کیا حکومت 200 یونٹس استعمال والے بجلی صارفین کی سبسڈی ختم کر رہی ہے؟

image
پاکستان میں بجلی استعمال کرنے والے تقریباً تین کروڑ صارفین میں سے 58 فیصد پروٹیکٹڈ صارفین کی کیٹیگری میں آتے ہیں۔ ان پروٹیکٹڈ صارفین سے مراد وہ افراد ہیں جو ماہانہ 200 یونٹس تک بجلی استعمال کرتے ہیں۔

تاہم وفاقی حکومت نے پروٹیکٹڈ صارفین کی کیٹیگری کو ختم کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے اس پر باقاعدہ کام کا آغاز کر دیا ہے۔

ایسے صارفین کی تعداد ملک کے مجموعی بجلی صارفین کا تقریباً 58 فیصد ہے، جو اس وقت بجلی کی اصل قیمت کے نصف سے بھی کم ادائیگی کر کے بجلی حاصل کر رہے ہیں۔

موجودہ سبسڈی نظام کے تحت یہ صارفین فی یونٹ بجلی کی اصل لاگت کا صرف 30 سے 40 فیصد ادا کرتے ہیں، جو حکومت کے نزدیک قومی خزانے پر سالانہ اربوں روپے کا بوجھ ہے۔

اسی تناظر میں وفاقی حکومت نے اس نظام کو سنہ 2027 تک مرحلہ وار ختم کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے اس پر عمل درآمد کا آغاز کر دیا ہے، جس کے تحت سبسڈی کو نئے طریقہ کار کے تحت صرف مستحق افراد تک محدود کیا جائے گا۔

حکومت اس مقصد کے لیے بینظیر انکم سپورٹ پروگرام (بی آئی ایس پی) کا ڈیٹا استعمال کرے گی تاکہ صرف کم آمدنی والے گھرانوں کو ہی بجلی پر سبسڈی دی جائے۔ نئے ماڈل کے تحت بجلی کے بل پر سبسڈی دینے کی بجائے اہل صارفین کو براہ راست کیش سبسڈی دی جائے گی تاکہ مالی شفافیت کو برقرار رکھا جا سکے۔

وفاقی حکومت سمجھتی ہے کہ پروٹیکٹڈ صارفین کی کیٹیگری میں ایسے صارفین بھی شامل ہیں جو اس کے مستحق نہیں ہیں لیکن اس کے باوجود بجلی پر سبسڈی حاصل کر رہے ہیں۔

وزارتِ توانائی کے ترجمان ظفریاب نے بھی اس بات کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا ہے کہ حکومت مرحلہ وار یعنی 2027 تک پروٹیکٹڈ صارفین کی کیٹیگری کو ختم کرے گی اور سبسڈی کے لیے بی آئی ایس پی کا ڈیٹا استعمال کرتے ہوئے مستحقین کو براہ راست سبسڈی دی جائے گی۔

تاہم توانائی کے ماہرین ایک طرف اس فیصلے کو آئی ایم ایف کی شرائط اور مالی اعتبار سے درست قرار دے رہے ہیں، تو دوسری جانب اس پر عمل درآمد، شفافیت، اور بجلی مہنگی ہونے کے خدشات پر سوالات اور تحفظات کا اظہار بھی کر رہے ہیں۔

پاکستان میں توانائی امور پر گہری نظر رکھنے والے ماہر علی خضر کے خیال میں حکومت کا یہ فیصلہ بظاہر ایک درست قدم نظر آتا ہے، کیونکہ ایک جانب یہ آئی ایم ایف کی شرائط میں شامل تھا، اور دوسری جانب اگر حکومت نے سبسڈی دینی ہے، خواہ وہ گیس صارفین کو دی جائے یا بجلی صارفین کو تو وہ بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے ذریعے دی جائے، نہ کہ موجودہ طریقہ کار کے تحت۔

علی خضر نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ موجودہ بجلی نرخوں کے نظام میں بہت سے لوگ کسی نہ کسی طرح اپنے یونٹس کو ایک خاص بریکٹ کے اندر رکھنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں، جس کے نتیجے میں وہ غیرمستحق ہونے کے باوجود سبسڈی حاصل کرتے رہتے ہیں۔ لیکن دوسری جانب اگر بی آئی ایس پی جیسے پلیٹ فارم کے تحت سبسڈی کی تقسیم ہو گی تو اس بات کی زیادہ گارنٹی ہو گی کہ سبسڈی واقعی مستحق افراد تک پہنچ رہی ہے۔

حکومت بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کا ڈیٹا استعمال کرے گی تاکہ صرف کم آمدنی والے گھرانوں کو ہی بجلی پر سبسڈی دی جائے۔ (فائل فوٹو: ایکس)

اس سوال کے جواب میں کہ آیا صرف 200 یونٹس تک بجلی استعمال کرنے والے صارفین کے لیے ہی پروٹیکٹڈ کیٹیگری ختم کی جائے گی، یا اس سے زائد یونٹس پر بھی لاگو مختلف ریٹس ختم کیے جائیں گے؟ ان کا کہنا تھا کہ حکومت کے اب تک کے منصوبے کو دیکھا جائے تو ایسا لگتا ہے کہ تمام کیٹیگریز اور ریٹس پر نظرثانی ہوگی، لیکن حتمی صورتحال تب ہی واضح ہو سکے گی جب یہ فیصلہ مکمل طور پر نافذ العمل ہو جائے گا۔

توانائی کے شعبے میں کام کرنے والے ماہر انیل ممتاز سمجھتے ہیں کہ حکومت کی اس پالیسی میں کئی ابہام موجود ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ کچھ ’عرصے سے یہ مہم چلائی جا رہی ہے کہ 200 اور 300 یونٹس کے درمیان جو فرق ہے، اسے ختم کیا جائے کیونکہ جیسے ہی کوئی صارف 200 یونٹس سے ایک یونٹ بھی زیادہ استعمال کرتا ہے، اس کا بل کئی گنا بڑھ جاتا ہے۔‘

’اس حوالے سے کیمپین چلتی رہی، مگر اب حکومت یہ کہہ رہی ہے کہ اس فرق کو ختم کرنے کی بجائے وہ پروٹیکٹڈ صارفین کی کیٹیگری کو ہی مکمل طور پر ختم کرنے جا رہی ہے۔‘

اُنہوں نے بتایا کہ ’حکومت کا یہ نیا اقدام غیرواضح ہے، اور اس کے نتیجے میں جو واقعی مستحق طبقہ ہے، ان کے لیے بجلی کے یونٹس مزید مہنگے اور ناقابلِ برداشت ہو جائیں گے۔‘

علی خضر کے خیال میں حکومت کا یہ فیصلہ بظاہر ایک درست قدم نظر آتا ہے، کیونکہ یہ آئی ایم ایف کی شرائط میں شامل تھا۔ (فائل فوٹو: روئٹرز)

انیل ممتاز نے مزید کہا کہ ’حکومت کو واضح کرنا چاہیے کہ وہ بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے تحت کس طریقہ کار سے سبسڈی دے گی۔ بظاہر کہنے کی حد تک یہ نظام شاید درست لگتا ہو، مگر اس پر عمل درآمد حکومت کے لیے ایک بہت بڑا چیلنج ثابت ہو گا۔‘

’پاکستان میں بجلی کی پیداواری لاگت زیادہ سے زیادہ 11 سے ساڑھے 11 روپے فی یونٹ ہے، لیکن اس پر مختلف ٹیکسز اور سرچارجز لگا کر صارفین کو بجلی انتہائی مہنگے نرخوں پر فراہم کی جا رہی ہے۔ اگر نچلے طبقے کو بھی اسی مہنگی بجلی پر منتقل کر دیا گیا، تو پھر عوام کے لیے بجلی استعمال کرنا انتہائی مشکل ہو جائے گا۔‘

 


News Source   News Source Text

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Get Alerts Follow