دو برسوں پر محیط تحقیقات کے بعد امریکی کوسٹ گارڈ نے بحر اوقیانوس میں ٹائٹینک جہاز کا ملبہ دیکھنے کے لیے جانے والی ٹائٹن آبدوز کے پھٹنے سے متعلق 335 صفحات پر مشتمل مفصل تحقیقاتی رپورٹ جاری کر دی ہے۔

دو برسوں پر محیط تحقیقات کے بعد امریکی کوسٹ گارڈ نے بحر اوقیانوس میں ٹائٹینک جہاز کا ملبہ دیکھنے کے لیے جانے والی ٹائٹن آبدوز کے پھٹنے سے متعلق 335 صفحات پر مشتمل مفصل تحقیقاتی رپورٹ جاری کر دی ہے۔
اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ٹائٹن آبدوز کے سمندر کی گہرائی میں اچانک پھٹنے کی وجہ ’آبدوز کے ڈھانچے کی تباہی‘ تھی جس کے باعث اس پر سوار تمام پانچ افراد تقریباً 4,930 پاؤنڈ فی مربع انچ دباؤ کے باعث ’فوری طور پر موت کے منھ‘ میں چلے گئے۔
رپورٹ کے مطابق ٹائٹن آبدوز کی ملکتی کمپنی ’اوشن گیٹ‘ کے سی ای او سٹاکٹن رش، جو خود بھی اس حادثے میں ہلاک ہوئے، آبدوز کے ضروری معائنوں، ڈیٹا کی جانچ پڑتال اور حفاظتی دیکھ بھال کے طریقوں کو نظرانداز کرتے رہے اور ان کی کمپنی نے اس آبدوز میں گذشتہ مہینوں کے دوران سامنے آنے والے مسائل کو درست کرنے کے لیے کچھ نہیں کیا۔
تفتیش کاروں نے ٹائٹن آبدوز کے ملبے کا تکنیکی پہلوؤں سے جائزہ لیا اور وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ آبدوز کا کاربن فائبر سے بنایا گیا ڈیزائن ’ناقص‘ تھا۔ رپورٹ کے مطابق اوشن گیٹ نامی کمپنی میں ملازمین کی زبان بندی کے لیے دھمکی کے کلچر کا استعمال کیا گیا جبکہ حفاظتی ضوابط انتہائی ناقص تھے۔
18 جون 2023 کی صبح ٹائٹن آبدوز نے بحر اوقیانوس کی 3800 میٹر گہرائی میں موجود ٹائٹینک کے ملبے تک جانے کے لیے اپنے سفر کا آغاز کیا تھا۔
سفر کے آغاز کے 90 منٹ بعد اور ٹائٹینک کے ملبے سے محض 500 میٹر کی دوری پر آبدوز حادثے کا شکار ہوئی اور پھٹ گئی جس کے نتیجے میں اس پر سوار تمام پانچ افراد بشمول پاکستانی نژاد برطانوی تاجر شہزادہ داؤد، اُن کا 19 سالہ بیٹا سلیمان داؤد، اوشن گیٹ کمپنی کے سی ای او سٹاکٹن رش،فرانسیسی نژاد ماہر پال ہنری اور برطانوی مہم جو ہمیش ہارڈنگ ہلاک ہو گئے تھے۔
یہ تمام افراد عین اُسی وقت مارے گئے تھے جب ٹائٹن اچانک پھٹی، یہ دھماکہ اتنا تیز اور اتنی عجلت میں ہوا کہ ٹائٹن پر سوار افراد کو کسی کو کچھ بتانے تک کا موقع تک نہ مل سکا۔
اس حادثے کے بعد طیاروں، بحری جہازوں اور پانی کے اندر ریسکیو آپریشن کرنے والے ربورٹس کی مدد سے ایک بڑے سرچ اینڈ ریسکیو آپریشن کا آغاز کیا تھا اور 22 جون کو سمندر کی گہرائی سے ٹائٹن کا ملبہ مل گیا۔ اس ضمن میں سامنے آنے والی ابتدائی تصاویر میں آبدوز کے ٹکڑے سمندر کے فرش پر بکھرے ہوئے دیکھے جا سکتے تھے۔
امریکی کوسٹ گارڈ نے ٹائٹن کی تباہی کی وجوہات جاننے کے لیے دو سال پر محیط طویل اور پیچیدہ تحقیقات کے بعد یہ رپورٹ جاری کی۔
ان تحقیقات کی غرض سے ستمبر 2024 میں امریکی کوسٹ گارڈز نے دو ہفتے طویل عوامی سماعت کا انعقاد بھی کیا جس میں بہت سے گواہان بشمول اوشن گیٹ کے سابق ملازمین اور ماضی میں ٹائٹن آبدوز پر سفر کرنے افراد اور گہرے سمندر کے ماہرین نے اپنی گواہیاں ریکارڈ کروائیں۔
رپورٹ میں کیا بتایا گیا؟
سمندر کے فرش پر موجود ٹائٹن آبدوز کا ملبہتحقیقات کے دوران سمندر سے برآمد ہونے والے ٹائٹن آبدوز کے ملبے کا بھی بغور جائزہ لیا گیا۔ تحقیقات کا مقصد یہ ثابت کرنا تھا کہ ٹائٹن آبدوز کے معاملے میں کہاں کیا غلط ہوا جس کے باعث یہ آبدوز تباہ ہوئی۔ تحقیقات میں یہ جائزہ بھی شامل تھا کہ آیا اس بات کا کوئی ثبوت موجود تھا کہ ’مس کنڈکٹ، نااہلی، غفلت، غیر ہنر مندی یا قانون کی جان بوجھ کر خلاف ورزی‘ جیسا کوئی عمل تو اس حادثے کی وجہ نہیں بنا۔
یہ جاننے کی کوشش بھی کی گئی کہ آیا اس بات کا کوئی ثبوت موجود ہے کہ اس معاملے میں کسی مجرمانہ فعل کا ارتکاب ہوا یا نہیں اور مستقبل میں اس نوعیت کے واقعات کی روک تھام کیسے ممکن ہو سکتی ہے اور یہ بھی کہ اس ضمن میں کیا نئے قوانین یا سفارشات کی ضرورت تو نہیں۔
رپورٹ میں آبدوز کے پھٹنے کی بنیادی وجوہات ’اس نوعیت کی آبدوزوں کی حفاظت، جانچ پڑتال اور دیکھ بھال کے لیے مقرر کردہ انجینئرنگ پروٹوکول پر عملدرآمد میں ناکامی‘ کو قرار دیا گیا۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ٹائٹن آبدوز کی ملکیتی کمپنی ’اوشن گیٹ‘ نے حکام کی جانب سے ضروری جانچ پڑتال سے بچنے کے لیے ’دھمکی دینے کے حربے‘ استعمال کیے۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ یہ واقعہ پیش آنے سے پہلے کے برسوں میں، اوشن گیٹ نے ’دھمکی دینے کے ہتھکنڈوں، سائنٹیفک آپریشنز کے لیے الاؤنسز اور ریگولیٹری جانچ پڑتال سے بچنے کے لیے کمپنی کی پہلے سے موجود اچھی ساکھ کا فائدہ اٹھایا۔‘
رپورٹ کے مطابق ’ریگولیٹری الجھنوں اور نگرانی کے چیلنجز کی آڑ میں، اوشن گیٹ بالآخر ٹائٹن آبدوز کو سمندر کے پروٹوکول اور قواعد کے دائرے سے دور رہتے ہوئے گہرے سمندر میں چلانے کے قابل ہوئی۔‘
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس حادثے سے قبل اوشن گیٹ کے سی ای او سٹاکٹن رش نے نگرانی کی کمی کے باعث اہم ڈیٹا کو نظر انداز کیا۔
’2023 کے ٹائٹن آپریشنز کے دوران (اوشن گیٹ کے)عملے پر فریق ثالث کی نگرانی اور کمپنی کے پاس تجربہ کار ملازمین کی کمی نے اوشن گیٹ کے چیف ایگزیکٹیو آفیسر کو اہم معائنوں، ڈیٹا کے تجزیوں اور دیکھ بھال اور بچاؤ کے طریقہ کار کو مکمل طور پر نظر انداز کرنے کی اجازت دی، جس کا نتیجہ ایک تباہ کن واقعے کی صورت میں نکلا۔‘
وہ آٹھ بنیادی عوامل جو ٹائٹن آبدوز کے پھنٹے کا باعث بنے
رپورٹ میں ان عوامل کا تذکرہ ہے جو ٹائٹن آبدوز کے پھٹنے کا باعث بنے:
- ٹائٹن آبدوز کا ڈیزائن اور ٹیسٹنگ کے ضوابط ’فطری طور پر خطرناک ماحول‘ کے لیے درکار ’انجینیئرنگ کے بنیادی اصولوں‘ کو پورا نہیں کرتے تھے
- اوشن گیٹ کمپنی نے اس آبدوز کی متوقع زندگی (قابل استعمال رہنے کی میعاد) کو سمجھنے کے لیے کوئی تجزیہ نہیں کروایا
- اوشن گیٹ کمپنی اس آبدوز کی ریئل ٹائم نگرانی کے نظام پر بہت زیادہ انحصار کر رہی تھی اور اس دوران وہ دستیاب ڈیٹا کا معنی خیز تجزیہ کرنے میں ناکام رہی
- آبدوز کو پیش آنے والے متعدد واقعات کے نتیجے میں اسے پہنچنے والے نقصان کا صحیح اندازہ لگائے بغیر اوشن گیٹ نے مسلسل اس آبدوز کا استعمال جاری رکھا
- ٹائٹن آبدوز کی کاربن فائبر سے تیاری اس میں خامیوں کا باعث بنی اور کاربن فائبر نے آبدوز کی سٹرکچرل سالمیت (ڈھانچے) کو کمزور کیا
- اوشن گیٹ ماضی میں آبدوز کو پیش آنے والے حادثات کے بعد تفصیلی تحقیقات کرنے میں ناکام رہا
- کمپنی میں ٹاکسک ورک پلیس انوائرمنٹ (کام کی جگہ پر نامناسب ماحول) تھا اور کمپنی نے عملے کے ارکان کو حفاظتی خدشات کا اظہار کرنے سے روکنے کے لیے (زبان بندی کے لیے) کمپنی سے نکالنے جیسے ہتھکنڈوں کا استعمال کیا
ٹائٹن کے پھٹنے کی آٹھ بنیادی وجوہات کے علاوہ رپورٹ میں چار دیگر عوامل کا تذکرہ بھی ہے:
- اوشن گیٹ کے حفاظتی کلچر اور آپریشنل طریقے ’نقائص سے بھرپور‘ تھے۔ اُن کے تحریری حفاظتی پروٹوکولز (قواعد و ضوابط) اور وہ پروٹوکولز جن پر وہ حقیقت میں عمل پیرا تھے، میں ’واضح تفاوت‘ تھا
- اوشن گیٹ کے سی ای نے ٹائٹن آبدوز کو غلط انداز میں ایک ایسی آبدوز کے طور پر پیش کیا جو کبھی تباہ نہیں ہو سکتی اور اس دعوے نے مسافروں کو ’سفر کے انتہائی محفوظ ہونے کے غلط احساس‘ میں مبتلا کیا
- کمپنی کی سینیئر قیادت نے اس کلچر کو فروغ دیا کہ جس کے تحت مالیاتی کمیوں اور کسٹمرز کی توقعات کو اپنی ذمہ داریوں پر ترجیح دی
- کمپنی میں آبدوزوں کی نگرانی کے لیے جامع ضوابط کا فقدان تھا
رپورٹ کے اختتام پر کہا گیا کہ اوشن گیٹ کے سی ای او اور ٹائٹن آبدوز کے پائلٹ کے طور پر اپنے دہرے کردار میں سٹاکٹن رش نے ’غفلت کا مظاہرہ کیا جو دیگر چار افراد کی موت کا بھی باعث بنا۔‘
اس میں مزید کہا گیا ہے کہ تحقیقات نے ’ممکنہ جرم کے شواہد کی نشاندہی کی ہے‘ اور سٹاکٹن رش اس مجرمانہ ذمہ داری کے تابع ہو سکتے ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ’اگر وہ (رش) بچ جاتے تو امریکی کوسٹ گارڈ انھیں امریکی محکمہ انصاف کے حوالے کرنے کی سفارش کرتا تاکہ ان کے خلاف ایک علیحدہ مجرمانہ تفتیش کی جائے۔‘
ٹائٹن آبدوز پر پاکستانی نژاد باپ، بیٹے کے ساتھ اور کون سوار تھا؟
48 سالہ برطانوی تاجر شہزادہ داؤد کا تعلق پاکستان کے امیر ترین خاندانوں میں سے ایک تھا۔ وہ اپنے 19 سالہ بیٹے سلیمان کے ساتھ ٹائٹینک کا ملبہ دیکھنے کی غرض سے اس آبدوز پر سوار ہوئے تھے۔
19 سالہ سلمان داؤد گلاسگو کی یونیورسٹی آف سٹراتھ کلائیڈ میں زیر تعلیم تھے، جہاں انھوں نے یونیورسٹی کے بزنس سکول میں اپنے پہلے سال کی تعلیم مکمل کی تھی۔
شہزادہ داؤد اپنی اہلیہ کرسٹین اور دو بیٹوں کے ہمراہ جنوب مغربی لندن میں رہائش پذیر تھے۔ یہ حادثہ پیش آنے سے قبل داؤد خاندان کینیڈا میں ایک ماہ گزار کر آیا تھا۔
اس آبدوز پر 77 سالہ پال ہنری نارجیولیٹ بھی سوار تھے، جو فرانسیسی بحریہ کے سابق غوطہ خور تھے۔ انھیں ان کے عرفی نام ’مسٹر ٹائٹینک‘ سے جانا جاتا تھا کیونکہ انھوں نے کسی بھی دوسرے مہم کے مقابلے میں زیر سمندر ٹائٹینک کے ملبے کو دیکھنے اور اس کا تجزیہ کرنے میں بہت زیادہ وقت گزارا تھا۔ وہ سنہ 1987 میں پہلی مرتبہ ٹائٹینک جہاز کا ملبہ دیکھنے کے لیے جانے والی مہم کا بھی حصہ تھے۔
یاد رہے کہ ٹائٹینک کا ملبہ سنہ 1985 میں دریافت ہوا تھا۔
ان کے علاوہ اس آبدوز پر اوشن گیٹ کمپنی کے 61 سالہ سی ای او سٹاکٹن رش بھی سوار تھے۔ اوشن گیٹ کمپنی ہی اس ٹائٹن آبدوز کی مالک تھی۔
سٹاکٹن رش ایک تجربہ کار انجینیئر تھے جنھوں نے ماضی میں تجرباتی ہوائی جہاز ڈیزائن کیا تھا اور وہ دوسرے چھوٹے آبدوزوں پر کام کر چکے تھے۔
58 سالہ برطانوی مہم جو ہمیش ہارڈنگ بھی اسی آبدوز کے مسافر تھے۔ وہ دبئی میں قائم ایک نجی جیٹ ڈیلرشپ کمپنی، ایکشن ایوی ایشن، کے مالک تھے اور اس سے قبل وہ کئی بڑی مہمات کا حصہ رہ چکے تھے۔ انھوں نے ماضی میں متعدد مرتبہ قطب جنوبی کا دورہ کیاتھا اور سنہ 2022 میں وہ خلا میں بھی گئے تھے۔
شہزادہ داؤد کے اہلخانہ کا پیغام
ٹائٹن کے مسافروں شہزادہ داؤداور ان کے بیٹے سلمان داؤد کے اہلخانہ نے اس رپورٹ کے اجرا کے بعد ایک بیان جاری کیا ہے جس میں کوسٹ گارڈ کی رپورٹ کی روشنی میں سخت ضوابط پر عملدرآمد کو یقینی بنانے اور کڑی نگرانی کو یقینی بنانے مطالبہ کیا گیا ہے۔
داؤد خاندان کی جانب سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ رپورٹ اس بات کی تصدیق کرتی ہے کہ ’غیر منظم طریقہ کار، احتساب کی کمی اور بنیادی طور پر (ٹائٹن آبدوز کا) ناقص ڈیزائن‘ اس پر سوار افراد کی موت کا باعث بنا۔
اس میں مزید کہا گیا ہے کہ ’اس ضمن میں کوئی بھی رپورٹ دل دہلا دینے والے نتائج کو تبدیل نہیں کر سکتی اور نہ ہی اُس خلا کو پُر کر سکتی ہے جو اپنے دو پیاروں کے کھو جانے سے پیدا ہوا۔‘
’ہم سمجھتے ہیں کہ آبدوز کی ایسی تباہ کن ناکامی کے بعد احتساب اور ریگولیٹری چینج کو یقینی بنایا جانا چاہیے۔ ہمیں امید ہے کہ یہ حادثہ سب میرین انڈسٹری میں بامعنی اصلاحات، سخت حفاظتی معیارات، اور موثر نگرانی لانے کے لیے ایک اہم موڑ ثابت ہو گا۔‘