اسلام آباد کی پرائیویٹ ہاؤسنگ سوسائٹی ڈی ایچ اے میں پانی میں بہہ جانے والے سابق کرنل اسحاق قاضی کی لاش تو مل گئی ہے لیکن تاحال ان کی بیٹی کا سراغ نہیں مل سکا۔ ریسکیو اہلکار اب بھی برساتی نالوں اور دریائے سواں میں تلاش جاری رکھے ہوئے ہیں۔اس بدقسمت خاندان کے ساتھ یہ واقعہ، اقوامِ متحدہ کی طرف سے ڈوبنے سے بچاؤ کا عالمی دن منانے سے محض تین روز پہلے پیش آیا ہے۔کیا بہت سے دیگر افراد کی طرح کرنل اسحاق قاضی اور ان کی بیٹی کی جان بچ سکتی تھی؟ سینیٹر شیری رحمان اسے حادثہ نہیں بلکہ انسانی غفلت قرار دیتی ہیں جس نے باپ بیٹی کی جان لے لی۔شیری رحمان کے مطابق ’ہم اسے قدرتی آفت نہیں کہہ سکتے۔ یہ انسانوں کی پیدا کردہ آفات ہیں جو ناقص منصوبہ بندی اور موسمیاتی اقدامات سے بچاؤ میں غفلت کا نتیجہ ہے۔‘ان کی اس بات کو یوں بھی تقویت ملتی ہے کہ اقوامِ متحدہ نے 25 جولائی 2021 کو جب ’پانی میں ڈوبنے سے بچاؤ‘ کا عالمی دن یا ’ورلڈ ڈراؤننگ پریوینشن ڈے‘ قرار دیا تھا تو اس کا مقصد لوگوں کو ڈوبنے کے المناک اثرات سے آگاہ کرنے کے ساتھ ساتھ پانی میں ڈوبنے سے ہونے والی لاکھوں اموات کی روک تھام پر توجہ دینا بھی تھا۔2024 میں شائع ہونے والی عالمی ادارہ صحت کی ایک رپورٹ کے مطابق پانی میں ڈوبنا میں ایک سنگین عالمی مسئلہ بن چکا ہے جو ہر سال دنیا بھر میں تین لاکھ سے زیادہ جانیں نگل لیتا ہے۔ پاکستان میں قدرتی آفات سے نمٹنے کے ادارے این ڈی ایم اے کے اعدادوشمار کے مطابق حالیہ مون سون کی بارشوں کے نتیجے میں پانی میں ڈوبنے سے اب تک 36 افراد جان سے جا چکے ہیں جبکہ 26 جون سے 24 جولائی تک مون سون بارشوں سے مجموعی طور پر 256 افراد ہلاک ہوئے ہیں۔منگل کی صبح جب 62 سالہ کرنل ریٹائرڈ اسحاق قاضی اپنی 25 سالہ بیٹی کے ہمراہ گھر سے نکلے تو موسلادھار بارش اور نالے کی طغیانی کے باعث گاڑی سمیت پانی میں بہہ گئے۔13 جولائی کو سیکٹر ای 16 ون میں 19 برس کا نوجوان ذوالقرنین فقیر ایک تالاب میں ڈوب کر جان سے گیا۔اسی طرح 9 جولائی کو 22 برس کے محمد محسن کورنگ نالے میں ڈوب گئے تھے اور ان کی لاش دریائے سواں سے ملی تھی۔
کرنل ریٹائرڈ اسحاق اور ان کی بیٹی گھر کے سامنے نالے میں بہہ گئے تھے۔ (فوٹو: سکرین گریب)
جون میں راولپنڈی میں سیلابی ریلے میں ایک گاڑی بہہ گئی تھی اور کئی گھنٹوں کی تلاش کے بعد خاتون ٹیچر انعم بشیر کی لاش ایک نالے اور ٹیکسی ڈرائیور حسین معاویہ کی لاش دریائے سواں سے برآمد ہوئی تھی۔
یہ واقعات اسلام آباد اور راولپنڈی جیسے علاقوں میں رپورٹ ہوئے ہیں جن کے بارے میں عمومی تاثر ہے کہ یہاں کا انفراسٹرکچر ملک کے دیگر حصوں کی نسبت قواعدوضوابط کے مطابق تعمیر کیا گیا ہے۔اسی سے ملتے جلتے واقعات گلگت بلتستان اور سوات سمیت ملک کے دیگر حصوں میں بھی رپورٹ ہوئے۔ پیر کو بابو سر ٹاپ میں 15 افراد ایک سیلابی ریلا آنے کے بعد لاپتہ ہوگئے تھے جبکہ جون میں سوات میں دریا کے کنارے 18 افراد کا ایک خاندان سیلابی ریلے کی نذر ہو گیا تھا۔مون سون دوران ان درجنوں واقعات نے اس مسئلے کے سنگین ہونے کو نمایاں کر دیا ہے اور یہ سوالات سامنے آ رہے ہیں کہ کیا ان حادثات کو روکنا ممکن ہے؟موسمیاتی تبدیلی کے ماہر آصف شجاع کے مطابق اقوام متحدہ کے ادارے انٹرنیشنل پینل آن کلائمیٹ چینج (آئی پی پی سی) نے 2024 میں اپنی سالانہ رپورٹ میں خبردار کیا تھا کہ جنوبی ایشیا میں مون سون معمول سے زیادہ شدت کے ساتھ آئے گا۔انہوں نے اربن فلڈنگ پر قابو پانے کے حوالے سے کہا کہ ’کسی بھی پروجیکٹ کے لیے ایک ماحولیاتی اثرات کا جائزہ (انوائرنمنٹل امپیکیٹ اسسٹمنٹ) تیار کیا جانا لازمی ہوتا ہے۔ پاکستان کا ماحولیاتی تحفظ کا قانون (انوائرنمنٹ پروٹیکشن ایکٹ) جسے اٹھارویں ترمیم کے بعد صوبوں نے اپنایا ہے، اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ منصوبے سے قبل یہ دیکھا جائے کہ آیا اس علاقے میں پانی کی گزرگاہ تو نہیں۔وہاں کتنی بارشیں ہوتی ہیں اور موسمیاتی تبدیلی کا ممکنہ کا اثر کیا ہوگا۔ انہی عوامل کی بنیاد پر کسی علاقے میں پروجیکٹ پر کام کی اجازت دی جاتی ہے۔میرے خیال میں اگر کوئی ادارہ یہ انوائرنمنٹل امپیکیٹ اسسٹمنٹ نہیں کرتا تو اس پروجیکٹ کو چلنے کی اجازت نہیں دی جانی چاہیے۔
پاکستان کے بیشتر علاقوں میں مون سون کا دوران سیلاب کا خطرہ ہوتا ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)
آصف شجاع کے مطابق پاکستان کے حوالے سے وارننگ جاری کی گئی تھی کہ اس مرتبہ موسمی شدت زیادہ ہوگی۔ لیکن بدقسمتی سے لوگوں کو آگاہی نہیں دی گئی اور ممکنہ طور پر سیلاب سے متاثر ہونے والے علاقوں کی نشاندہی بھی نہیں کی گئی کہ کن علاقوں میں سیاحوں کو جانا چاہیے یا نہیں۔ دنیا بھر میں ایسے علاقوں کی بروقت نشاندہی کی جاتی ہے اور انہیں ریڈ زون قرار دیا جاتا ہے۔
’وسائل کا مسئلہ ضرور موجود ہے لیکن اگر متعلقہ محکمے تجاویز تیار کرکے امدادی اداروں کو دیں تو فنڈز اکٹھا کرنا ممکن ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر قدرتی آفات آتی ہیں تو ہم ان سے کیسے نمٹیں گے۔ میں آپ کو جاپان کی مثال دیتا ہوں۔ جاپان میں اربن فلڈنگ کا بہت بڑا مسئلہ تھا، لیکن انہوں انڈر گراؤنڈ بڑے بڑے ذخیرے بنا کر بارش کے پانی کو جمع کیا اور آج وہاں اربن فلڈنگ کا مسئلہ ختم ہو چکا ہے۔ بات یہ ہے کہ سوچنے اور پھر عمل کرنے سے مسائل حل ہوتے ہیں اور دوسرا یہ کہ وسائل کا صحیح استعمال ہونا چاہیے۔‘ان واقعات کا ذکر سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے ماحولیاتی تبدیلی میں بھی ہوا۔ اس کمیٹی کی سربراہ سینیٹر شیری رحمان نے اسلام آباد کے سید پور ویلج اور ڈی ایچ اے کے واقعے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’ہم اب اسے قدرتی آفت نہیں کہہ سکتے، یہ انسانوں کی پیدا کردہ آفات ہیں جو ناقص منصوبہ بندی اور موسمیاتی اقدامات میں غفلت کا نتیجہ ہے۔‘انہوں نے کہا کہ ان علاقوں میں بغیر کسی منصوبہ بندی کے تعمیرات نے تباہی اور انسانی جانوں کے ضیاع میں کردار ادا کیا۔پاکستان کے قدرتی آفات سے نمٹنے کے ادارے این ڈی ایم اے کا کہنا ہے کہ وہ چھ ماہ قبل ہی موسمی خطرات کی پیش گوئی کر دیتا ہے۔این ڈی ایم اے کی ترجمان سارہ ملک نے اردو نیوز کے سوالات کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ این ڈی ایم اے حادثات سے بچاؤ کے لیے مقامی سطح پر آگاہی ورکشاپس کا انعقاد کرتا ہے اور مون سون سے قبل ریسکیو ٹیمیں اور امدادی سامان تیار کر لیا جاتا ہے۔ ’این ڈی ایم اے مون سون سے قبل ایڈوائزریز اور دوران مون سون الرٹس جاری کرتی ہے جو میڈیا، سوشل میڈیا، ایس ایم ایس الرٹ ، این ڈی ایم اے ڈیزاسٹر الرٹ ایپ اور صوبائی اداروں کے ذریعے عوام تک پہنچتی ہیں۔ ان کا مقصد عوام کو بروقت معلومات فراہم کرنا اور صوبائی اداروں کو کسی بھی ہنگامی صورت میں وسائل بروئے کار لاتے ہوئے موثر ردعمل سے متعلق ہدایات ہوتی ہیں۔‘
پانی کھڑا ہونے کی وجہ سے سڑکوں پر آمدورفت بھی متاثر ہو جاتی ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)
اسحاق قاضی اور ان کی بیٹی کے پانی کی نذ ہوجانے پر یہ سوال بھی اٹھائے گئے ہیں کہ جہاں سے ان کی گاڑی پانی کی زد میں آ کر بہہ گئی وہاں اگر کوئی رکاوٹ یا باڑ ہوتی تو شایدگاڑی بہنے سے بچ جاتی۔
برساتی نالوں پر حفاظتی باڑ کے حوالے سے این ڈی ایم اے کیا کرتی ہے؟این ڈی ایم کی ترجمان کے مطابق ’این ڈی ایم اے صوبائی اور ضلعی اداروں کو نالوں کی صفائی اور حفاظتی ڈھانچوں کے لیے اپنی ایڈوایزری میں ہدایات دیتی ہے۔ اس کے علاوہ انفراسٹرکچر کے حوالے سے خصوصی ہدایات بھی صوبوں کو براہ راست ارسال کی جاتی ہیں۔ این ڈی ایم اے نے ڈیزاسٹر مینجمنٹ فورم کے ذریعے بھی صوبائی اعلٰی حکام کو ترجیحات مہیا کرتی ہے۔‘سوال یہ ہے کہ اگر این ڈی ایم اے نے حفاظتی ڈھانچوں کے لیے اپنی ایڈوائزری میں پہلے ہی ہدایات دے رکھی تھیں تو ان پر عمل درآمد ہوا یا نہیں؟ اور سب سے اہم یہ کہ ان باپ بیٹی یا اس قسم کے حادثات کا شکار ہونے دیگر بہت سے افراد کی اموات کی ذمہ داری کس پر عائد ہوتی ہے۔