ترکی، سعودی عرب یا مصر: قطر پر حملے کے بعد اسرائیل کے ’اگلے ہدف‘ کے بارے میں قیاس آرائیاں

مصری صحافی اور محقق رانیہ بداوی کا کہنا ہے کہ ’اسرائیل نے واضح طور پر کہا ہے کہ حماس کے رہنماؤں کو کہیں بھی کوئی استثنیٰ حاصل نہیں ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کے وفود کی میزبانی اب صرف سیاسی خطرہ نہیں ہے، بلکہ قومی سلامتی کے لیے براہ راست خطرہ ہے۔‘

اسرائیل کی جانب سے حماس کے رہنماؤں کو نشانہ بنانے کے لیے قطر کے دارالحکومت دوحہ میں کی گئی کارروائی پر عرب ممالک میں ناصرف سرکاری بلکہ عوامی سطح پر شدید غم و غصے کا اظہار کیا جا رہا ہے۔

اس حملے کے بعد کئی عرب رہنماؤں نے دوحہ کا دورہ کیا اور امیرِ قطر سے ملاقات میں یکجہتی کا اظہار کیا اور انھیں اپنی حمایت کی یقین دہانی کروائی۔

قطر پہنچنے والے سرکردہ عرب رہنماؤں میں سعودی ولی عہد محمد بن سلمان، کویت کے ولی عہد خالد ال حماد الصباح، اُردن کے ولی عہد حسین بن عبداللہ، مصر کے وزیر خارجہ بدر أحمد محمد عبد العاطي وغیرہ شامل ہیں۔ اسی طرح پاکستانی وزیر اعظم شہباز شریف نے بھی اظہار یکجہتی کے لیے گذشتہ روز قطر کا ایک روزہ دورہ کیا تھا۔

واضح رہے کہ اسرائیل نے منگل کے روز قطر کے دارالحکومت دوحہ میں حماس کے سینیئر رہنماؤں پر حملہ کیا تھا۔

اسرائیلی فوج کا دعویٰ ہے کہ اس حملے میں ’7 اکتوبر کے وحشیانہ قتل عام کے براہ راست ذمہ داران‘ کو نشانہ بنایا گیا۔ دوسری جانب حماس کا کہنا ہے کہ دوحہ میں اُس کے مذاکراتی وفد کے ارکان کو نشانہ بنایا گیا لیکن وہ اس حملے میں محفوظ رہے تاہم ایک قطری سکیورٹی اہلکار سمیت چھ دیگر افراد مارے گئے۔

دوحہ پر حملے کے بعد اسرائیلی وزیر اعظم کی جانب سے دیے گئے بیان میں کہا گیا تھا کہ اسرائیل اپنے دشمنوں کو نشانہ بنانے کے لیے کسی بھی جگہ کارروائی کرنے سے گریز نہیں کرے گا۔

نیتن یاہو کے حالیہ بیان کے بعد عرب ممالک میں یہ بحث جاری ہے کہ اب اسرائیل کا اگلا ہدف کون سا ملک ہو سکتا ہے؟

بعض سوشل میڈیا صارفین اس خدشے کا اظہار کر رہے ہیں کہ اسرائیل کا اگلا ہدف مصر، سعودی عرب اور ترکی بھی ہو سکتا ہے۔

واضح رہے کہ حماس کی سیاسی قیادت قطر میں مقیم ہے، تاہم حماس کے رہنما مذاکرات اور ملاقاتوں کے لیے ترکی، سعودی عرب، مصر اور اُردن کے دورے کرتے رہتے ہیں۔

متعدد صارفین اس حملے کا ذمہ دار امریکہ اور برطانیہ کو قرار دیتے ہوئے خلیج فارس اور عرب ممالک سے یہ مطالبہ کر رہے ہیں کہ آئندہ ایسے حملے روکنے کے لیے مشترکہ حکمت عملی اپنائیں۔

حملے کے بعد سوشل میڈیا پر متعدد ہیش ٹیگز ٹرینڈ کرتے رہے ہیں جس میں ’دوحہ‘، ’امریکی اڈے‘ اور ’اسرائیل‘ وغیرہ شامل ہیں اور ان ہیش ٹیگز کے تحت لاکھوں صارفین اپنی آرا کا اظہار کر رہے ہیں۔

’اگلا ہدف کون ہو سکتا ہے؟‘

بہت سے صارفین کا خیال ہے کہ دوحہ پر حملہ ایک ’واضح پیغام‘ تھا کہ اسرائیل دوسرے عرب ممالک بالخصوص مصر کو نشانہ بنا سکتا ہے۔

مصری اپوزیشن رہنما طارق حبیب کہتے ہیں کہ ریاض اور قاہرہ پر بھی حملہ ہو سکتا ہے۔ اُن کا کہنا تھا کہ اب یہ اسرائیل کے لیے بہت آسان لگتا ہے۔

انھوں نے مصری صدر عبدالفتاح السیسی کے حامیوں پر بھی زور دیا کہ وہ یہ سمجھیں کہ ملک ’حقیقی خطرے میں ہے۔‘

مصری صحافی اور محقق رانیہ بداوی کا کہنا ہے کہ ’اسرائیل نے واضح طور پر کہا ہے کہ حماس کے رہنماؤں کو کہیں بھی کوئی استثنیٰ حاصل نہیں ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اُن کے وفود کی میزبانی اب صرف سیاسی خطرہ نہیں ہے، بلکہ قومی سلامتی کے لیے براہ راست خطرہ ہے۔‘

انھوں نے مزید کہا کہ ’جو لوگ کہتے ہیں کہ ’مصر قطر نہیں ہے‘ اور اسرائیل ایسا کرنے کی جرأت نہیں کرتا وہ منطقی طور پر درست ہیں، لیکن وہ اس حقیقت کو نظر انداز کرتے ہیں کہ آج کی حقیقت نے منطق کو چیلنج کیا ہے اور جو کل ناممکن تھا، آج ہماری آنکھوں کے سامنے ہر روز ہو رہا ہے۔‘

’جو آج خود کو محفوظ سمجھتا ہے، کل وہ نشانہ بن سکتا ہے‘

تصویر
Getty Images
کویتی سیاسی تجزیہ کار محمد حیف المطیری نے کہا کہ اسرائیل ’امن نہیں چاہتا اور نہ ہی مذاکرات‘

اُردن سے تعلق رکھنے والے ایک صارف نے لکھا کہ دوحہ پر حملے کے بعد سب کی نظریں مصر کی طرف ہیں۔

اُنھوں نے خبردار کیا کہ ’صیہونی منصوبے کی کوئی حد نہں ہے۔ بلیک میلنگ، محاصرہ، بمباری۔۔ وہ قدم قدم پر مشرق وسطیٰ کو رسوا کر رہے ہیں۔‘

اُن کا کہنا تھا کہ ’جو آج خود کو محفوظ سمجھتا ہے، وہ کل نشانہ بنے گا۔‘

خالد فرید سلام نامی صارف نے فیس بک پوسٹ میں خدشہ ظاہر کیا کہ ’ترکی بھی ممکنہ ہدف ہو سکتا ہے۔ لیکن موجودہ صورتحال میں مصر سب سے زیادہ حساس ہے۔‘

کویتی سیاسی تجزیہ کار محمد حیف المطیری نے کہا کہ اسرائیل ’امن نہیں چاہتا اور نہ ہی مذاکرات، بلکہ پوری عرب دنیا پر تسلط چاہتا ہے۔‘

انھوں نے اسرائیل کے ساتھ اپنے تعلقات کو معمول پر لانے والے ممالک سے اپنے موقف پر نظر ثانی کرنے کا بھی مطالبہ کیا۔

اسرائیل سے سفارتی تعلقات کے مخالف ایک عمانی گروپ جس کے ایک لاکھ 12 ہزار فالورز ہیں نے لکھا کہ ’کل تیونس، آج دوحہ اور کل میرا ملک اور آپ کا ملک بھی نشانہ بن سکتا ہے۔‘

امریکہ کی ’گرین لائٹ‘

کچھ صارفین نے اس فضائی حملے میں امریکہ اور برطانیہ کے کردار کے ساتھ ساتھ ’عرب حکومتوں کے تعاون‘ کی طرف اشارہ کیا۔

کویتی میڈیا اور علمی شخصیت، علی السند نے کہا کہ امریکہ نے اس حملے کے لیے ’گرین لائٹ‘ یعنی اجازت دی تھی۔

ایک عراقی صارف نے ایک کارٹون بھی شائع کیا جس میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے خلیج فارس کے ممالک کے پیسوں سے بھرا سوٹ کیس پکڑ کر قطر کے امیر، متحدہ عرب امارات کے صدر اور سعودی عرب کے ولی عہد کو الوداع کہا۔

اُنھوں نے لکھا کہ ’انھیں انہی کے پیسوں سے مارا گیا۔ پیسہ بزدلوں کی حفاظت نہیں کرتا۔‘

عمانی انفلویئنسر خالد بن سیف نے کہا کہ اگر خلیجی ممالک ’صیہونیوں کے خلاف کُھلم کھلا اعلان جنگ کرنے اور امریکہ کے ساتھ اپنے تعلقات منقطع کرنے میں متحد نہیں ہوتے ہیں، تو کوئی دوسرا ردعمل قابل قدر نہیں ہو گا۔‘

نیوزی لینڈ میں مقیم سعودی عرب کے انسانی حقوق کے کارکن اسحاق علی نے لکھا کہ ’یہ حملے گریٹر اسرائیل کے ظہور‘ کی عکاسی کرتے ہیں۔

کچھ نے خطے اور قطر میں امریکی فوجی اڈوں کی موجودگی پر بھی تنقید کی اور کہا کہ یہ اڈے ’جارحیت‘ کے مراکز ہیں۔

کچھ دیگر صارفین نے ان امریکی اڈوں سے متعلق کہا کہ ’وہ صرف اسرائیل کی حفاظت کے لیے ہیں۔‘


News Source

مزید خبریں

BBC

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Follow US