صوبائی وزیر سعید غنی کے بھائی فرحان غنی اور اس کے ساتھیوں کے خلاف دہشت گردی دفعات کے تحت مقدمہ درج کرکے ملزمان کی گرفتاری ظاہر کردی ہے۔
ملزمان نے خود تھانے پیش ہوکر گرفتاری دی یا پولیس نے انہیں گرفتار کرنے کی ہمت کی ہے اس سلسلے میں مذکورہ دونوں اطلاعات گردش کررہی ہیں۔
فیروزآباد تھانے میں پاکستان پیپلز پارٹی کے مقامی رہنما اور ٹاؤن چیئرمین فرحان غنی کے خلاف مقدمہ سرکاری اہلکار حافظ سہیل احمد کی مدعیت میں درج کیا گیا ہے۔
درج کی گئی ایف آئی آر میں انسدادِ دہشتگردی ایکٹ سمیت اقدامِ قتل اور ہنگامہ آرائی کی دفعات شامل کی گئی ہیں۔ حافظ سہیل کا کہنا ہے کہ میں سرکاری ملازمت کرتاہوں،22 اگست کو سروس روڈ شارع فیصل پر ڈیوٹی تھی۔
ایف آئی آر متن کے مطابق مدعی نے بتایا کہ زمین میں فائبر آپٹک کیبل بچھانے کے کام کی نگرانی کرنا تھی، کام کے دوران 3 گاڑیوں پر 20 سے 25 افراد پہنچے۔
تشدد کرنے والوں کے نام فرحان غنی، قمرالدین، شکیل، سکندر، روحان معلوم ہوئے ہیں، تشدد کرنے والے دیگر افراد کو سامنے آنے پر شناخت کرسکتا ہوں۔
مقدمے میں الزام ہے کہ ملزمان نے سرکاری عملے کو اپنے فرائض کی انجام دہی سے روکنے کی کوشش کی، مزاحمت کی اور جان سے مارنے کی دھمکیاں بھی دیں۔
اسی دوران کسی نے کہا 15 بلا کر ان کے حوالے کرو، پھر مجھے زبردستی گھسیٹتے ہوئے پیٹرول پمپ کے کمرے میں بند کردیا اور وہاں بھی مار پیٹ کرتے رہے، پولیس وہاں پہنچی اور مجھے چھڑوا کر تھانے لے آئی، یہ لوگ وہاں کام کرنے والے مزدوروں کا سارا سامان ساتھ لے گئے۔
ایف آئی آر کے متن کے مطابق مدعی مقدمہ حافظ سہیل نے بتایا کہ پولیس مجھے تھانے لے کر پہنچی تو یہ بھی پیچھے سے تھانے آگئے۔ ڈیوٹی پر موجود پولیس افسر کو میرے خلاف کارروائی کے لیے دھمکاتے رہے، ان کے جانے کے بعد میں تھانے سے نکل کر اپنے دفتر پہنچا۔
اس حوالے سے صوبائی وزیر سعید غنی کا ٹوئٹ بھی سامنے آیا۔
جس میں لکھا گیا ہے کہ فرحان غنی اور ساتھیوں کا گزشتہ روز سہیل نامی شخص سے جھگڑا ہوا، آج اس شخص نے مقدمہ درج کروایا ہے جو اس کا حق ہے، فرحان غنی سمیت تمام افراد خود گرفتاری دے کر قانون کا سامنا کریں گے، فرحان غنی اور ساتھی عدالت میں اپنی بے گناہی ثابت کریں گے۔