رہا ہے۔ 

اُن کے خاندان کا سیاسی سفر اُن کے والد، مخدوم سجاد حسین قریشی سے نمایاں طور پر جُڑا ہے، جو 1985 سے 1988 تک پنجاب کے گورنر رہے۔

مخدوم سجاد حسین قریشی نے نہ صرف سیاسی میدان میں اپنا اثرورسوخ قائم کیا بلکہ حضرت بہاؤالدین زکریا ملتانی اور شاہ رکن عالم کے مزارات کے سجادہ نشین کے طور پر بھی اپنی رُوحانی ساکھ کو مضبوط کیا۔

انہوں نے اپنے سیاسی کیریئر کا آغاز صوبائی اسمبلی کے رکن کے طور پر کیا اور بعد میں سینیٹر منتخب ہوئے، جس سے اُن کے خاندان کی سیاسی حیثیت کو مزید استحکام ملا۔ 

مخدوم سجاد حسین قریشی کی قیادت نے قریشی خاندان کو ملتان میں ایک مضبوط سیاسی ڈھانچہ فراہم کیا، جو شاہ محمود قریشی کے لیے سیاسی میدان میں کامیابی کی راہ ہموار کرنے کا باعث بنا۔

رضا رومی بتاتے ہیں کہ ’شاہ محمود قریشی کے دادا، مخدوم مُرید حسین قریشی، بھی سیاسی طور پر فعال تھے اور قیام پاکستان سے قبل قانون ساز اسمبلی کے رکن رہے۔‘ 

شاہ محمود قریشی جیل سے خط کے ذریعے عمران خان کو سیاست دانوں سے بات چیت کا مشورہ دے چکے ہیں (فائل فوٹو: اے ایف پی)

’وہ قائد اعظم محمد علی جناح کے ساتھیوں میں شامل تھے، لیکن تاریخی تنازعات کے مطابق انہوں نے 1946 کے انتخابات میں یونینسٹ پارٹی کی حمایت کی جو مسلم لیگ کے مقابلے میں ناکام رہی۔‘

رضا رومی کا کہنا ہے کہ ’البتہ اُن کے خاندان کی رُوحانی حیثیت اور زمین داری نے انہیں ملتان کے علاقے میں ایک اہم مقام عطا کیا۔ مخدوم مُرید حسین قریشی نے اپنے مریدین کے نیٹ ورک کے ذریعے سیاسی اثرورسوخ برقرار رکھا۔‘

ان کا مزید کہنا ہے کہ ’مخدوم مُرید حسین قریشی کی سیاسی حیثیت بعد میں اُن کے بیٹے سجاد حسین قریشی اور پوتے شاہ محمود قریشی کے لیے سیاسی سرمایہ ثابت ہوا۔‘ 

’تاہم کچھ تاریخی روایات میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ قریشی خاندان نے 1857 کی جنگِ آزادی میں انگریزوں کی حمایت کی جس پر انہیں جاگیریں اور زمینیں ملیں، جو اُن کی سیاسی طاقت کا ایک اہم ذریعہ بنیں۔‘ 

شاہ محمود قریشی نے اپنے خاندان کی اس سیاسی اور رُوحانی وراثت کو آگے بڑھاتے ہوئے پاکستان کی سیاست میں نمایاں مقام حاصل کیا۔ 

انہوں نے اپنے کیریئر کا آغاز 1985 میں غیر جماعتی انتخابات میں صوبائی اسمبلی کے رکن کے طور پر کیا اور بعد میں پاکستان مسلم لیگ (ن)، پاکستان پیپلز پارٹی، اور بالآخر پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) میں شمولیت اختیار کی۔ 

اُن کی سیاسی جدوجہد اور سفارتی مہارت نے انہیں دو بار وزیر خارجہ کے عہدے تک پہنچایا۔ شاہ محمود نے اپنے خاندان کی روایات کو برقرار رکھتے ہوئے اپنی بیٹی مہربانو قریشی اور بیٹے زین قریشی کو بھی سیاست میں متعارف کرایا۔

اس پر کچھ حلقوں نے اُن پر موروثی سیاست کے الزامات عائد کیے، تاہم اُن کی سیاسی حکمتِ عملی اور ملتان میں مضبوط عوامی بنیاد نے قریشی خاندان کو پاکستان کی سیاست میں ایک اہم قوت کے طور پر برقرار رکھا ہے۔

 


News Source   News Source Text

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Get Alerts Follow