پاکستان لا کر قتل کی جانے والی بہنوں کے والد اور بھائیوں کے خلاف سپین میں مقدمہ

image
سنہ 2022 میں سپین سے پاکستان لا کر قتل کی جانے والی دو بہنوں کے والد اور دو بھائیوں کے خلاف سپین کی عدالت نے زبردستی شادی، گھریلو تشدد، بدسلوکی اور جبر پر مبنی رویے کے الزامات کے تحت مقدمہ چلانے کا فیصلہ کیا ہے جبکہ والد کے خلاف قتل کی منصوبہ بندی کی الگ سے تحقیقات کی جا رہی ہیں۔

تفصیلات کے مطابق سپین کی عدالت نے فیصلہ کیا ہے کہ دونوں لڑکیوں کے والد غلام عباس اور ان کے بیٹے شہریار اور اسفندیار کو عدالتی کارروائی کا سامنا کرنا پڑے گا، مگر صرف ان جرائم پر جو سپین میں سرزد ہوئے۔

عدالت کے مطابق قتل کا مقدمہ سپین میں زیرِسماعت نہیں آ سکتا کیونکہ یہ جرم پاکستان میں ہوا اور وہاں کی عدالت ان تینوں کو پہلے ہی بری کر چکی ہے، کیونکہ لڑکیوں کی والدہ جو پاکستان میں ہونے والے مقدمہ کی مدعی تھیں، نے ملزمان کو ’معافی‘ دے دی تھی۔ اب سپین میں ان پر جو الزامات عائد کیے گئے ہیں وہ زبردستی شادی، گھریلو تشدد، اور جبر پر مبنی ہیں، اور ان کی سماعت کاتالونیا کی اعلٰی عدالت کرے گی۔

مئی 2022 میں بیٹیوں کے قتل کے کافی عرصے بعد فروری 2023 میں ان کے والد غلام عباس کو سپین میں گرفتار کیا گیا۔ عدالت میں پیشی کے بعد انہیں رہا کر دیا گیا، تاہم ان کا پاسپورٹ ضبط کر لیا گیا اور انہیں ہر ہفتے عدالت میں رپورٹ کرنے کی ہدایت دی گئی۔

عدالتی تحقیقات میں یہ بات بھی سامنے آئی کہ غلام عباس نے ہی دونوں بیٹیوں کو پاکستان لے جانے کا منصوبہ تیار کیا، اور ان کے قتل کے منصوبہ ساز وہی ہیں۔ اگرچہ وہ خود اس وقت پاکستان میں موجود نہ تھے۔ اسی سلسلے میں سپین کی اعلٰی عدالت غلام عباس کے کردار پر علیحدہ تحقیقات کر رہی ہے تاکہ یہ دیکھا جا سکے کہ کیا وہ قتل کے براہِ راست ماسٹر مائنڈ تھے یا نہیں۔

عدالت نے اپنے فیصلے میں واضح کیا ہے کہ ان لڑکیوں کو ان کے والد اور بھائیوں نے مکمل طور پر قابو میں رکھا، ان کو فیصلوں کا اختیار نہیں دیا، اور ان پر مسلسل جسمانی، ذہنی اور سماجی دباؤ ڈالا گیا۔ انہیں خاندان کے منتخب کردہ افراد سے شادی کرنے پر مجبور کیا گیا اور انکار کی صورت میں انہیں سزا اور انجام کا خوف دلایا جاتا رہا۔

خیال رہے کہ گجرات کے گاوں نوتھیہہ سے تعلق رکھنے والے غلام عباس جو کافی عرصہ سے سپین میں مقیم تھے، نے سنہ 2017 میں اپنے خاندان کے دیگر بچوں کے ساتھ اپنی بیٹیوں انیسہ اور عروج کو بھی بلایا۔ اس دوران انھیں اپنے والد اور بھائی کی جانب سے غیرمعمولی سختیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ انہیں گھر سے باہر جانے کی اجازت نہ تھی۔

سنہ 2019 میں غلام عباس اپنی بیٹیوں کو پاکستان لے کر آئے اور یہاں پہنچ کر ان کی شادیاں ان کے کزنز سے طے کر دی گئیں۔ اس کا مقصد محض ان مردوں کو سپین کے ویزے کی سہولت دلوانا تھا۔

گجرات پولیس نے اس واقعے کے بعد سات افراد کو گرفتار کیا، جن میں لڑکیوں کے دو بھائی اور چچا بھی شامل تھے۔ (فوٹو: گجرات پولیس)

اس حوالے سے لڑکیوں کے والد نے پولیس کا بتایا کہ کچھ عرصہ قبل بیٹیوں کا نکاح خاندان کی رضامندی سے ہوا، اس وقت انہوں نے اس پر کوئی اعتراض نہیں کیا تھا۔

’بعدازاں ان کے شوہروں کو سپین بلانے کے لیے ضروری کاغذی کارروائی شروع کی اور اس سلسلے میں اپنی دونوں بیٹیوں، والدہ اور تین بیٹوں کو پاکستان بھیجا۔‘

انہوں نے بتایا کہ کچھ عرصہ قبل بیٹیوں نے اپنے شوہروں کو سپین بلانے کے لیے پروسیس شروع کرنے سے انکار کر دیا تھا کیونکہ وہ سمجھتی تھیں کہ نکاح کے وقت وہ یہ فیصلہ کرنے سے قاصر رہیں کہ ان کے لیے یہ رشتے مناسب بھی ہوں گے یا نہیں۔

’اس وقت انہیں اندازہ نہیں تھا کہ انہوں نے اپنی زندگی کے ساتھ کیا کیا ہے۔ انہیں پاکستان اس لیے بھیجا کہ ہو سکتا ہے کہ صورت حال تبدیل ہو جائے لیکن ان سے کوئی بات چیت نہ ہوئی۔‘

تاہم پولیس کا کہنا ہے کہ حقائق اس کے برعکس ہیں کیونکہ لڑکیوں کو دھوکہ دہی سے پاکستان بھجوایا گیا اور ان کے سامنے یہ بہانہ بنایا گیا کہ کچھ ہی روز قبل سپین سے پاکستان پہنچنے والی ان کی والدہ بیمار ہو گئی ہیں۔

گجرات پولیس کی تحقیقات کے مطابق جب دونوں بہنیں 18 مئی 2022 کو پاکستان کے ضلع گجرات کے گاؤں نوتھیہہ پہنچیں، تو انہیں ایک کمرے میں قید کر دیا گیا اور کسی سے رابطہ کرنے کی اجازت نہ دی گئی۔ ان کی والدہ کو بھی باقی خاندان سے علیحدہ رکھا گیا تاکہ وہ بچیوں کو خبردار نہ کر سکیں۔ صرف دو دن بعد 20 مئی کو دونوں بہنوں کو پہلے گلا گھونٹ کر اور بعد میں گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا۔ یہ قتل مبینہ طور پر ’خاندانی غیرت‘ کی بنیاد پر کیے گئے۔

گجرات پولیس نے اس واقعے کے بعد سات افراد کو گرفتار کیا، جن میں لڑکیوں کے دو بھائی اور چچا بھی شامل تھے۔ ان میں سے کچھ نے اعتراف جرم کیا، مگر بعدازاں عدالت میں ان افراد کو رہا کر دیا گیا کیونکہ متاثرہ خاندان نے ’معافی‘ دے دی۔

مئی 2022 میں بیٹیوں کے قتل کے کافی عرصے بعد فروری 2023 میں ان کے والد غلام عباس کو سپین میں گرفتار کیا گیا۔ (فائل فوٹو: روئٹرز)

پاکستان کے قانونی نظام میں سنہ 2016 کی اصلاحات کے باوجود عدالت نے اس معافی کو تسلیم کرتے ہوئے بریت دے دی، جس پر انسانی حقوق کے حلقوں اور سپین کے میڈیا میں شدید تنقید کی گئی۔ اس فیصلے کے بعد سپین میں مقدمہ درج کیا گیا تاکہ لڑکیوں کے ساتھ جو زیادتیاں سپین میں ہوئیں، ان پر قانونی کارروائی کی جا سکے۔

سپین میں موجود انسانی حقوق کے لیے سرگرم افراد کا کہنا ہے کہ سنہ 2015 میں سپین میں قانون سازی کی گئی تھی جس کے تحت زبردستی شادی ایک جرم ہے جس کی سزا تین سال تک قید ہو سکتی ہے۔ عدالت اس مقدمے میں یہ طے کر رہی ہیں کہ غلام عباس اور ان کے بیٹوں کو زبردستی شادی، تشدد اور جبر جیسے الزامات پر کیا سزا دی جا سکتی ہے۔

ان کے مطابق سپین کی عدالت سمجھتی ہے کہ قتل ہو جانے والی لڑکیوں کی جانیں واپس نہیں آ سکتیں، ان کے لیے جزوی انصاف اب بھی ممکن ہے۔


News Source   News Source Text

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Get Alerts Follow