1945 میں جاپان پر امریکی اٹیم بم کے حملے کے وقت یہ شہر امریکی حملوں کی فہرست میں شامل تھا لیکن دوسری عالمی جنگ کے آخری ایام میں یہ حیرت انگیز طور پر تباہی سے دو مرتبہ بچا۔
امریکہ نے دوسری عالمی جنگ میں جاپان کے دو شہروں پر ایٹم بم گرائے اور اس حملے میں لاکھوں افراد ہلاک ہوئے’کاکورا‘ جس کی اب کوئی منفرد شناخت تو نہیں کیونکہ یہ اُن شہروں میں سے ایک ہے جو سنہ 1963 میں چار دوسرے شہروں میں ضم ہونے کے بعد ’کیتا کیوسو‘ کہلایا اور اب جاپان کے اس شہر میں دس لاکھ افراد رہتے ہیں لیکن کاکورا کا نام جاپان کے عوام کے لاشعور میں اب بھی زندہ ہے۔
اس شہر کا زوال بہت تکلیف دہ ہے۔
1945 میں جاپان پر امریکی اٹیم بم کے حملے کے وقت یہ شہر امریکی حملوں کی فہرست میں شامل تھا لیکن دوسری عالمی جنگ کے آخری ایام میں یہ حیرت انگیز طور پر تباہی سے دو مرتبہ بچا۔
نو اگست کو جاپان پر امریکی حملے کا شکار ہونے سے کاکورا محض چند منٹ دور تھا لیکن کئی دیگر عوامل کے سبب امریکہ فضائیہ نے ناگاساکی پر اٹیم بم گرایا اور کاکورا تباہ کن حملے بچ گیا۔
ناگاساکی اور ہیروشیما پر ایٹمی حملوں میں لاکھوں افراد ہلاک ہوئے اور کئی برسوں تک یہاں تابکاری کے اثرات نمایاں رہے۔
چاپان میں ’کاکورا جیسی قسمت‘ کو عوامی سطح پر کسی بدقسمت واقعے سےبچنے پر استعارے کے طور پر استعمال کیا جانے لگا۔
شہر پر بادلوں اور دھوئیں کا راج
جاپان کے شہر ناگاساکی پرامریکہ نے اگست 1945 میں ایٹم بم گرایالیکن اصل میں ہوا کیا؟
1945 کے وسط میں امریکہ کے فوجی حکام نے ایٹم بم گرانے کے لیے چاپان کے 12 شہروں کو منتخب کیا کیونکہ ان شہروں میں فوجی چھاؤنیاں اور فیکٹریاں موجود تھیں۔
ان شہروں کی فہرست میں کاکورا ناگاساکی سے محض ایک درجے پیچھے تھا۔ یہ شہر ہتھیاروں کی پروڈکشن کا مرکز تھا اور یہاں جاپانی فوج کی اہم تنصبات بھی تھیں۔
اگر آخری لمحات میں امریکی فضائیہ اپنا فیصلہ نہ بدلتی تو یہاں چھ اگست کو اٹیم بم گرایا جانا تھا لیکن یہ بم ہیروشیما میں گرا۔
اس کے تین دن بعد ’بی 29‘ بمبار طیاروں نے کاکورا شہر پر پرواز کی۔ ان ہی میں سے ایک طیارے میں ’فیٹ مین‘ یعنی پلوٹینیم بم تھا جو ہیروشیما پر گرائے گئے یورینیم بم سے زیادہ طاقتور تھا۔
ہوا کچھ یوں کہ جب امریکی طیارہ یہاں پہنچا تو آسمان پر بادل تھے اور دوسرے شہروں میں بم دھماکوں کے سبب دھواں چھایا ہوا تھا۔
بعض تاریخ دانوں کا کہنا ہے کہ کاکورا میں موجود کارخانوں نے جان بوجھ کر کوئلہ جلایا تاکہ شہر کی فضا میں دھواں چھا جائے کیونکہ ان دنوں فضائی حملے عام تھے۔
امریکی فوج کی دستاویزات اور امریکی طیارے میں موجود ’نیو یارک ٹائمز‘ کے صحافی ولیم لارینس کی رپورٹ کے مطابق ’بی – 29‘ نے کاکورا شہر کے گرد تین چکر لگائے۔
امریکی فوجیوں کو یہ ہدایات دی گئی تھیں کہ دیکھنے اور تصدیق کرنے کے بعد ہی وہ بم گرائیں تاکہ زیادہ سے زیادہ تباہی ہو لیکن ہوا کچھ ایسا کہ شہر پر جہاز اڑتا دیکھ کر زمین سے جہاز پر فائرنگ شروع کر دی گئی۔
جہاز کے کپتان میجر چارلس سوینی نے کاکورا کے بجائے ’ناگاساکی‘ کا رخ کیا اور یوں دوسری مرتبہ کاکورا اٹیمی حملے سے محفوظ رہا۔
دارالحکومت پر حملہ کیوں نہیں کیا گیا؟
ایک اندازے کے مطابق ناگاساکی پر ایٹم بم حملے میں 70 ہزار افراد ہلاک ہوئے تھےامریکی جہاز مارچ 1945 سے ہی جاپان کے شہروں کو نشانہ بنا رہے تھے اور وہاں تباہی ہو رہی تھی۔نو مارچ کو ٹوکیو میں کیے گئے ایک حملے کے دوران 83 ہزار افراد مارے گئے جبکہ دس لاکھ سے زیادہ افراد بے گھر ہوئے۔
لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ ’بی –29‘ طیاروں نے اگست میں جب کاکورا کا رخکیا تو اُس وقت تک یہ اٹیمی حملے کے علاوہ مختلف نوعیت کے حملوں سے بچا ہوا اور اپنی اصلی حالت میں موجود تھا۔
امریکی فوجی حکام چاہتے تھے کہ ان شہروں کو حملوں سے پہلے زیادہ سے زیادہ محفوظ رکھا جائے تاکہ اٹیمی حملے کے بعد تباہی کا صحیح سے اندازہ لگایا جا سکے۔
گو کہ ناگاساکی امریکی ہدف بنائے جانے والے شہروں کی فہرست میں شامل نہیں تھا لیکن اُس وقت کے امریکی خارجہ سیکریٹری ہیری سٹیمسن نے اُسے شامل کیا۔
انھوں نے اُس وقت کے امریکی صدر ہیری ٹرومین کو قائل کر لیا کہ وہ ’کیوٹو‘ کوہدف بننے والے شہروں کی فہرست سے نکال دیں۔
کیوٹو شہر اُس وقت جاپان کا دارالحکومت تھا جہاں بعد میں امریکہ اور جاپان کے مابین مصالحت ہوئی۔
لیکن امریکہ کے تاریخ دانوں کا دعوی ہے کہ جاپانی شہر ’کیوٹو‘ کو بچانے میں ہیری سٹیمسن کی ذاتی دلچسپی تھی کیونکہ وہ کئی بار جاپان گئے اور بعض اطلاعات کے مطابق اُنھوں نے وہاں اپنا ہنی مون منایا۔
افسوس اور غم کی یادگار
15 اگست سنہ 1945 میں جاپان نے غیر مشروط طور پر ہتھیار ڈالے۔
اُس وقت کا ’کاکورا‘ اور موجودہ وقت کا ’کیتا کیوسو‘ تباہی سے تو بچ گیا لیکن اضطراب اور بے چینی سے نہیں۔
لیکن جب یہ پتہ چلا کہ ناگاساکی پر گرنے والا بم کاکورا پر گرنا تھا تو خوف، خوشی، غم اور ہمدردی جیسے ملے جلے تاثرات تھے۔
’کیتا کیوسو‘ میں ناگاساکی کے ایٹمی دھماکے کی یادگار بنائی گئی، جس میں شہر کے بچ جانے اور ناگاساکی پر ہونے والے حملے کو بیان کیا گیا اور یہاں اگست 1973 کے بعد سے سالانہ تقریبات منائی جاتی ہیں۔
سنہ 2002 میں کیتا کیوسو میوزیم بھی عوام کے لیے کھول دیا گیا۔
ان دونوں شہروں میں دوستی پر مبنی دہائیوں پرانے تعلقات ہیں۔
کیتا کیوسو شہر میں خوب ترقی ہوئی۔ قابل تجدید ٹیکنالوجی میں سرمایہ کاری کے ذریعے اس کاشمار اب ایشیا کے سرسبز ترین شہروں میں ہوتا ہے۔
یہ ایک ایسا شہر ہے جس نے اپنے ماضی کو نہ بھلاتے ہوئے مستقبل میں قدمرکھا۔