ابھی تک یہ تو معلوم نہیں کہ اس بچی کو کس نے دفن کیا تھا مگر معجزانہ طور پر اس بچی کے بارے میں خبر مل گئی کہ اسے کہاں دفنایا گیا۔
انڈیا کی شمالی ریاست اتر پردیش میں ایک 20 دن کی بچی جسے زندہ دفن کر دیا گیا تھا، اب ہسپتال میں زندگی کی جنگ لڑ رہی ہے۔
ابھی تک یہ تو معلوم نہیں کہ اس بچی کو کس نے دفن کیا تھا مگر معجزانہ طور پر اس بچی کے بارے میں خبر مل گئی کہ اسے کہاں دفنایا گیا۔
اس بارے میں اس وقت خبر ملی جب ایک چرواہا اپنی بکریوں سمیت اس علاقے سے گزرا تو اس نے مٹی کے ایک ٹیلے کے نیچے سے آنے والی آوازیں سنیں۔
جب وہ چرواہا اس جگہ کے قریب پہنچا تو اس نے کیچڑ میں سے ایک چھوٹا سا ہاتھ باہر نکلا ہوا دیکھا۔ اس چرواہے نے فوراً وہاں قریبی گاؤں والوں کو اس کی اطلاع دی اور پھر پولیس کی موجودگی میں ننھی بچی کو باہر نکالا گیا۔
پولیس نے یہ نہیں بتایا کہ انھیں کس پر شبہ ہے مگر عام طور پر انڈیا میں اسی طرح کے واقعات میں لاوارث بچوں کو بے یارومددگار چھوڑنے اور شیر خوار بچیوں کو قتل کرنے جیسے واقعات کا ذمہ دار ان فرسودہ رسومات کو قرار دیا جاتا ہے جب لڑکیوں کی پیدائش پر غم اور لڑکوں کی پیدائش پر خوشی منائی جاتی ہے۔
یہ واقعہ انڈیا کی سب سے زیادہ آبادی والی ریاست کے ضلع شاہجہاں پور میں پیش آیا۔ بچی کا علاج وہاں کے سرکاری میڈیکل کالج اور ہسپتال کے انتہائی نگہداشت والے یونٹ میں کیا جا رہا ہے۔
میڈیکل کالج کے پرنسپل ڈاکٹر راجیش کمار نے بی بی سی کو بتایا کہ اس نوزائیدہ بچی، جس کے منھ اور نتھنوں میں کیچڑ چلا گیا تھا، کو پیر کے روز ہسپتال لایا گیا تھا۔
ان کے مطابق بچی کی حالت تشویشناک تھی اور اس میں ہائیپوکسیا یعنی آکسیجن کی کمی کی علامات دکھائی دے رہی تھیں۔
’اسے کچھ جانوروں اور کیڑے مکوڑوں نے بھی کاٹ لیا تھا۔‘
ڈاکٹر نے مزید بتایا کہ ’24 گھنٹے کے بعد ہم نے ان کی حالت میں معمولی بہتری دیکھی لیکن اس کے بعد سے اس کی طبیعت بگڑ گئی کیونکہ اسے انفیکشن ہو گیا۔‘
ڈاکٹر راجیش کمار نے کہا کہ ان کا ماننا ہے کہ بچی کو دفن کرنے کے فوراً بعد ہی یہ خبر سامنے آئی اور اسے نکال لیا گیا کیونکہ اس کے زخم تازہ تھے۔
انھوں نے بتایا کہ ایک سرجن سمیت ڈاکٹروں کی ایک ٹیم اس بچی کا علاج کر رہی ہے اور وہ اس کے انفیکشن پر قابو پانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
انھوں نے مزید کہا کہ اس بچی کی حالت کے بارے میں ابھی کچھ کہنا مشکل ہے لیکن ہم اسے بچانے کی پوری کوشش کر رہے ہیں۔
ایک پولیس عہدیدار نے بتایا کہ بچی کے والدین کے بارے میں ابھی تک کچھ پتا نہیں چل سکا۔
عہدیدار نے بتایا کہ ریاست میں چائلڈ ہیلپ لائن کو بچے کے بارے میں مطلع کیا گیا۔ یہ کوئی پہلا موقع نہیں جب انڈیا میں کسی لڑکی کو یوں مرنے کے لیے چھوڑ دیا گیا ہو۔
سنہ 2019میں بی بی سی نے وقت سے پہلے جنم لینے والی ایک بچی کے بارے میں رپورٹ کیا تھا جسے مٹی کے برتن میں زندہ دفن کیا گیا تھا۔ ہسپتال میں کئی ہفتے گزارنے کے بعد وہ صحت یاب ہو گئی تھی۔
انڈیا دنیا کے بدترین صنفی امتیاز برتنے والے ممالک میں سے ایک ہے۔
خواتین کو زندگی بھر سماجی امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور لڑکیوں کو مالی بوجھ کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ یہ سوچ خاص طور پر غریب برادریوں میں زیادہ پائی جاتی ہے۔
خواتین کے حقوق کے لیے مہم چلانے والوں کا کہنا ہے کہ بیٹوں کو روایتی ترجیح دینے کی سوچ کی وجہ سے لاکھوں بچیوں کو اسقاط حمل کے ذریعے دنیا میں آنے ہی نہیں دیا جاتا۔
اگرچہ زیادہ تر بچیوں کو پیدائش سے قبل غیر قانونی اسقاط حمل کے ذریعے ہی مار دیا جاتا ہے تاہم پیدائش کے بعد بھی بچیوں کو قتل کرنے کے واقعات بھی عام ہیں۔