کینیڈا کے گرودوارے میں نام نہاد ’جمہوریہ خالصتان‘ کا بورڈ اور انڈیا، کینیڈا کے رشتے میں مزید تلخی کی پرچھائی

جون کے وسط میں کینیڈا کے نئے وزیر اعظم مارک کارنی کی دعوت پر ترقی یافتہ ممالک کی تنظیم جی 7 کے اجلاس میں شرکت کے لیے انڈین وزیر اعظم مودی کے کینیڈا دورے کو بڑے پیمانے پر دونوں ممالک درمیان جاری کشیدگی کو کم کرنے کے اقدام کے طور پر دیکھا گیا۔

جون کے وسط میں وزیر اعظم مارک کارنی کی دعوت پر ترقی یافتہ ممالک کی تنظیم ’جی سیون‘ کے اجلاس میں شرکت کے لیے جب انڈین وزیر اعظم نریندر مودی کینیڈا کے سرکاری دورے پر پہنچے تو اس عمل کو دونوں ممالک کے درمیان جاری کشیدگی کو کم کرنے کے اقدام کے طور پر دیکھا گیا تھا۔

لیکن گذشتہ ہفتے کینیڈا کی سرزمین پر خالصتان تحریک کو فروغ دینے والے ایک بورڈ نے بظاہر دونوں ممالک کے درمیان رشتوں کی بحالی کی راہ کو میں مزید ایک رکاوٹ حائل کر دی ہے۔

کینیڈا کے صوبے ’برٹش کولمبیا‘ میں بنیاد پرست سکھ عناصر نے ایک ’نام نہاد سفارتخانہ‘ قائم کیا ہے جسے ’جمہوریہ خالصتان‘ کا نام دیا گیا ہے۔

’ریپبک آف خالصتان‘ کا یہ بورڈ کینیڈا کے سرے شہر کے اُس گرودوارے کے کمیونٹی سینٹر پر نصب کیا گیا ہے جس کی سربراہی کسی دور میں ہردیپ سنگھ نجر کرتے تھے۔ یاد رہے کہ انڈیا نے ہردیپ سنگھ کو ’دہشت گرد‘ قرار دے رکھا تھا اور سنہ 2023 میں وہ اسی گرودوارے کی پارکنگ لاٹ میں ہونے والے قاتلانہ حملے میں ہلاک کر دیے گئے تھے۔

کینیڈا میں نجر کے قتل نے دونوں ممالک کے درمیان سفارتی تنازع کو اپنے عروج پر پہنچا دیا تھا۔

انڈیا اور کینیڈا کی جانب سے ابھی تک اس معاملے پر کوئی باضابطہ ردعمل نہیں دیا گیا ہے، مگر انڈین ذرائع ابلاغ نے اس معاملے کی وسیع پیمانے پر کوریج کی ہے جبکہ اس کی تصاویر انڈین سوشل میڈیا پر وائرل رہی ہیں۔

نجر کا قتل جون 2023 میں گرودوارے کی پارکنگ میں ہوا
Reuters
نجر سنگھ کو جون 2023 میں اسی گرودوارے کی پارکنگ میں قتل کر دیا گیا تھا

یاد رہے کہ انڈیا کا ایک عرصے سے یہ موقف رہا کہ کینیڈا کی سرزمین انڈیا مخالف کارروائیوں کے لیے استعمال کی جا رہی ہے۔

18 جون 2023 کو سرے میں قائم گرونانک سکھ گرودوارے کی پارکنگ میں ہردیپ سنگھ نجر کے قتل نے دونوں ممالک کے رشتوں کو اتنا تلخ کر دیا تھا کہ دونوں ممالک نے سفارتکاروں کو ملک بدر کرنے سے بھی دریغ نہیں کیا۔

اُس وقت کے کینیڈین وزیرِ اعظم جسٹن ٹروڈو نے کہا تھا کہ ان کے ملک کی پولیس اس قتل میں انڈین ایجنٹس کے براہ راست ملوث ہونے کے الزامات پر تحقیقات کر رہی ہے۔

کینیڈین پولیس کے مطابق کینیڈا میں انڈین ایجنٹس خالصتان کے حامی افراد کے خلاف ’قتل، بھتہ خوری اور پرُتشدد کارروائیوں‘ میں ملوث ہیں۔

انڈیا نے الزامات کو ’مضحکہ خیز‘ قرار دیا تھا۔ لیکن پھر امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان میتھیو ملر نے بھی ایک پریس بریفنگ کے دوران کہا کہ ’کینیڈا کی حکومت کے الزامات انتہائی سنجیدہ نوعیت کے ہیں اور انھیں سنجیدگی سے دیکھنے اور انڈیا میں ان پر تفتیش کرنے کی ضرورت ہے، لیکن انڈیا نے ایک مختلف راستہ چنا ہے۔‘

بہر حال حالیہ واقعے کو ایک بار پھر دونوں ممالک کے درمیان ٹھیک ہوتے رشتوں میں رکاوٹ کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔

’انڈیا ٹوڈے‘ کی اس معاملے پر ایک رپورٹ کے مطابق نام نہاد ’سفارتخانے‘ کا یہ بورڈ کالعدم ’سکھس فار جسٹس‘ نامی تنظیم کی جانب سے نصب کیا گیا ہے۔ اقدام ایسے وقت میں کیا گیا ہے جب سکھس فار جسٹس نامی اس تنظیم کی جانب سے ’خالصتان ریفرینڈم‘ کے انعقاد کا اعلان بھی کیا گیا ہے۔

پی ایم مودی اور کارنی
AFP via Getty Images
کینیڈا کے وزیر اعظم مارک کارنی نے جی سیون اجلاس کے موقع پر انڈین وزیر اعظم مودی کا استقبال کیا تھا

ہم نے اس معاملے پر دہلی میں قائم جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کے سکول آف انٹرنیشنل سٹڈیز میں سینٹر فار سٹڈیز آف امریکاز میں اسسٹنٹ پروفیسر انشو جوشی سے بات کی۔

انھوں نے کہا کہ ’عالمی سیاست میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے انڈیا کے خلاف لگائے گئے ٹیرف اور واشنگٹن میں پاکستان کے آرمی چیف عاصم منیر کی جانب سے آنے والے بیان نے اخباروں میں شہ سرخیاں بنائی ہیں لیکن اسی دوران کینیڈا میں ایک اہم پیش رفت ہوئی جو کہ انڈیا کے لیے زیادہ تشویش کا باعث ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ سنہ 2023 میں جس طرح سے ہردیپ سنگھ نجر کے قتل کے بعد جسٹن ٹروڈو نے انڈیا پر الزامات عائد کیے، اس کے بعد سے دونوں ممالک کے درمیان رشتے لگاتار خراب ہوتے رہے ہیں اور یہ حالیہ معاملہ اسی سلسلے کی کڑی ہے۔

یاد رہے کہ دو ماہ قبل انڈین وزیر اعظم نریندر مودی کے کینیڈا کے سرکاری دورے کے بعد 18 جون کو انڈین وزارت خارجہ کی جانب سے جاری پریس ریلیز میں کہا گيا تھا کہ دونوں ممالک کے رہنماؤں نے ’مشترکہ جمہوری اقدار اور قانون کی حکمرانی کے احترام پر مبنی انڈیا، کینیڈا تعلقات کی اہمیت کا اعادہ کیا۔ اور خودمختاری اور علاقائی سالمیت کے اصولوں کو برقرار رکھنے کا عزم کیا۔‘

’دونوں رہنماؤں نے ایک تعمیری اور متوازن شراکت داری کو آگے بڑھانے کی ضرورت پر زور دیا جس کی بنیاد خدشات اور حساسیت، مضبوط عوامی رابطوں اور بڑھتی ہوئی اقتصادی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے باہمی احترام پر مبنی ہو۔ اس سلسلے میں، دونوں فریقوں نے ایک دوسرے کے دارالحکومتوں میں ہائی کمشنرز کی جلد واپسی سے تعلقات میں استحکام کی بحالی کے لیے درست اور تعمیری اقدامات کرنے پر اتفاق کیا۔‘

پرفیسر انشو نے کہا کہ مودی جی کے دورے کے دوران اس بات پر اتفاق ہوا کہ دونوں ممالک کے درمیاں رشتوں کو معمول پر لانے کے لیے قدم بڑھانا چاہیے۔

’میرے خیال میں اس نئی پیش رفت سے اس کو دھچکہ لگ سکتا ہے کیونکہ یہ ایک طرح سے کینیڈین حکومت کی ناکامی ہے، کیونکہ کوئی ان کی سرزمین پر اس طرح سے ریپبلک آف خالصتان کے نام سے ایک نام نہاد سفارتخانہ قائم کر لیتا ہے، اس پر وہاں کی حکومت نے کیا کیا؟‘

انھوں نے کہا کہ ماضی میں بھی ’انڈیا نے بار بار کینیڈا کی حکومت اور وہاں کی سکیورٹی ایجنسیوں کو خبردار کیا ہے کہ اس طرح کی سرگرمیاں انڈیا کی داخلی سکیورٹی اور خود مختاری کے لیے بڑا خطرہ ہیں۔‘

پروفیسر انشل نے کہا کہ ’یہ علامتی ہے کہ آخر کار یہ نام نہاد سفارتخانہ اسی گرودوارے میں کیوں کھولا گیا جہاں کے نگراں نجر تھے۔ اگر ان کے خلاف کینیڈا کی جانب سے کوئی کارروائی نہیں کی جاتی ہے تو اس سے کئی قسم کے پیغامات لیے جا سکتے ہیں۔‘

تصویر
Getty Images
وزیر اعظم مودی کے کینیڈا دورے کے موقعے پر وہاں خالصتانی حامی مظاہرے ہوئے

تاہم حالیہ پیش رفت پر انڈین حکومت کی جانب سے کوئی بیان نہیں آیا ہے اور نہ ہی کینیڈا نے اس معاملے پر کوئی ردعمل دیا ہے۔

دوسری جانب سوشل میڈیا پر اس حوالے سے بات ہو رہی ہے اور لوگ اس کی تصویر شیئر کرتے ہوئے لکھ رہے ہیں کہ ’یہ کوئی افواہ نہیں بلکہ حقیقت ہے۔‘

انڈین میڈیا میں اس بات پر حیرت کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ ’اس معاملے میں شامل سفارتی حساسیت کے پیش نظر مارک کارنی کی وفاقی حکومت کی جانب سے ابھی تک کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا ہے۔‘

دلپریت چوپڑا نامی ایک صارف نے لکھا: 'مغربی ممالک کی جانب سے خالصتانی بنیاد پرستوں کو خوش کرنے کی کوئی حد نہیں ہے۔ برطانیہ کے ایک ریگولیٹر نے مذہبی اظہار کی آزادی کی آڑ میں اصطلاح کے سیاسی معنی کو نظر انداز کرتے ہوئے گوردواروں میں اب ’خالصتان‘ کی تختیاں لگانے کی اجازت دی ہے۔یہ خطرناک نظیر ہے۔‘

کینیڈا میں تقریباً سات لاکھ 77 ہزار سکھ آباد ہیں۔ 1980 اور 1990 کی دہائی میں انڈیا میں سکھ علیحدگی پسند تحریک کے دوران کافی قتل و غارت گری ہوئی تھی اور اس سبب بھی دونوں ممالک کے تعلقات میں کشیدگی پیدا ہوئی تھی۔

انڈیا کینیڈا پر الزام لگاتا آیا ہے کہ اس نے اپنی سرحدی حدود کے اندر خالصتان تحریک کے حامیوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی۔


News Source

مزید خبریں

BBC

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Follow US