انڈیا کو 50 فیصد تجارتی محصولات کے بعد ٹرمپ کی نئی دھمکی کا سامنا: ’ابھی اور پابندیاں لگیں گی‘

انڈیا اور امریکہ کی شراکت داری کچھ عرصہ قبل تک عروج پر تھی لیکن ٹرمپ کی دوسری مدت کے سات ماہ بعد، یہ تعلق محاذ آرائی میں بدل چکا ہے۔ تاہم ٹرمپ کی بیان بازی کے پیچھے حقیقت کیا ہے اور وہ انڈیا اور مودی سے کیا چاہتے ہیں؟
ٹرمپ
Bloomberg via Getty Images
صدر ٹرمپ کا کہنا ہے کہ انڈیا پر عائد کیا جانے والا ٹیرف صرف آغاز ہے

اس منظر کو زیادہ عرصہ نہیں ہوا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور انڈیا کے وزیر اعظم نریندر مودی نے ہیوسٹن میں ایک ساتھ کھڑے ہو کر ’ہاؤڈی مودی‘ ریلی میں ہزاروں لوگوں سے خطاب کیا۔ اس دوران دونوں نے مصافحہ کیا، ایک دوسرے کو گلے لگایا اور مشترکہ اقدار اور عالمی قیادت پر زوردار تقاریر کیں۔

یہ وہ لمحہ تھا جسے انڈیا اور امریکہ کی شراکت داری کا عروج سمجھا گیا۔ لیکن اب یہ ایک بھولا ہوا باب لگتا ہے۔ ٹرمپ کی دوسری مدت کے سات ماہ بعد، یہ تعلق محاذ آرائی میں بدل چکا ہے۔

دونوں اتحادی ممالک اب تجارتی جنگ کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ گزشتہ ہفتے ٹرمپ نے انڈیا سے درآمد کی جانے والی اشیا پر 25 فیصد ٹیرف عائد کیا تھا۔ اس اقدام کو کافی سخت تصور کیا گیا۔ لیکن 4 اگست کو ٹرمپ نے اور ’بہت زیادہ‘ ٹیرف لگانے کی دھمکی دے دی۔

ابصدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک ایگزیکٹیو حکم نامہ جاری کرتے ہوئے انڈیا پر روس سے تیل خریدنے پر اضافی 25 فیصد ٹیرف عائد کر دیا ہے۔ اس نئے حکم نامے کے بعدانڈین مصنوعات پر مجموعی طور ٹیرف 50 فیصد ہو گیا ہے۔

انڈیا کی تمام مصنوعات پر اضافی ٹیرف کا اطلاق صدارتی آڈر کے اجرا کے 21 دن بعد ہو گا۔

انڈیا نے امریکہ کے اس فیصلے کو ’غیر منصفانہ اور غیر معقول‘ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ وہ اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے تمام اقدامات اٹھائے گا۔

انڈین وزارتِ خارجہکے ترجمان رندھیر جیسوال کے مطابق ’ہم اس بارے میں پہلے ہی وضاحت دے چکے ہیں کہ ہماری درآمدات کا انحصار مارکیٹ کی بنیادوں پر ہوتا ہے اور یہ درآمدات انڈیا کے 1.4 ارب لوگوں کی توانائی کی ضروریات کو یقینی بنانے کے لیے کی جاتی ہیں۔‘

انھوں نے مزید کہا کہ ’ہم اس بات پر زور دیتے ہیں کہ یہ اقدامات غیر منصفانہ اور غیر معقول ہیں۔ انڈیا اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے تمام اقدامات اٹھائے گا۔‘

بدھ کے روز وائٹ ہاؤس کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ یوکرین میں روسی کارروائیاں امریکی سلامتی اور خارجہ پالیسی کے لیے مسلسل خطرے کا باعث بن رہی ہیں اور اس قومی ایمرجنسی سے نمٹنے کے لیےسخت اقدامات لینے کی ضرورت ہے۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ انڈیا کی جانب سے روسی تیل کی خریداری کے نتیجے میں یوکرین میں روسی کارروائیوں کو روکنے کی امریکی کوششوں کو نقصان پہنچ رہا ہے۔

وائٹ ہاؤس کا مزید کہنا تھا وہ اس بات کا تعین کر رہے ہیں کہ اور کون سے ممالک ہیں جو روس سے تیل خریدتے ہیں اور ان کے خلاف صدر کو مزید اقدامات کی سفارش بھی کریں گے۔

تیل اور گیس روس کی سب سے بڑی برآمدادی مصنوعات ہیں اور بڑے خریداروں میں چین، انڈیا اور ترکی شامل ہیں۔

عالمی اجناس ڈیٹا پلیٹ فارم کپلر کے مطابق، انڈیا سب سے زیادہ تیل روس سے درآمد کرتا ہے کہ انڈیا کو مجموعی تیل کی سپلائی کا 35 فیصد ہے۔

خبر رساں ادارے روئٹرز کے ساتھ شیئر کیے گئے تجارتی اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ رواں سال کے ابتدائی چھ ماہ میں انڈیا نے روس سے تقریباً 1.75 ملین بیرل یومیہ تیل خریدا۔

بعد ازاں وائٹ ہاؤس میں ایک تقریب کے دوران صدر ٹرمپ نے اس موضوع پر بی بی سی کے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ انڈیا پر عائد کی جانے والی محصولات صرف آغاز ہے۔ ’ابھی آپ کو بہت کچھ دیکھنے کو ملے گا، بہت سی دیگر پابندیاں۔‘

صدر ٹرمپ کی جانب سے اضافی ٹیرف کے اعلان کا مطلب ہے کہ اب انڈین برآمداد جیسے ٹیکسٹائل مصنوعات، قیمتی پتھر، زیورات، گاڑیوں کے پرزہ جات اور سی فوڈ پر اب 50 فیصد ڈیوٹی عائد ہوگی۔ الیکٹرونک آئٹمز بشمول آئی فون اور ادویات کو فی الحال اس ٹیکس سے استثنا حاصل ہے۔

کہاں، کیا غلط ہوا؟

حالیہ ہفتوں میں ایسے مثبت اشارے ملے تھے کہ شاید امریکہ اور انڈیا کے درمیان تجارتی معاہدے طے پا جائے۔ لیکن اب یہ ناممکن نہیں تو انتہائی مشکل ضرور دکھائی دیتا ہے۔

تو آخر مسئلہ کہاں بنا؟

فی الحال تو ایسا لگتا کچھ غلطیوں، جغرافیائی سیاست اور مقامی سیاسی دباؤ کے نتیجے میں مذاکرات ناکام ہوئے ہیں۔

ٹرمپ کے اشتعال انگیز بیانات کے باوجود دہلی کی جانب سے اب بھی اب بھی نپا تلا انداز اپنایا جا رہا ہے۔ شاید انھیں امید ہے کہ اب بھی سفارتکاری کے ذریعے ایک تجارتی معاہدے تک پہنچا جا سکتا ہے۔ اور ٹرمپ کے وائٹ ہاؤس میں ہوتے کسی بھی بات کو حتمی کہنا مشکل ہی ہے۔

صدر ٹرمپ نے کئی ایسے موضوعات پر اپنی رائے کا اظہار کیا ہے جنھیں ’ریڈ لائن‘ تصور کرتا ہے۔ اس میں سب سے بڑا ٹرمپ کا انڈیا اور پاکستان سے برابری کا سلوک ہے۔

انڈیا اور پاکستان کے درمیان جنگ کے محض چند ہفتے بعد امریکی صدر نے وائٹ ہاؤس میں پاکستانی فوج کے سربراہ عاصم منیر ملاقات کی۔

اس کے بعد ٹرمپ نے پاکستان کے ساتھ ایک تجارتی معاہدے پر دستخط کیے جس میں پاکستان کو 19 فیصد کی ترجیحی ٹیرف کی پیشکش کی گئی اور ساتھ ہی پاکستان میں تیل کے ذخائر کو تلاش کرنے کا معاہدہ بھی ہوا۔ انھوں نے یہاں تک کہا کہ ’ہو سکتا ہے کہ کسی دن پاکستان انڈیا کو تیل بیچے۔‘

دہلی کے لیے ایک اور مسلسل اضطراب ٹرمپ کی جانب سے بار بار اس بات پر اصرار ہے کہ امریکہ نے انڈیا اور پاکستان کے درمیان جنگ بندی کروائی۔

اس کے علاوہ انڈیا پاکستان کے ساتھ تنازع کشمیر کو اپنا اندرونی معاملہ قرار دیتا ہے اور اس نے ہمیشہ اس مسئلے پر تیسرے فریق کی ثالثی کو مسترد کیا ہے۔ زیادہ تر عالمی رہنما دہلی کی اس پوزیشن کو مدِ نظر رکھتے ہوئے احتیاط برتتے ہیں۔ صدر ٹرمپ نے بھی اپنے پہلے دورِ صدارت میں ایسا ہی کیا تھا۔

لیکن اب ایسا نظر نہیں آتا۔ انڈین وزیرِ اعظم نریندر مودی نے انڈین پارلیمنٹ سے خطاب میں کہا کہ کسی بھی ملک نے انڈیا اور پاکستان کے مابین ثالثی نہیں کروائی۔ تاہم اس کے باوجود صدر اب بھی اپنے اس دعوے پر بضد ہیں کہ انھوں نے جنگ بندی کروائی ہے۔

معیشت کی ترقی اور محصولات کی ’بھتہ خوری‘

ٹرمپ کی جانب سے تجارت کے معاملے پر بڑھایا جانے والا دباؤ کافی سٹریٹجک ہے۔ انڈیا کی معیشت عالمی چیلنجوں کا سامنا کرتے ہوئے اور مستحکم افراط زر کی شرح کو برقرار رکھتے ہوئے کافی اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کر رہی ہے۔

زرمبادلہ کے ذخائر بڑھ کر 645 بلین ڈالر سے زیادہ ہو گئے ہیں، روپیہ مستحکم ہے اور انڈیا اب چین کو پیچھے چھوڑ کر امریکہ کو سمارٹ فون برآمد کرنے والا سب سے بڑا ملک بن گیا ہے۔ لیکن مبصرین کا خیال ہے کہ انڈیا کی یہی ترقی اسے ’محصولات کی بھتہ خوری‘ کا ہدف بناتی ہے۔

امریکہ میں مقیم جنوبی ایشیا کے امور کے تجزیہ کار مائیکل کوگل مین کا خیال ہے کہ ٹرمپ کے حملے کسی حد تک ذاتی نوعیت کے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ’ٹرمپ انڈین حکومت سے خوش نہیں ہیں۔ انڈین مذاکراتی ٹیم نے تجارتی مذاکرات میں امریکا کے تمام مطالبات ماننے سے انکار کر دیا۔‘

کوگل مین کا خیال ہے کہ ٹرمپ کا غصہ مودی کی جانب سے حالیہ انڈیا اور پاکستان کے بیچ جنگ بندی کا کریڈٹ نہ دینے اور ایک کشیدہ فون کال کے دوران ان کے مضبوط موقف سے پیدا ہوا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ ’شاید یہی وجہ ہے کہ ٹرمپ چین اور دوسرے بڑے روسی تیل خریداروں سے زیادہ انڈیا کو نشانہ بنا رہے ہیں۔‘

سچ یہ ہے کہ روس کے ساتھ انڈیا کی تیل کی تجارت کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے۔ یہ ایک کھلا راز ہے۔

انڈین وزارت خارجہ نے کہا ہے کہ عالمی منڈی کے حالات کی وجہ سے درآمدات ایک ضرورت ہیں۔

انھوں نے نشاندہی کی کہ ’یورپی ممالک خود روسی تجارت میں گہری جڑیں رکھتے ہیں۔ یہ ممالک کھاد، سٹیل اور مشینری درآمد کرتے ہیں۔ انڈیا صرف وہی کر رہا ہے جو توانائی کی قیمتوں کو کم رکھنے اور افراط زر کو کنٹرول میں رکھنے کے لیے ضروری ہے۔‘

سابق انڈین سفیر اور جندل گلوبل یونیورسٹی کے پروفیسرجیتندر ناتھ مشرا کہتے ہیں ٹرمپ ایک رئیل اسٹیٹ میگنیٹ اور ایک سخت مذاکرات کار ہیں۔ ’ان کا انداز سفارتی نہیں ہو سکتا، لیکن وہ بھی ان ہی نتائج خواہاں ہیں جو سفارت کار چاہتے ہیں۔ لہذا، میں سمجھتا ہوں کہ وہ جو کچھ کر رہے ہیں وہ مذاکراتی حکمت عملی کا حصہ ہے۔‘

انڈیا کی مشکل

حال ہی میں امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے بھی انتہائی نپے تلے ہوئے لہجے میں بات کی۔

انہوں نے تسلیم کیا کہ انڈیا ایک ’سٹریٹجک پارٹنر‘ ہے اور روسی تیل کی رعایتی نرخوں پر خریداری پر تنقید کرتے ہوئے انڈیا کی توانائی کی ضروریات کو بھی تسلیم کیا۔

انھوں نے کہا کہ ’ہر ملک کی طرح، انھیں اپنی معیشت کو مضبوط کرنا ہے، روسی تیل پر پابندی ہے اور سستا ہے۔‘

اب اصل سوال یہ ہے کہ انڈیا اس دباؤ کو کب تک برداشت کر سکتا ہے؟

لندن کے چیٹھم ہاوس کے ڈاکٹر باجپائی کا کہنا ہے کہ اگرچہ امریکہ انڈیا کا بڑا تجارتی پارٹنر ہے لیکن انڈیا کی معیشت دوسری بڑی معیشتوں کی طرح صرف تجارت پر منحصر نہیں ہے۔

ماہرین کا خیال ہے کہ انڈیا کو نہ صرف اقتصادی لچک بلکہ سٹریٹجک وضاحت سے بھی فائدہ اٹھانا ہوگا۔

سٹیو ہینکے جانز ہاپکنز یونیورسٹی میں اپلائیڈ اکنامکس کے پروفیسر ہیں جنھوں نے صدر رونالڈ ریگن کی کونسل آف اکنامک ایڈوائزرز میں بھی خدمات انجام دیں۔

وہ کہتے ہیں کہ ’صدر ٹرمپ صبح آپ سے ہاتھ ملا کر رات کو آپ کی پیٹھ میں چھرا گھونپ سکتے ہیں۔‘

پروفیسر ہانکے کا خیال ہے کہ ’انڈیا کو جذباتی ردعمل ظاہر کرنے کے بجائے نپولین کے اس پرانے مشورے پر عمل کرنا چاہیے کہ اگر کوئی دشمن خود کو تباہ کر رہا ہے تو مداخلت نہ کریں۔‘

انڈیا کن معاملات پر سودے بازی نہیں کرے گا؟

اس سب کے درمیان ایک اور جنگ جاری ہے۔ ایک ایسی جنگ جو انڈیا کی مقامی معیشت کی روح پر حملہ کر سکتی ہے۔

اندرونی ذرائع کا کہنا ہے کہ صدر ٹرمپ کی ٹیم چاہتی ہے کہ انڈیا اپنے ڈیری اور زراعت کے شعبوں کو امریکی کاروبار کے لیے کھول دے۔ لیکن انڈیا کے لیے یہ صرف تجارتی مسئلہ نہیں ہے۔

انڈیا
Getty Images
اندرونی ذرائع کا کہنا ہے کہ صدر ٹرمپ کی ٹیم چاہتی ہے کہ انڈیا اپنے ڈیری اور زراعت کے شعبوں کو امریکی کاروبار کے لیے کھول دے

انڈیا کا زرعی شعبہ سیاسی طور پر حساس، سماجی طور پر پیچیدہ اور اقتصادی طور پر اہم ہے۔ 40 فیصد سے زیادہ انڈین شہری زراعت پر انحصار کرتے ہیں۔

بھاری سبسڈی والے امریکی زرعی مصنوعات کے لیے راستہ کھولنا مارکیٹ میں مصنوعات کی بھرمار اور چھوٹے کسانوں کو برباد کرنے کا باعث بن سکتا ہے۔

2020-21 کی کسانوں کی تحریک کی یادیں مودی کے ذہن میں اب بھی تازہ ہوں گی۔ اس تحریک نے حکومت کو متنازعہ زرعی قوانین واپس لینے پر مجبور کر دیا تھا۔

یہاں شکست تسلیم کرنا نہ صرف مالی طور پر لاپرواہی ہوگی بلکہ سیاسی پریشانی بھی پیدا کر سکتی ہے۔

درمیانی راستے کی تلاش

فی الحال انڈیا کی حکمت عملی توازن قائم کرنے کی ہے۔ دہلی خاموشی سے امریکہ کو کوئی واضح رعایت دیے بغیر حل کے لیے بات چیت جاری رکھے ہوئے ہے۔

کوگل مین کا خیال ہے کہ انڈیا شدید دباؤ میں بھی ’اپنی پوزیشن پر قائم رہے گا۔‘ انھوں نے کہا کہ ’انڈیا کو محتاط رہنا ہو گا کہ وہ اپنی مقامی سیاسی وجوہات کی بنا پر امریکہ کو بہت زیادہ رعایتیں نہ دے۔ یہ ایک آسان سمجھوتہ نہیں ہونے والا ہے۔‘

انڈیا نے امریکہ اور مشرق وسطیٰ سے تیل کی درآمدات میں اضافہ کیا ہے، ایران اور وینزویلا سے خود کو دور کیا ہے، اور توانائی کے متبادل ذرائع میں بہت زیادہ سرمایہ کاری کی ہے۔

اصل المیہ صرف دو طرفہ تجارت نہیں ہے۔ ٹرمپ کے ٹیرف کے فیصلوں نے ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن کی اہمیت کو بھی کم کر دیا ہے۔ یہ ادارہ، جو پہلے ملکوں کے درمیان تجارتی مسائل حل کرتا تھا، اب تقریباً غیر فعال ہو چکا ہے۔

ایک انڈین اہلکار نے کہا کہ ’ایک وقت تھا جب تجارت مذاکرات کے ذریعے کی جاتی تھی، لیکن اب یہ ڈرانے کا وقت ہے۔‘

پروفیسر ہانکے کا خیال ہے کہ ’ٹرمپ کی پوری حکمت عملی ناقص ہے۔ وہ کہتے ہیں ٹرمپ کی تجارتی جنگ کے پیچھے معاشی سوچ تاش کے گھر کی طرح ہے۔ امریکی معیشت سست روی کا شکار ہے اور معاشی کساد بازاری کے دہانے پر ہے۔‘

ان کا خیال ہے کہ ’یہ خوف جلد ہی امریکی پالیسی پر اثر انداز ہونا شروع ہو سکتا ہے۔‘

انڈیا کی طاقت

واشنگٹن کی تمام تر دھمکیوں کے باوجود ایسا نہیں ہے کہ انڈیا کسی بھی طرح کمزور ہے۔ مضبوط ڈیجیٹل معیشت اور صارفین کی مسلسل بڑھتی ہوئی تعداد کی وجہ سے انڈیا کو ڈرانا آسان نہیں ہے۔

باجپائی کا کہنا ہے کہ سٹریٹجک خود مختاری کے لیے انڈیا دنیا کی تمام بڑی طاقتوں کے ساتھ بات چیت جاری رکھے گا۔

ان طاقتوں میں مغرب بلکہ چین، روس اور گلوبل ساؤتھ بھی شامل ہیں۔

انڈیا کی اقتصادی ترقی امید کی کرن ہے۔ افراط زر کی شرح گزشتہ چھ سال میں اپنی کم ترین سطح پر ہے۔ روزگار کے مواقع بڑھ رہے ہیں اور برآمدات کی سطح برقرار ہونے کے باعث ملک کی معیشت دوبارہ پٹری پر آ رہی ہے۔

دوستی کا خاتمہ اور نئے دور کا آغاز؟

مودی سے گرمجوشی سے ہاتھ ملانے والے ٹرمپ اب ان کے خلاف کیوں ہو گئے؟

ماضی پر نظر ڈالی جائے تو اس کے آثار ظاہر ہونا شروع ہو چکے تھے۔ سفارت کاری کے ماہرین نے خبردار کیا تھا کہ ذاتی کیمسٹری کو باہمی تعلقات پر ترجیح نہ دی جائے۔

مودی اور ٹرمپ کی دوستی کی میڈیا کوریج بھلے ہی اچھی لگے لیکن اس میں دونوں ملکوں کے تعلقات کی پیچیدگیوں کو اجاگر نہیں کیا گیا۔ سیاست میں ذاتی تعلقات کام نہیں آئے۔

ٹرمپ کی سیاست میں جذبات کی کوئی اہمیت نہیں۔ جیسا کہ باجپائی کہتے ہیں کہ ’ٹرمپ کی خارجہ پالیسی میں دوست یا دشمن نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔‘

ان کا موقف ہے کہ ’یہ سب کچھ اس لیے ہو رہا ہے کہ انڈیا تیل یا تجارت کے معاملے پر ٹرمپ سے متفق نہیں تھا۔‘

ان حالات میں انڈیا کو کیا کرنا چاہیے؟

پروفیسر ہانکے کہتے ہیں کہ انڈیا کو ان ممالک پر توجہ دینی چاہیے جو آزاد تجارتی معاہدوں میں دلچسپی رکھتے ہیں۔


News Source

مزید خبریں

BBC

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Follow US