افغانستان پہلے ہی شدید بحرانوں کا سامنا کر رہا تھا اور تباہ کن زلزلے نے اسے مزید ہلا کر رکھ دیا ہے۔ رواں برس غیرملکی فنڈنگ میں کمی کے بعد اس کے پاس اس آفت سے نمٹنے کے لیے بہت کم وسائل ہیں۔فرانسیسی نیوز ایجنسی اے ایف پی کے مطابق غیرسرکاری گروپ پریمیئر ارجینس انٹرنیشنل (پی یو آئی) کے ڈپٹی ڈائریکٹر آپریشنز آرتھر کامن نے کہا ہے کہ کم بین الاقوامی امداد کا مطلب ہے کہ افغانستان کے مشرقی پہاڑی مشرق علاقوں میں بھیجنے کے لیے ’کم ایمبولینسیں، کم ڈاکٹر، کم نرسیں اور کم دوئیاں۔‘انسانی ہمدردی کی تنظیموں نے افغانستان میں مدد کے لیے سال کے آغاز سے ہی بار بار کال جاری کی ہے، جسے بڑھتی ہوئی غربت، بدتر خشک سالی اور پڑوسی ممالک سے بے دخل کیے گئے تارکین وطن کی بڑے پیمانے پر واپسی کا سامنا ہے۔اتوار کی نصف شب کے قریب آنے والے 6.0 شدت کے زلزلے میں 14 سو سے زیادہ افراد ہلاک اور تین ہزار سے زیادہ زخمی ہوئے اور یہ تعداد اب بھی بڑھ رہی ہے۔برطانیہ میں قائم غیرسرکاری تنظیم اسلامک ریلیف ان افغانستان کے کمیونیکیشن آفیسر رحمت نبی شیرزاد نے کہا کہ یہ زلزلہ ’انتہائی بدترین وقت‘ پر آیا ہے۔شیرزاد نے کہا کہ ’انسانی امداد پر ان عالمی کٹوتیوں کا اثر بہت واضح ہے‘ خاص طور پر سب سے زیادہ متاثرہ صوبے کنڑ کے لیے جو 2023 میں صوبہ ہرات اور 2022 میں پکتیکا میں آنے والے مہلک زلزلوں سے متاثر ہوا تھا۔افغانستان میں اقوام متحدہ کی ریذیڈنٹ اور ہیومینٹیرین کوآرڈینیٹر اندریکا راتوٹے نے کہا کہ ’یہ زلزلہ بحران کے اندر ایک بحران ہے۔‘’زندہ بچ جانے والوں کو اب بھیڑ بھرے کلینک، طویل انتظار اور ڈاکٹروں اور دوائیوں کی شدید قلت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔‘راتوٹے نے کہا کہ فنڈنگ میں کٹوتی نے 400 صحت کی سہولیات کو بند کرنے پر مجبور کیا۔امریکہ افغانستان کا سب سے بڑا ڈونر رہا ہے، جس نے 2021 میں طالبان کے قبضے کے بعد سے 3.71 ارب ڈالر کی امداد فراہم کی۔
طالبان کی وزارت اطلاعات و ثقافت کے ایک سینیئر اہلکار نے عالمی برادری سے مدد کی اپیل کی (فوٹو: اے ایف پی)
ایک فرانسیسی این جی او کے ذرائع نے کہا کہ ’امریکیوں نے ملک کو ڈرپ فیڈ پر ڈال دیا تھا، اور پھر مریض کے ٹھیک ہونے سے پہلے اسے باہر نکال دیا تھا۔ زلزلہ اب ایک ایسی آبادی کو تباہ کر رہا ہے جس کا خون پہلے ہی بہہ چکا تھا۔‘
افغانستان کی امداد پہلے ہی کم ہوتی جا رہی تھی کیونکہ امداد دینے والے ممالک یا تنظیمیں طالبان کی خواتین پر پابندیوں کی وجہ سے ہچکچا رہی تھیں۔طالبان کی وزارت اطلاعات و ثقافت کے ایک سینیئر اہلکار نے عالمی برادری سے مدد کی اپیل کی۔عتیق اللہ عزیزی نے کہا کہ ’ہم بنیادی خدمات فراہم کر رہے ہیں، لیکن متاثرہ افراد کی بحالی اور ان کے گھروں کی تعمیر نو صرف امارت اسلامیہ کے بس میں نہیں ہے۔‘اقوام متحدہ کے مطابق افغانستان کے چار کروڑ 80 لاکھ افراد میں سے نصف کو پہلے ہی انسانی امداد کی ضرورت ہے، پانچ میں سے ایک شخص بھوکا رہتا ہے، اور پانچ سال سے کم عمر کے 35 لاکھ بچے شدید غذائی قلت کا شکار ہیں۔