چوئی مالجا کی عمر 18 سال تھی جب انھیں شدید جسمانی نقصان پہنچانے پر 10 ماہ قید کی سزا سنائی گئی تھی جبکہ حملہ آور کو صرف چھ ماہ کی سزا سنائی گئی تھی۔
چوئی مالجا کی عمر اب 78 برس ہےجنوبی کوریا کی ایک عدالت نے دہائیوں بعد مبینہ جنسی حملے کے دوران ایک مرد کی زبان کاٹنے والی خاتون کی سزا پر نظرثانی کے بعد انھیں الزامات سے بری کر دیا ہے۔
چوئی مالجا کی عمر 18 برس تھی جب انھیں ایک شخص کو شدید جسمانی نقصان پہنچانے پر 10 ماہ قید کی سزا سنائی گئی تھی، جبکہ ان پر حملہ کرنے والے 21 سالہ شخص کو صرف چھ ماہ کی سزا سنائی گئی تھی۔
چوئی مالجا کی عمر اب 78 برس ہے۔
اس کیس میں چوئی مالجا کو الزامات سے بری کرنے کے لیے برسوں مہم چلائی گئی جس کے بعد اس برس جولائی میں کیس کی سماعت دوبارہ شروع ہوئی تھی۔
کیس کی پہلی سماعت پر ہی استغاثہ نے چوئی مالجا سے معافی مانگی اور عدالت سے ان کی سزا منسوخ کرنے کا مطالبہ کیا۔
چوئی نے فیصلہ آنے کے بعد کہا ہے کہ وہ اپنے جیسے دوسرے متاثرین کے لیے کھڑا ہونا چاہتی تھیں۔ انھوں نے کہا کہ اس واقعے نے انھیں متاثرہ فریق کے بجائے ملزم بنا دیا تھا۔
’میرے اردگرد لوگوں نے مجھے (عدالتی نظام کے بارے میں) خبردار کیا تھا کہ یہ کسی پتھر پر انڈے پھینکنے جیسا ہو گا لیکن میں اس معاملے کو ایسے نہیں چھوڑ سکتی تھی۔‘
انھوں نے اپنے سپورٹرز کا شکریہ ادا کیا اور قانون سے ہیر پھیر کرنے کے لیے اپنے اختیارات کا غلط استعمال کرنے والوں پر سوال اٹھایا۔
اس کیس کو جنوبی کوریا میں قانون کی نصابی کتابوں میں عدالت کی جانب سے جنسی تشدد کے دوران حق دفاع کو تسلیم کرنے میں ناکامی کی بہترین مثال کے طور پر پیش کیا گیا تھا۔
عدالتی ریکارڈ کے مطابق چوئی پر حملہ آور ہونے والے شخص نے انھیں زمین پر پٹخ دیا تھا۔ چوئی حملہ آور کی زبان کا تقریباً 1.5 سینٹی میٹر (0.59 انچ) کاٹنے کے بعد ہی خود کو بچانے میں کامیاب ہوئی تھیں۔
جنوبی کوریا کے میڈیا نے رپورٹ میں کیا تھا کہ یہ شخص پھر مسلسل اپنی چوٹ کے لیے معاوضے کا مطالبہ کرتا رہا اور یہاں تک کہ ایک موقع پر چاقو لیے چوئی کے گھر میں بھی گھس گیا۔
مبینہ جنسی حملے کے وقت چوئی کی عمر 18 برس تھیجنوبی کوریا میں جنسی تشدد کے حوالے سے سب سے متنازعہ فیصلوں میں سے ایک میں، اس شخص کو کسی کے گھر میں داخل ہونے اور دھمکیاں دینے پر صرف چھ ماہ کی سزا سنائی گئی تھی اور اس سزا کو بھی بعد میں معطل کر دیا گیا تھا۔
اس شخص پر کبھی بھی ریپ کی کوشش کا الزام عائد نہیں کیا گیا۔
حملہ آور کو شدید جسمانی نقصان پہنچانے پر چوئی کو زیادہ سخت سزا سنائی گئی کیونکہ عدالت نے اس وقت کہا تھا کہ ان کا یہ اقدام اپنے دفاع کی ’معقول حد‘ سے تجاوز کر گیا تھا۔
کیس کی تحقیقات کے دوران بھی چوئی کو چھ ماہ حراست میں رکھا گیا تھا اور پھر انھیں 10 ماہ قید کی سزا سنائی گئی تاہم بعد میں اسے معطل کر دیا گیا تھا۔
سنہ 2018 میں دنیا بھر میں چلنے والی ’می ٹو‘ مہم کے دوران چوئی نے اس مہم کی وکالت کرنے والے مختلف گروہوں سے رابطہ کیا اور کیس کی دوبارہ سماعت کے لیے درخواست دائر کرنے سے پہلے تقریباً دو برس تک ثبوت جمع کیے۔
ان کا یہ سفر خاصا مشکل رہا۔ ذیلی عدالتوں نے ان کی درخواست کو یہ کہہ کر مسترد کر دیا کہ ان کے پاس اپنے دعووں کی حمایت میں ثبوت نہیں۔
چوئی نے اپنی لڑائی جاری رکھی اور کہا کہ وہ نہیں چاہتیں کہ جنسی تشدد کے دوسرے متاثرین کو ان جیسی مشکلات کا سامنا کرنا پڑے۔
ایک انٹرویو میں انھوں نے کہا تھا کہ ’انھیں (جنسی تشدد کے متاثرین کو) یہ بوجھ اکیلے برداشت نہ کرنا پڑے۔‘
آخر کار دسمبر 2024 میں سپریم کورٹ نے چوئی کی کیس دوبارہ کھولنے کی درخواست منظور کر لی۔
بدھ کے روز فیصلے کے بعد چوئی اور ان کے حمایتی عدالت کے باہر مسکراتے نظر آئے۔ انھوں نے ہاتھوں میں پلے کارڈز اٹھا رکھے تھے جن پر لکھا تھا کہ ’چوئی نے یہ کر دکھایا، چوئی کامیاب ہو گئیں۔‘
چوئی کو سپورٹ کرنے والے گروپس میں سے ایک ’دا کوریئن وومین ہاٹ لائن‘ کا ماننا ہے کہ حالیہ فیصلے سے جنسی تشدد کا شکار ہونے والوں کے لیے انصاف کی راہ ہموار ہو گی۔
اس گروپ کی قیادت کرنے والی سونگ ران ہی کہتی ہیں کہ ’اب خواتین کے حق دفاع کے اقدام کو قانونی سمجھا جائے گا۔ مجھے توقع ہے کہ اب کم خواتین کو غیر منصفانہ اقدامات کا سامنا کرنا پڑے گا۔‘
جنوبی کوریا میں جنسی حملہ آوروں کی زبان کاٹ ڈالنے کےدو مزید کیس بھی ہیں: ایک کیس سنہ 1988 جبکہ دوسرا سنہ 2020 میں سامنے آیا تھا۔
دونوں کیسز میں عدالتوں نے خواتین کے حق دفاع کو مانتے ہوئے ان کے حق میں فیصلہ سنایا تھا۔