صحافی کے کالم پر پاکستانی فوج کے ترجمان کی وضاحت: ’سہیل وڑائچ یا ڈی جی آئی ایس پی آر، کس کی بات پر یقین کریں؟‘

اس کالم کے تناظر میں ہونے والی بحث ابھی تھمی نہیں تھی کہ پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے سربراہ میجر جنرل احمد شریف چوہدری کی جانب سے اِس کالم سے متعلق صحافیوں کو دی گئی ایک وضاحت نے پھر سے ہنگامہ کھڑا کر دیا۔

پاکستان سے تعلق رکھنے والے سینیئر صحافی اور کالم نگار سہیل وڑائچ نے حال ہی میں اپنے ایک کالم میں آرمی چیف فیلڈ مارشل عاصم منیر سے بیلجیئم کے دارالحکومت برسلز میں ہونے والی اپنی ’پہلی ملاقات‘ کا احوال بیان کیا تھا جس کے بعد نا صرف تحریک انصاف کی جانب سے سخت ردعمل آیا بلکہ پاکستان کے سوشل میڈیا پر بھی اس پر خوب بحث کا آغاز ہوا تھا۔

اس کالم کے تناظر میں ہونے والی بحث ابھی تھمی نہیں تھی کہ پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے سربراہ میجر جنرل احمد شریف چوہدری کی جانب سے اِس کالم سے متعلق صحافیوں کو دی گئی ایک وضاحت نے پھر سے ہنگامہ کھڑا کر دیا۔

روزنامہ جنگ میں 16 اگست کو شائع ہونے والے کالم، جس کا عنوان ’فیلڈ مارشل سے ملاقات‘ تھا، میں سہیل وڑائچ نے لکھا کہ ’سیاسی حوالے سے کیے گئے سوال پر انھوں (عاصم منیر) نے کہا کہ سیاسی مصالحت سچے دل سے معافی مانگنے سے ممکن ہے‘ تاہم کالم میں سہیل وڑائچ کی جانب سے یہ نہیں بتایا گیا کہ یہ سوال کس سے متعلق تھا اور آرمی چیف کے جواب کا ہدف کون تھا۔

اور اب جمعرات کی دوپہر اسلام آباد میں صحافیوں سے اپنی ایک ملاقات کے دوران پاکستانی فوج کے ترجمان نے اس کالم سے متعلق پوچھے گئے سوال کے جواب میں دعویٰ کیا ہے کہ آرمی چیف نےبرسلز میں نہ تو کسی کو انٹرویو دیا، نہ ہی تحریک انصاف کا ذکر ہوا اور نہ ہی معافی کا۔

سہیل وڑائچ نے فوج کے ترجمان کے اس بیان پر کوئی بھی تبصرہ کرنے سے انکار کیا ہے۔

سہیل وڑائچ نے اپنے کالم میں کیا دعویٰ کیا تھا؟

سہیل وڑائچ نے 16 اگست کو روزنامہ جنگ میں ’فیلڈ مارشل سے ملاقات‘ کے عنوان سے شائع ہونے والے کالم میں فیلڈ مارشل عاصم منیر سے اپنی پہلی ملاقات اور اس دوران ہونے والی مبینہ بات چیت کا احاطہ کیا۔

انھوں نے اپنے کالم میں دعویٰ کیا کہ وہ آرمی چیف سے ملاقات کے بہت عرصے سے متمنی تھے اور اس ضمن میں انھوں نے وزیر داخلہ محسن نقوی سے درخواست کی جس کی بنیاد پر ان کی ملاقات ممکن ہو پائی۔ اس کالم میں، سہیل وڑائچ کے بقول، اُن کی جانب سے ’کھردرے سوالات‘ پوچھے گئے جن کے انھیں ’واضح اور شفاف جوابات‘ ملے۔

کالم کے مطابق ’سیاسی حوالے سے کیے گئے سوال پر انھوں نے کہا کہ سیاسی مصالحت سچے دل سے معافی مانگنے سے ممکن ہے، اس حوالے سے انھوں نے سٹیج پر قرآن پاک کی آدم کی تخلیق اور شیطان کے کردار کے حوالے سے آیات کا متن اور ترجمہ سنایا جس سے واضح ہوتا تھا کہ شروع میں فرشتوں کو آدم سے مسئلہ تھا، مگر خدا نے آدم کو تخلیق کیا تو سوائے ابلیس کے سب فرشتوں نے انسان کو خدا کا حکم اور کرشمہ سمجھ کر قبول کر لیا۔ گویا معافی مانگنے والے فرشتے رہے اور معافی نہ مانگنے والا شیطان بن گیا۔۔۔‘

کالم میں مزید بتایا گیا کہ پاکستان کی معاشی ترقی کے حوالے سے بھی آرمی چیف کے پاس ’پورا روڈ میپ‘ تھا جس کے تحت پانچ سے دس برس میں ملک کو ترقی یافتہ ممالک کی صفوں میں کھڑا کرنے کی منصوبہ بندی تھی۔

سہیل وڑائچ کے مطابق اس موقع پر بین الاقوامی حوالے سے بھی سوالات اور جوابات ہوئے۔

کالم نگار سہیل وڑائچ نے بھی چند روز قبل آرمی چیف کے ساتھ اپنی تصویر سوشل میڈیا پر پوسٹ کرتے ہوئے بتایا تھا کہ یہ برسلز میں تقریب کے دوران لی گئی تھی۔

سہیل وڑائچ کے اس کالم کے شائع ہونے کے اگلے ہی روز ان کا ایک اور کالم ’مسافر بنام قیدی نمبر 804‘ شائع ہوا تھا جس میں انھوں نے پاکستان کے سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو اور جنرل ضیا الحق کے بارے میں لکھا۔

اس کالم میں سہیل وڑائچ نے عمران خان کو ’قیدی جی‘ کہہ کر مخاطب کرتے ہوئے لکھا کہ ’قیدی جی! جان ہے تو جہاں ہے پاکستان بھٹو جیسا سانحہ دوبارہ نہیں دیکھنا چاہتا نہ ہی آپ کے کروڑوں حامیوں کو مایوسی اور بے بسی میں دھکیلنا چاہتا ہے۔‘

تحریک انصاف کی جانب سے اس کالم پر شدید تنقید سامنے آئی تھی۔ سوشل میڈیا سائٹ ایکس پر پی ٹی آئی نے اپنے بیان میں لکھا کہ ’جنگ گروپ سے وابستہ سینیئر صحافی سہیل وڑائچ کا کالم پڑھ کر تاثر ملا جیسا چیئرمین عمران خان کو جان سے مارنے سے دھمکی دی جا رہی ہے۔‘

تحریک انصاف نے ’فیلڈ مارشل سے ملاقات‘ کے عنوان سے کالم پر بھی تنقید کرتے ہوئے لکھا کہ ’ایک صحافی کی آرمی چیف سے منسوب کی گئی باتوں کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔‘

تحریک انصاف نے مطالبہ کیا تھا کہ فوج آرمی چیف سے منسوب بیانات پر فوری بیان جاری کرے جس میں ان دعوؤں کی تصدیق کی جائے یا تردید کی جائے۔

تحریک انصاف کے مطابق ’اس معاملے پر خاموشی سے عدم استحکام اور قیاس آرائیاں بڑھیں گی اور اداروں پر عوام کا اعتماد کم ہو گا۔ قوم کو وضاحت چاہیے۔‘

ڈی جی آئی ایس پی آر کی جانب سے کیا دعویٰ کیا گیا؟

ڈی جی آئی ایس پی آر سے سہیل وڑائچ کے کالم سے متعلق سوالات آج اُن صحافیوں کی جانب سے پوچھے گئے جنھوں نے اُن سے اسلام آباد میں ملاقات کی۔

ملاقات کرنے والے صحافیوں میں سما ٹی وی سے وابستہ اینکر پرسن ثمر عباس بھی شامل تھے۔ اس ملاقات کے دوران ہونے والی گفتگو سے متعلق انھوں نے بی بی سی کو آگاہ کیا۔

صحافی و اینکر پرسن ثمر عباس نے بتایا کہ ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ ’فیلڈ مارشل عاصم منیر نے برسلز میں کوئی انٹرویو نہیں دیا اور نہ ہی انھوں نے تحریک انصاف یا کسی قسم کوئی مصالحت کی بات کی۔‘

انھوں نے کہا کہ فوج کے ترجمان نے واضح طور پر کہا کہ ’نہ ہی کوئی انٹرویو دیا اور نہ ہی تحریک انصاف یا مصالحت کا کوئی ذکر ہوا۔‘

ثمر عباس نے بتایا کہ فوج کے ترجمان نے کہا کہ ’نو مئی کے کیسز میں سب کو قانونی کارروائی کا حصہ بننا پڑے گا، معافی کسی قسم کی نہیں کیونکہ نو مئی فوج کے خلاف نہیں بلکہ ملک کے خلاف ہے، معافی تو سب کو مانگی چاہیے لیکن یہ کسی قانونی کارروائی کا نعم العبدل نہیں۔‘

آئی ایس پی آر
BBC
فوج کے ترجمان کے مطابق افسوس ہے کہ سینیئر صحافی نے ذاتی مفاد اور تشہیر کے لیے غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کیا

’سہیل وڑائچ یا ڈی جی آئی ایس پی آر، کس کی بات پر یقین کریں؟'

ڈی جی آئی ایس پی آر کی جانب سے سامنے آنے والے بیان کے بعد ایک مرتبہ پھر یہ معاملہ زیر بحث ہے۔

پاکستان تحریک انصاف کے رہنما زلفی بخاری نے ڈی جی آئی ایس پی آر کے بیان سے متعلق سکرین شارٹس شیئر کرتے ہوئے ایکس پر اپنی پوسٹ میں لکھا کہ سہیل وڑائچ نے اپنے کالم کے ذریعے عمران خان کے قتل کے بارے میں افواہیں پھیلائی تھیں۔

انھوں نے لکھا کہ ڈی جی آئی ایس پی آر نے واضح کر دیا کہ یہ سب جھوٹ ہے۔ ’سہیل وڑائچ کو یہ من گھڑت کہانی سنانے کی کیا ضرورت تھی۔ جو لوگ قوم کے سب سے بڑے لیڈر کو مارنے کی خبریں پھیلا رہے ہیں، ملک انھیں معاف نہیں کرے گا۔‘

کالم نگار اور سینئیر صحافی عارفہ نور نے لکھا کہ ’لگتا ہے کہ جنرل ضیا کے پاس ٹیم اچھی تھی جنھیں خبر رکوانا آتی تھی، نہ کہ پانچ دن کے بعد وضاحت جاری کی جائے۔‘

ایکس پر ایک صارف نے لکھا کہ ’سہیل وڑائچ یا ڈی جی آئی ایس پی آر: کس کی بات پر یقین کریں؟‘

صحافی مطیع اللہ جان نے ایکس پر اپنی پوسٹ میں لکھا کہ ’بطورِ صحافی سہیل وڑائچ صاحب کی طرف سے فیلڈ مارشل سے ملاقات پر شائع کردہ کالم کے مندراجات پر مجھے بھی بڑے تحفظات ہیں کہ انھوں نے بہت سے سوالات نہیں کیے اور یکطرفہ بیانیہ چلایا، مگر جہاں تک خبر کا تعلق ہے تو میرے نزدیک سہیل وڑائچ آئی ایس پی آر سے زیادہ کریڈیبل اور قابلِ اعتبار ہیں۔‘


News Source

مزید خبریں

BBC

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Follow US