اس منصوبے کے ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ امریکہ کی افرادی قوت کا استحصال ہے لیکن ایلون مسک جیسے حامیوں کے مطابق اس پروگرام کے تحت دنیا بھر سے بہترین ٹیلنٹ کو امریکہ لانا ممکن ہوتا ہے۔

امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ملازمت کے لیے امریکہ آنے والے غیر ملکی ہنر مند افراد کے لیے سالانہ ویزا فیس پندرہ سو ڈالر سے بڑھا کر ایک لاکھ ڈالر کرنے کا اعلان کیا ہے۔
صدر ٹرمپ نے جمعے کو ایک صدارتی حکم نامہ جاری کیا جس کے تحت ہائی سکلڈ (ہنر مند) افراد کو امریکہ لانے کے لیے پروگرام ایچ ون بی کی ویزا فیس میں اضافہ کر دیا گیا ہے۔
خیال کیا جا رہا ہے کہ اس حکم نامے سے امریکہ میں ٹیکنالوجی کمپنیاں متاثر ہوں گی جن کی افرادی قوت کا انحصار چین اور انڈیا سے آنے والے ہنر مند افراد پر ہے۔
ایچ ون بی ویزا، دنیا بھر سےہنر مند افراد کو امریکہ میں ملازمت کے مواقع فراہم کرتا ہے۔
اس منصوبے کے ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ امریکہ کی افرادی قوت کا استحصال ہے لیکن ایلون مسک جیسے حامیوں کے مطابق اس پروگرام کے تحت دنیا بھر سے بہترین ٹیلنٹ کو امریکہ لانا ممکن ہوتا ہے۔
سنہ 2004 کے بعد سے امریکہ نے سالانہ ایچ ون بی ویزا جاری کرنے کی زیادہ سے زیادہ حد 85 ہزار مقرر کر دی ہے۔ اس وقت اس ویزا کی فیس 1500 ڈالر ہے۔
ٹرمپ انتظامیہ میں سیکریٹری کامرس ہاورڈ لٹنک کا کہنا ہے کہ اس فیصلے پر تمام بڑی امریکی کمپنیوں کو آگاہ کر دیا گیا ہے۔
حکومتی اعداد وشمار کے مطابق گذشتہ مالی سال کے دوارن اس پروگرام سے سب سے زیادہ مستفید ایمازون ہوا تھا اور اس کے بعد ٹیک کمپنیاں ٹاٹا، مائیکروسافٹ، میٹا، ایپل اور گوگل تھے۔
امریکہ نے 1990 میں ایچ ون بی ویزا پروگرام شروع کیا تھا۔ اب تک اس پروگرام کے تحت سب سے زیادہ انڈیا سے تعلق رکھنے والے ہنر مند افراد امریکہ منتقل ہوئے ہیں اور اس فہرست میں دوسرے نمبر پر چین ہے۔
امریکہ میں صدر ٹرمپ کی انتظامیہ اپنی نئی امیگریشن پالیسی کے تحت اس پروگرام کی بھی جانچ کر رہی ہے اور ٹرمپ اکثر یہ کہتے ہیں کہ غیر ملکی افراد امریکیوں کی نوکریوں پر قبضہ کر رہے ہیں۔
صدر ٹرمپ کا حکم 21 ستمبر سے نافذ العمل ہو گا اور اس کا اطلاق صرف نئی درخواستوں پر ہی ہو گا۔
امریکی وزیر تجارت ہاورڈ لٹنک کا کہنا ہے کہ کمپنیوں کو ہر درخواست دہندہ کے لیے چھ سال تک اتنی ہی رقم ادا کرنا ہو گی۔
اُن کے بقول کمپنی کو یہ دیکھنے کا موقع بھی ملے گا کہ فلاں شخص اتنا اہم ہے کہ اس کے لیے حکومت کو سالانہ ایک لاکھ ڈالر ادا کیے جائیں یا اسے گھر جانا چاہیے تاکہ اس کی جگہ امریکی شہری کی خدمات حاصل کی جائیں۔
امریکی صدر کے اس حکم نامے کے بعد یہ بھی اطلاعات ہیں کہ کمپنیوں نے بیرون ملک موجود ایچ ون بی ویزا ہولڈرز کو 21 ستمبر تک امریکہ واپس آنے کا مشورہ دیا ہے جبکہ جو 21 ستمبر تک نہیں پہنچ سکتے، اُنھیں مزید ہدایات تک امریکہ کا سفر نہ کرنے کا مشورہ دیا ہے۔
خیال کیا جا رہا ہے کہ اس حکم نامے سے امریکہ میں ٹیک کمپنیاں متاثر ہوں گی جن کی افرادی قوت کا انحصار چین اور انڈیا سے آنے والے ہنر مند افراد پر ہےایچ ون بی ویزا ہوتا کیا ہے؟
امریکہ میں سالانہ 65 ہزار ایچ ون بی ویزے جاری کرنے کی حد ہے جبکہ 20 ہزار اضافی لوگوں کو یہ ویزے دیے جاتے ہیں جو امریکی تعلیمی اداروں سے ماسٹرز کی ڈگری حاصل کرتے ہیں۔
امیگریشن پر تحقیق کرنے والی تنظیم باؤنڈ لیس کے مطابق قریب 73 فیصد ایچ ون بی ویزے انڈین شہریوں کو جاری کیے جاتے ہیں جبکہ 12 فیصد چینی شہریوں کو ملتے ہیں۔
سنہ 2023 کے اعداد و شمار کے مطابق تیسرے نمبر پر فلپائن، چوتھے پر کینیڈا اور پانچویں پر جنوبی کوریا ہے۔
ایچ ون بی ویزے کے لیے بیچلرز کی ڈگری لازمی ہوتی ہے جبکہ اس کے ذریعے امریکی کمپنیاں ایسے غیر ملکی ہنرمندوں کو امریکہ میں کام کی پیشکش کرتی ہیں جو امریکی شہریوں کے مقابلے میں کم تنخواہ پر کام کرنے کے لیے آمادہ ہو جاتے ہیں۔
اس کے ذریعے انفارمیشن ٹیکنالوجی، فنانس، صحت اور انجینیئرنگ سمیت مختلف شعبوں میں مہارت رکھنے والے افراد کو امریکہ بلایا جاتا ہے۔
امریکہ میں ٹیکنالوجی کارکن عام طور پر سالانہ ایک لاکھ ڈالر سے زیادہ معاوضہ طلب کرتے ہیں، یوں امریکی کمپنیوں کو کم تنخواہ پر غیر ملکی ہنر مند افراد میسر آ جاتے ہیں۔
صدر ٹرمپ نے اپنے گذشتہ دور حکومت کے دوران ایچ ون بی ویزا پروگرام میں کچھ ایسی تبدیلیاں کی تھیں جس سے امریکی یونیورسٹیوں سے ماسٹر ڈگری رکھنے والے غیر ملکیوں کے لیے ویزے کا حصول قدرے آسان ہو گیا تھا۔
ویزا پروگرام میں نقائص کی شکایات
امریکہ میں بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ ایچ ون بی ویزا پروگرام میں کئی خامیاں ہیں۔ اس پروگرام کے مخالفین کا دعوی ہے کہ اس میں فراڈ ہے اور اس کا غلط استعمال بھی کیا جاتا ہے۔
خاص طور پر انڈین آئی ٹی فرمز پر زیادہ اُنگلیاں اُٹھائی جاتی ہیں، جو اس ویزا پروگرام سے سب سے زیادہ استفادہ کرتی ہیں۔
اکتوبر میں امریکی عدالت نے قرار دیا تھا کہ ایک انڈین فرم میں سنہ 2013 اور 2022 کے درمیان غیر انڈین شہریوں کے ساتھ امتیازی سلوک روا رکھا گیا۔ گو کہ کمپنی اس فیصلے کے خلاف اپیل کا ارادہ رکھتی ہے۔
امیگریشن پر تحقیق کرنے والی تنظیم باؤنڈ لیس کے مطابق قریب 73 فیصد ایچ ون بی ویزے انڈین شہریوں کو جاری کیے جاتے ہیں جبکہ 12 فیصد چینی شہریوں کو ملتے ہیںگذشتہ ہفتے نیویارک ٹائمز کی فرح سٹاک نے لکھا تھا کہ ایک دہائی سے زیادہ عرصے سے ٹیک انڈسٹری میں کام کرنے والے امریکیوں کو منظم طریقے سے فارغ کیا گیا اور ان کی جگہ ایچ ون بی ویزا ہولڈرز کو کم تنخواہ پر بلوایا گیا۔
امریکہ میں انڈین ٹیکنالوجی انڈسٹری گروپ ’ناس کام‘ کے نائب صدر شیوندرا سنگھ اس تاثر کو رد کرتے ہیں۔
اُنھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ایچ ون بی ویزا ہولڈرز کو کم معاوضہ نہیں دیا جاتا اور نہ ہی امریکی شہریوں کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے۔
اُن کے بقول انڈین ٹیکنالوجی فرمز نے لگ بھگ چھ لاکھ امریکی شہریوں کو ملازمتیں دی ہیں جبکہ امریکہ کے 130 کالجز میں تربیتی پروگرامز کی مد میں ایک ارب ڈالر خرچ کیے جا رہے ہیں۔
سوشل میڈیا پر ردعمل
امریکی صدر کے حکم نامے پر سوشل میڈیا پر بھی ردعمل سامنے آ رہا ہے۔
امریکی رُکن کانگریس برینڈن گل کہتے ہیں کہ امریکہ ایک قوم ہے، غیر ملکی کارکنوں کے لیے نوکریوں کا پروگرام نہیں۔ ہمارے ایچ ون بی ویزا پروگرام کا بہت طویل عرصے سے غلط استعمال کیا گیا۔
محمد زبیر نے لکھا کہ امریکی صدر کے اس فیصلے کی وجہ سے ہنر مند انڈین شہریوں کی بڑی تعداد کو واپس انڈیا جانا پڑے گا۔
سربھی نامی صارف نے سنہ 2017 میں انڈین اپوزیشن رہنما راہل گاندھی کے اس بیان کا ذکر کیا، جس میں اُنھوں نے ایچ ون بی ویزا کے معاملات امریکہ کے سامنے درست طریقے سے نہ رکھنے پر انڈین حکومت پر تنقید کی تھی۔