سستا تیل انڈیا، چین اور روس کو کیسے قریب لا رہا ہے؟

اب چین، روس اور انڈیا کے تعلقات مزید گہرے ہوتے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔ ان تینوں کے سامنے وِلن ایک ہی ہے: امریکہ، جس نے روس پر سخت پابندیاں عائد کر رکھی ہیں اور اپنے تجارتی شراکت داروں پر ٹیرف عائد کر رہا ہے۔
ایس سی او
Getty Images
ایک وقت تھا جب انڈیا مشرقِ وسطیٰ کے تیل کا ایک اہم خریدار تھا مگر اب یہ صورتحال بدل چکی ہے

پیر کو روسی صدر ولادیمیر پوتن، چینی صدر شی جن پنگ اور انڈین وزیرِ اعظم نریندر مودی کی ملاقات کوئی عام منظر نہیں تھا کیونکہ اِن تینوں ممالک کے رہنماؤں کے درمیان ایسی یکجہتی شاذ و نادر ہی نظر آتی ہے۔

اس اہم ملاقات کے دوران صدر پوتن کے پاس روسی تیل کے سب سے بڑے خریداروں کے ساتھ روابط بڑھانے کا موقع تھا۔ سنہ 2022 میں روس کے یوکرین پر حملے کے بعد مغربی ممالک نے روس سے تجارتی مراسم ختم کر دیے تھے جس کے باعث روسی تیل کی قیمتیں گِریں اور یہی وہ موقع تھا جب انڈیا اور چین اِس (روس) کی طرف کھنچے چلے آئے۔

اب چین، روس اور انڈیا کے تعلقات مزید گہرے ہوتے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔ ان تینوں کے سامنے وِلن ایک ہی ہے: یعنی امریکہ، جس نے روس پر سخت پابندیاں عائد کر رکھی ہیں اور اپنے تجارتی شراکت داروں جیسا کہ انڈیا اور چین پر ٹیرف عائد کیے جانے کا سامنا ہے۔

روس سے تیل خریدنے کے باعث انڈیا پر امریکہ کی جانب سے 25 فیصد کا بھاری ٹیرف عائد کیا گیا ہے جبکہ چین تاحال امریکہ کے ساتھ اس معاملے پر مذاکرات کر رہا ہے تاکہ امریکی ٹیرف اور روسی تیل خریدنے کے سبب جو پابندیاں اس پر لگی ہے اس میں کمی آ سکے۔

ان تینوں رہنماؤں کی ملاقات شنگھائی تعاون تنطیم (ایس سی او) کے اجلاس کے دوران تیانجن میں ہوئی ہے۔ شنگھائی تعاون تنظیم ایک ایسی علاقائی تنظیم ہے جو کہ مغرب کے نقطہ نظر کے برعکس دنیا کو ایک نئے نظریے کی طرف مائل کرنے کی کوشش کر رہی ہے، تجزیہ کاروں کے مطابق ایس سی او دنیا میں امریکی اثر و رسوخ کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے۔

ایس سی او
Getty Images
روس سے تیل خریدنے کے باعث انڈیا کو امریکہ کی جانب سے بھاری ٹیرف کا سامنا ہے

تجزیہ کاروں نے بی بی سی کو بتایا کہ ایس سی او کے اس اجلاس نے خطے کے رہنماؤں کو اقتصادی غیریقینی کے دور میں ایک دوسرے کے ساتھ روابط بڑھانے کا موقع دیا ہے۔

روس کے لیے لائف لائن

تجزیہ کاروں کے مطابق یہاں روس کے پاس انڈیا اور چین کے ساتھ کاروباری سرگرمیاں بڑھانے کا موقع ہے، جو کہ پہلے سے ہی روس کے سب سے بڑے تجارتی شراکت دار ہیں۔

دنیا کے دو سب سے زیادہ آبادی والے ممالک، چین اور انڈیا، نے ایک ایسے وقت پر روس کی معیشت کو سہارا دیا جب مغربی دنیا نے یوکرین پر حملے کے بعد اس سے تجارت منقطع کر دی تھی۔

گذشتہ برس چین نے ریکارڈ 10 کروڑ ٹن روسی تیل خریدا تھا، جو کہ روس کی مجموعی توانائی کی درآمدات کا 20 فیصد حصہ تھا۔

اسی طرح یوکرین پر روسی حملے کے بعد انڈیا بھی سنہ 2022 کے بعد روس سے 140 ارب ڈالر کا تیل خرید چکا ہے۔

روس کے مجموعی بجٹ کا چوتھائی حصہ اس کے تیل اور گیس کی درآمدات پر منحصر ہوتا ہے، جو کہ یوکرین کے خلاف اس کی جنگ کا خرچ بھی برداشت کر رہا ہے۔

پبلک پالیسی کے ماہر مندر اوک کہتے ہیں کہ یہ حیران کُن نہیں ہو گا اگر روس، انڈیا اور چین کو تیل پر مزید ڈسکاؤنٹ دینا شروع کر دے۔

ایڈیلیڈ یونیورسٹی سے منسلک پروفیسر اوک کہتے ہیں کہ انڈیا کے لیے یہ بہت ضروری بھی ہے تاکہ وہ امریکی دباؤ تلے دب نہ جائے۔

روس کے لیے انڈیا ایک لائف لائن ہے کیونکہ یوکرین پر حملے کے سبب لگنے والی پابندیوں کے بعد انڈیا نے ہی اس سے تیل کی خریداری شروع کی تھی۔

امریکی اعتراضات کے باوجود اب شاید انڈیا مزید روسی تیل خریدنے کی راہ پر گامزن ہے۔

پیر کو انڈین وزیرِ اعظم مودی نے روس کے ساتھ تعلقات کو مضبوط قرار دیتے ہوئے پوتن کو بتایا کہ دونوں ممالک ’کندھے سے کندھا ملا کر‘ چلتے ہیں۔

نئی دہلی میں حکام کا کہنا ہے کہ ان کا ملک وہیں سے انرجی مصنوعات خریدتا ہے جہاں سے انھیں ’اچھی ڈیل‘ ملتی ہے۔

انڈیا اور امریکہ کے درمیان تعلقات اس وقت شدید خرابی کا شکار ہوئے جس وقت واشنگٹن نے روس سے تیل خریدنے پر نئی دہلی پر اضافی 25 فیصد ٹیرف عائد کیا۔

ملک میں مودی کی ساکھ کو فائدہ

جہاں تک وزیرِ اعظم مودی کی بات ہے تو ایس سی او میں ہونے والی ملاقات سے انڈیا میں اُن کی ساکھ کو فائدہ پہنچے گا۔

پروفیسر اوک کہتے ہیں کہ ’سیاسی طور پر امریکہ کو نیچا دکھانا مودی کے لیے فائدہ مند ہے‘ کیونکہ اس سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ انڈیا ٹرمپ انتظامیہ کے دباؤ میں نہیں آ رہا۔

مزید روسی تیل خریدنا اُن کے لیے بہتر شاید اس لیے ہو گا کیونکہ انڈیا تیل تک رسائی کے لیے بیرونی سپلائرز پر انحصار کرتا ہے۔

ایک وقت تھا جب انڈیا مشرقِ وسطیٰ کے تیل کا ایک اہم گاہک تھا لیکن پھر سنہ 2022 کے بعد یہ روس سے کم قیمت پر تیل خریدنے لگا۔

اس کے بعد سے انڈیا تیل کی کم قیمتوں سے لطف اندوز ہو رہا ہے کیونکہ روسی تیل کی قیمتیں مشرقِ وسطیٰ سے ملنے والے تیل کے مقابلے میں کم ہیں۔

ٹریڈ پالیسی ایکسپرٹ پیٹر ڈریپر کہتے ہیں کہ چین ایس سی او کے اجلاس کے موقع پر اپنی توانائی کے مفادات کو محفوظ رکھنے کی کوشش کر رہا ہے۔

ایس سی او
Getty Images
اب ان تینوں کے سامنے وِلن ایک ہی ہے: امریکہ، جس نے روس پر سخت پابندیاں عائد کر رکھی ہیں

منگل کو روسی اور چینی گیس کارپوریشنز نے چین کے لیے گیس کی سپلائی کو بڑھانے پر اتفاق کیا ہے۔

لیکن پروفیسر ڈریپر کہتے ہیں کہ شاید روس وہ ڈسکاؤنٹ چین کو نہ دے پائے جو کہ انڈیا کو مل رہا ہے، خاص طور پر اگر پوتن انڈیا سے مزید کاروبار حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔

چین کے پاس طاقت دکھانے کا موقع

پروفیسر ڈریپر کے مطابق تجارت کے علاوہ ایس سی او اجلاس چین کے لیے دنیا کو یہ دکھانے کا موقع تھا کہ وہ عالمی منظر نامے پر امریکہ کا متبادل ثابت ہو سکتا ہے۔

اس فورم میں چین ان تمام ممالک جیسا کہ پاکستان، میانمار اور سری لنکا کے ساتھ کھڑا تھا جن پر امریکہ نے ٹیرف عائد کیا ہے۔

پروفیسر ڈریپر کا کہنا ہے کہ طویل عرصے سے چین کی یہ خواہش ہے کہ ایک ایسا ورلڈ آرڈر وجود میں آئے جہاں ’طاقت کا محور ایک سے زیادہ ممالک ہوں۔‘

دوسری جانب پروفیسر اوک کہتے ہیں کہ ایس سی او کا اجلاس ان تین ممالک کو قریب لے آیا ہے جن کے درمیان اقتصادی تعلقات علاقائی تناؤ کے سبب ماضی میں پیچیدہ رہے ہیں۔

امریکہ کی جانب سے اقتصادی دباؤ نے تینوں ممالک کو ’اقتصادی مفادات کے لیے ہاتھ ملانے پر مجبور کر دیا ہے۔‘


News Source

مزید خبریں

BBC

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Follow US