ویسے تو لڈو دنیا بھر میں کھیلی جاتی ہے مگر اس بورڈ گیم کو جنوبی ایشیا میں کافی مقبولیت حاصل ہے۔ فیملی فنگشن ہو یا دوستوں کی محفل، لڈو بورڈ کہیں نہ کہیں سے نکل ہی آتا ہے مگر یہ ایسی گیم ہے جس کے اصولوں پر لوگ کبھی متفق نہیں ہو پاتے۔
لندن کی لڈو نائٹ میں حصہ لینے والی کھلاڑیویسے تو لڈو دنیا بھر میں کھیلی جاتی ہے مگر اس بورڈ گیم کو جنوبی ایشیا میں کافی مقبولیت حاصل ہے۔ فیملی تقریبات ہوں یا دوستوں کی محفل، لڈو بورڈ کہیں نہ کہیں سے نکل ہی آتا ہے۔
مگر یہ ایسی گیم ہے جس کے اصولوں پر لوگ کبھی متفق نہیں ہو پاتے۔
اسی لیے جب لندن کی جنوبی ایشیائی برادری نے لڈو کا ایک ٹورنامنٹ منعقد کیا تو انھیں ایسے اصول درج کرنا پڑے جنھیں تمام کھلاڑی تسلیم کر سکیں۔
مگر جہاں ہر دیسی گھر میں اپنے ہی اصولوں پر لڈو کھیلی جاتی ہے، وہاں ایسا کرنا بالکل آسان نہیں تھا۔

یادوں کا پینڈورا باکس
جنوبی ایشیا میں سرحدیں تو بہت ہیں لیکن یہاں کے ہر ملک کے ہر گھر کی لگ بھگ ملتی جلتی کہانی ہے۔ لڈو بورڈ میں انھیں اپنے بچپن کی یادیں دکھائی دیتی ہیں۔
لندن میں اس ٹورنامنٹ کے لیے موجود شفقت یاد کرتی ہیں کہ ’ہم پاکستان میں اپنے ڈرائنگ روم میں سارے کزنز لڈو کھیلتے تھے۔ بہت زیادہ لڑائیاں ہوتی تھیں، ہم بہت ہنستے تھے۔‘
جبکہ فرزانہ کہتی ہیں کہ ’میں بچپن میں اپنے کزنز اور آنٹیوں کے ساتھ لڈو کھیلا کرتی تھی۔‘
آئزہ نے بتایا کہ بہن بھائی اور کزنز کے ساتھ ’ہم بس یہی گیم کھیلتے تھے۔‘
مگر فاطمہ کو یاد ہے کہ اس گیم پر ان کے گھر میں بہت لڑائی بھی ہوتی تھی۔ وہ کہتی ہیں کہ ’میری امی اور کزن اس گیم پر بہت لڑتے تھے جو میں کبھی نہیں بھول سکتی۔‘
اسی طرح کنگنا کہتی ہیں کہ جب ایک بار سب خاندان والے لڈو کھیل رہے تھے تو ان کی دادی سب کی ’گوٹی کاٹ رہی تھیں، بس میرے پاپا کی گوٹی نہیں کاٹ رہی تھیں۔ یہ میری سب سے پسندیدہ یادیں ہیں۔‘
قدیم گیم ’پرچیسی‘ جو لڈو بنی
جنوبی ایشیا میں پرچیسی نامی گیم صدیوں سے کھیلی جا رہی تھی مگر 1891 میں الفریڈ کولیئر نے انگلینڈ میں رائل لڈو کے نام سے ایک گیم رجسٹر کروائیبرطانیہ کے شہر لندن میں جنوبی ایشیا کے ہر ملک کی برادری آباد ہے۔ اس شہر میں حال ہی میںایک لڈو ٹورنامنٹ متعقد کیا گیا ہے جس میں 70 لوگوں نے حصہ لیا۔
لڈو ٹورنامنٹ کے منتظم زین کہتے ہیں کہ یہ اپنی نوعیت کا پہلا ٹورنامنٹ ہے جس کے بعد ’ہم عالمی ریکارڈ توڑیں گے۔‘
گنیز بُک آف ورلڈ ریکارڈ کے مطابق یونان میں 2019 کے دوران 418 لوگوں نے مل کر لڈو کھیلنے کا ریکارڈ قائم کیا تھا۔
جنوبی ایشیا میں پرچیسی نامی گیم صدیوں سے کھیلی جا رہی تھی مگر 1891 میں الفریڈ کولیئر نے انگلینڈ میں رائل لڈو کے نام سے ایک گیم رجسٹر کروائی۔
لڈو لاطینی زبان کا لفظ ہے جس کا مطلب ’کھیل‘ ہے۔
1907 میں کولیئر نے لڈو کو امریکہ میں بھی پیٹنٹ کروایا۔
لندن کی لڈو نائٹ کے رولزلندن میں لڈو ٹورنامنٹ کے رولز
کولیئر کے پیٹنٹ میں جدید لڈو کے بنیادی اصول لکھے گئے تھے مگر دیسی گھروں میں ان اصولوں سے زیادہ وہاں کے اپنے اصولوں کو مانا جاتا ہے۔
جیسے ایمان کہتی ہیں کہ ’ہمارے گھر میں ہمارے اپنے رولز ہیں۔ اگر مجھے پانچ ملا اور میں نے گوٹی نہیں ماری تو میری ساری گوٹیاں گھر جائیں گی اور پھر سے شروع کرنا پڑے گا۔ مقابلہ بڑا سخت ہوتا تھا۔‘
شفقت نے بتایا کہ ان کے گھر میں لڈو کھیلتے ہوئے ’پُگنے کی باری، مارنے کی باری‘ ہوتی ہے مگر لندن کے اس ٹورنامنٹ میں ایسی کوئی باریاں نہیں ہیں۔
چونکہ لڈو میں ہر گھر کے اپنے اصول ہیں لہذا اس ٹورنامنٹ میں 70 لوگوں کے ’پرامن'‘کھیل کے لیے ایک رول گائیڈ دی گئی۔ اس کے مطابق:
- آپ گوٹی تبھی نکال سکتے ہیں اگر آپ کے ڈائس یعنی پانسے پر پانچ یا چھ آتا ہے۔ اگر انٹری پر آپ کی اپنی گوٹی ہے تو باری چھوڑ دیں، اگر حریف کی گوٹی ہے تو اسے مار کر واپس گھر بھیج دیں
- ہر چال کے لیے صرف 20 سیکنڈ ملیں گے
- صرف چھ آنے کے بعد اضافی باری ملے گی
- آپ کو اپنی گوٹیاں کلاک وائز چلانی ہوں گی
- کسی حریف کی گوٹی مارنے کے لیے آپ کو اس پر اپنی گوٹی لانا ہو گی
- 25 منٹ بعد گیم ختم کر دی جائے گی
- وہ شخص فاتح قرار پائے گا جس کی سب سے زیادہ گوٹیاں پُگ گئی ہوں

’معافی مانگتے ہوئے کہا جیسے کھیلنا ہے کھیلو‘
یہ رول گائیڈ حبیب نے بنائی، جن کا کہنا ہے کہ گیم کو رفتار دینے کے لیے ایسے اصول بنائے گئے ہیں۔ اس اصولوں کا مقصد ’مزہ نہیں صرف سپیڈ ہے۔‘
تاہم ٹورنامنٹ شروع ہوتے ہی حبیب کے رولز کو ہر طرف سے چیلنج کا سامنا کرنا پڑا۔ جب ایک کھلاڑی کے ایک ساتھ تین چھ آئے تو معاملہ الجھ سا گیا۔
حبیب کہتے ہیں کہ ’پہلی گیم سے ہی سب یہ کہنا شروع ہو گئے یہ رولز صحیح نہیں۔ میں نے سب سے معافی مانگی اور کہا وہ جس طرح کھیلنا چاہتے ہیں کھیلیں۔‘
ٹورنامنٹ کی دلچسپ بات یہ تھی کہ پہلے راؤنڈ میں ایسے کھلاڑی بھی جیتے جنھوں نے پہلے کبھی لڈو نہیں کھیلی تھی۔

جیسے سیلین کہتی ہیں کہ ’مجھے لگتا ہے یہ میری خوش قسمتی ہے۔ میں پہلی بار لڈو کھیل رہی ہوں لیکن فرانسیسی گیم ’لا یو ڈے پیٹی شیوو‘ کھیل چکی ہوں جس کا مطلب ہے چھوٹے گھوڑوں کی گیم لیکن اس کے رولز مختلف ہیں۔‘
وہ کہتی ہیں کہ ’مجھے لگا تھا کہ یہاں صرف ایک گوٹی کو گھر پہنچانا ہو گا اس لیے میں وقت سے پہلے ہی خوش ہو گئی کیونکہ مجھے لگا میں جیت گئی ہوں۔‘
فرانسیسی گیم ’لا یو ڈے پیٹی شیوو‘ اور عرب گیم ’برجیس‘ لڈو جیسی ہیں اور کھیلنے میں بھی ملتی جلتی ہیں۔ اکثر لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ ان گیمز کا سلسلہ بھی کہیں نہ کہیں جا کر پرچیسی سے ہی ملتا ہے۔ پرچیسی پہلے شاہراہِ ریشم کے ذریعے عرب اور فارس اور پھر نوآبادیاتی دور کی وجہ سے یورپ تک بھی پہنچ گئی۔
یہ ٹورنامنٹ 25، 25 منٹ کے تین راؤنڈز میں کھیلا گیا جس کے بعد سب سے بہترین کھلاڑی فاتح قرار دیا گیا۔
لندن کے اس ٹورنامنٹ میں کچھ لوگوں کی قسمت نے ان کا ساتھ نہیں مگر کچھ کھلاڑی آگے بڑھتے گئے لیکن رول میکر حبیب کی کوششوں کے باوجود مزہ سب کو آیا۔
آخری راؤنڈ کے بعد یہ اعلان کیا گیا کہ تین کامیاب راؤنڈز کی بدولت فرزانہ یہ ٹورنامنٹ جیت چکی ہیں۔
فرزانہ نے بتایا کہ ’میں قدرتی طور پر اچھا مقابلہ کرنے والی کھلاڑی ہوں۔‘