افغانستان کی حکمراں تحریک طالبان نے ایک نئے قانون کے تحت رومانوی شاعری پر پابندی عائد کر دی ہے۔
افغان ویب سائٹ ’کابل ناؤ‘ کے مطابق ’مشاعروں کو منظم کرنے کا قانون‘ سنیچر کو طالبان کے امیر المومنین مُلّا ھبۃ اللہ اخوندزادہ نے منظور کیا ہے۔ افغانستان کی وزارت قانون کے مطابق یہ قانون 13 دفعات پر مشتمل ہے جن میں بتایا گیا کہ مشاعرے کن شرائط کے ساتھ منعقد کیے جا سکتے ہیں اور شاعری میں کس قسم سے مواد کی اجازت ہے۔اس قانون کے تحت لڑکیوں اور لڑکوں کے درمیان دوستانہ تعلقات کی حوصلہ افزائی پر مبنی اشعار اور سپریم لیڈر ھبۃ اللہ اخوندزادہ کے احکامات، ہدایات اور فیصلوں پر تنقید کو ممنوع قرار دیا گیا ہے۔قانون میں شعراء کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ اپنی شاعری کا رخ اسلامی اخلاقیات، شرعی اصولوں اور تزکیۂ نفس جیسے موضوعات کے فروغ کی جانب موڑیں۔مزید کہ شاعری ‘نامناسب خواہشات و جذبات اور دنیاوی محبت کے اظہار‘ سے آزاد ہونی چاہیے۔اس قانون میں ’(طالبان کے خیال میں) غیر اسلامی نظریات جیسا کمیونزم، جمہوریت، فیمینزم، دہریت اور قوم پرستی کے حوالے دینے کو بھی ممنوع قرار دیا گیا ہے۔‘وزرات قانون نے کہا ہے کہ ’اگر کسی مشاعرے میں ان ہدایات کی خلاف ورزی کی گئی تو شاعروں کے ساتھ ساتھ منتظمین کو بھی شریعت کے مطابق سخت سزا دی جائے گی۔‘وزارت اطلاعات و ثقافت یہ قانون پر عمل کروانے کی ذمہ دار ہو گی اور اس کے صوبائی دفاتر مشاعروں کی ریکارڈنگ کریں گے۔ ایک جائزہ کمیٹی ان مشاعروں اور اشعار کی نگرانی کرے گی جس میں طالبان کی وزارت برائے امر بالمعروف و نہی عن المنکر (اچھائیوں کا حکم دینے اور برائیوں سے روکنے کی ذمہ دار وزارت) اور علماء کونسل کے ارکان شامل ہوں گے۔یہ کمیٹی اشعار کے شائع کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ کرنے کی مجاز ہو گی۔قانون کے متن کے مطابق ’وہ شعرا اور ترانہ خواں جو اپنی شاعری اور نثر کے ذریعے معاشرتی اصلاح میں کردار ادا کریں گے، وزارتِ اطلاعات و ثقافت کی جانب سے مناسب انعام پائیں گے جبکہ اس قانون کی خلاف ورزی کرنے والوں کو شریعت کے مطابق سزا دی جائے گی۔‘