پنجاب کے ضلع سیالکوٹ کے رہائشی 80 سالہ صفدر خان نے گذشتہ روز جنگ اخبار میں کئی برسوں سے رابطے میں نہ رہنے والے اپنے دوست کی تلاش کا اشتہار دیا ہے۔یہ اشتہار منفرد اس لیے ہے کہ عام طور پر اشتہار کا مقصد زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچنا ہوتا ہے، تاہم انہوں نے یہ اشتہار صرف اپنے دوست کے لیے شائع کروایا ہے۔ صفدر خان کی زندگی کئی رنگوں سے سجی ہے۔ انہوں نے لاہور میں کچھ وقت گزارا لیکن والدین کے سیالکوٹ منتقل ہونے کے بعد وہ بھی واپس اپنے آبائی شہر آگئے۔
انہوں نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’سیالکوٹ جانے کے بعد میرا بیٹا انگلینڈ منتقل ہوا تو ہم سب وہاں چلے گئے۔ 16 سال تک انگلینڈ میں رہنے کے بعد سات ماہ قبل پاکستان واپس آیا ہوں لیکن دوستوں کی بہت یاد آتی ہے۔‘جنگ اخبار میں شائع ہونے والے اشتہار میں انہوں نے لکھا ہے کہ ’ان کے دیرینہ دوست رحمان لاہور چوبرجی کوارٹرز میں رہائش پذیر تھے جن کے دو بھائی اور دو بہنیں ہیں۔‘اشتہار کے متن میں مزید لکھا ہے کہ ’بذات خود وہ شاہ عالم مارکیٹ میں ہوزری کی دکان پر کام کرتے تھے۔ میں پچھلے چند سالوں سے انگلینڈ لندن میں مقیم تھا وہاں میری ڈائری جس پر رحمان کا فون نمبر درج تھا گم ہوگئی جس کی وجہ سے ان سے رابطہ نہیں ہوسکا۔‘’پچھلے چند ماہ سے میں واپس پاکستان آچکا ہوں اور اپنے آبائی شہر سیالکوٹ میں مقیم ہوں۔ اگر رحمان یا اس کا کوئی دوست یا بھائی اشتہار پڑھے تو درج ذیل نمبروں پر میرے ساتھ رابطہ کرے۔ میں اس کی خیر خبر جاننا چاہتا ہوں۔‘لاہور کے چوبرجی کوارٹرز اور شاہ عالم مارکیٹ کی گلیوں میں کبھی ان کی گہری دوستی کے رنگ دکھائی دیتے تھے۔یہ وہ زمانہ تھا جب زندگی کی سادگی اور دوستوں کی محفلیں دل کی دھڑکن ہوا کرتی تھیں۔ آج برسوں بعد 80 برس کے صفدر خان اپنے اسی دیرینہ دوست رحمان کو ڈھونڈ رہے ہیں جن کے ساتھ وہ لاہور کی ان گلیوں میں وقت گزارا کرتے تھے۔وہ ان دنوں سیالکوٹ میں پرسکون زندگی گزار رہے ہیں۔ ان کے بقول ’میری پینشن لاکھوں میں ہے لیکن دوستوں کی کمی شدت سے محسوس ہوتی ہے۔‘یہ الفاظ صفدر خان کے دل سے نکلے ہیں جنہوں نے اپنی زندگی کے 16 سال انگلینڈ میں گزارے۔
سید عتیق نے کہا کہ ’ایک وقت ایسا آتا ہے کہ انسان اپنے دوستوں کے ساتھ چند لمحات گزارنا زندگی کا اثاثہ سمجھتا ہے۔‘ (فوٹو: پکسابے)
وہ بتاتے ہیں کہ ’ان کی زندگی میں دو دوست بہت اہم تھے۔ ایک دوست تو اب اس دنیا میں نہیں رہا اور رحمان ہی اب وہ واحد دوست ہیں جن کی یادیں میرے دل میں بس رہی ہیں۔ میری خواہش ہے کہ اس سے ایک بار پھر ملاقات ہو، پرانی باتیں ہوں اور ہم وہ لمحات دوبارہ جیئیں جو ہم نے ساتھ گزارے تھے۔‘
سید عتیق صحافت کے شعبے سے وابستہ ہیں اور صفدر خان کے خاندان کا حصہ ہیں۔ انہوں نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’میرے انکل صرف اخبار میں اشتہار شائع کرنے کے لیے کراچی گئے۔ جب مجھے معلوم ہوا تو میں نے جنگ اخبار کا انتخاب کیا اور اشتہار چھاپ دیا۔ اب تک دو لوگوں نے رابطہ کیا ہے لیکن باقاعدہ تصدیق نہیں ہوسکی ہے۔‘ان کے مطابق ایک خاتون نے رابطہ کیا اور ایک شخص نے بتایا کہ رحمان اب دنیا میں نہیں رہے۔وہ بتاتے ہیں کہ ’ایک شخص کی کال موصول ہوئی اور وہ بتا رہے تھے کہ رحمان صاحب اب دنیا میں نہیں رہے۔ لیکن اب تک ہمیں کوئی تصدیق نہیں ہوئی اور نہ میں نے اپنے انکل کو یہ بات بتائی ہے۔‘صفدر خان کی کہانی صرف ایک دوست کی تلاش کے گرد گھوم رہی ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ ’جب حالات اچھے نہیں ہوتے تو دوست ہی ہوتے ہیں جو ساتھ دیتے ہیں اور تعاون کرتے ہیں لیکن جب سب کچھ ٹھیک ہو جاتا ہے تو بس یادیں رہ جاتی ہیں۔‘سید عتیق بتاتے ہیں کہ ’ایک وقت ایسا آتا ہے کہ انسان اپنے دوستوں کے ساتھ چند لمحات گزارنا زندگی کا اثاثہ سمجھتا ہے۔‘وہ بتاتے ہیں کہ ’سیالکوٹ میں ایک ہوٹل ہوا کرتا تھا جہاں یہ سب دوست مل کر گپ شپ کیا کرتے تھے۔ وہ ہوٹل اب بند ہو چکا ہے اور ان کے ایک قریبی دوست کورونا کی وجہ سے انتقال کر گئے ہیں۔ اس کے علاوہ ان کی اہلیہ کو دو سال قبل فالج ہوا۔ اب وہ رحمان کو ڈھونڈ کر اپنی زندگی کے وہ پل دوبارہ جینا چاہتے ہیں۔‘
سید عتیق نے کہا کہ وہ اب سوچ رہے ہیں کہ اس پلیٹ فارم کو بھی رحمان کی تلاش کے لیے استعمال کیا جائے (فوٹو: اے ایف پی)
سوشل میڈیا کے اس دور میں جہاں ایک مختصر پوسٹ اور تصویر لگانے سے کئی لوگ مل رہے ہیں، صفدر خان نے اپنے دوست کی تلاش کے لیے اخبار میں اشتہار شائع کروانے کا فیصلہ کیا۔
اس حوالے سے سید عتیق بتاتے ہیں کہ ’وہ پرانے زمانے کے آدمی ہیں اور اخبارات کے شوقین ہیں۔ وہ آج بھی اخبار بڑے شوق سے پڑھتے ہیں اسی لیے انہوں نے اخبار میں اشتہار دینے کا فیصلہ کیا۔‘انہوں نے مزید بتایا کہ ’وہ خود سوشل میڈیا پر متحرک ہیں اور اب سوچ رہے ہیں کہ اس پلیٹ فارم کو بھی رحمان کی تلاش کے لیے استعمال کیا جائے۔ میں سوشل میڈیا پر بھی اس حوالے سے پوسٹ کروں گا شاید کوئی سراغ مل جائے۔‘’بدقسمتی سے انکل اور رحمان کی ایک ساتھ کوئی تصویر نہیں ہے ورنہ اس سے مدد مل سکتی تھی۔ سوشل میڈیا یقیناً ایک بڑی طاقت ہے لیکن میرے انکل جیسے لوگوں کے لیے اخبارات ہی وہ ذریعہ ہیں جو ان کے دل کی بات کو دنیا تک پہنچاتے ہیں۔‘