اسداللہ اسدی آسٹریا کے دار الحکومت ویانا میں ایرانی سفارتخانے میں بطور تھرڈ کونسلر تعینات تھے جب انھیں مبینہ طور پر بیلجیئم سے تعلق رکھنے والے ایک جوڑے کو دھماکہ خیز مواد اور ڈیٹونیٹر فراہم کرنے کے جرم میں 20 سال قید کی سزا سنائی گئی۔
اسداللہ اسدی آسٹریا کے دار الحکومت ویانا میں ایرانی سفارتخانے میں بطور تھرڈ کونسلر تعینات تھے جب انھیں مبینہ طور پر بیلجیئم سے تعلق رکھنے والے ایک جوڑے کو دھماکہ خیز مواد اور ڈیٹونیٹر فراہم کرنے کے جرم میں 20 سال قید کی سزا سنائی گئی۔
تاہم پانچ سال سے بھی کم عرصے میں وہ رہا ہو کر تہران پہنچ گئے۔ ان کی رہائی بیلجیئم اور ایرانی حکومت کے درمیان طے پانے والے ایک معاہدے کے نتیجے میں ممکن ہوئی۔ اس معاہدے کے تحت، اسدی کے بدلے میں ایران میں جاسوسی کے الزام میں بیلجیئم کے ایک رہائشی کو رہا کیا گیا۔
رہائی پانے کے تقریباً دو سال سے زائد عرصے کے بعد اسدی نے ایرانی جریدے سے بات کرتے ہوئے انکشاف کیا ہے کہ ان کی رہائی کیسے ممکن ہوئی۔
ایران کے پاسدارانِ انقلاب کے نزدیک سمجھے جانے والے اخبار جاوان کو دیے گئے ایک انٹرویو میں انھوں نے انکشاف کیا کہ وہ اپنی سزا کاٹ رہے تھے جب ایران میں ڈاکٹر ابراہیم رئیسی کی حکومت کے برسرِ اقتدار آنے سے مغربی ممالک کے تمام عزائم چکنا چور ہو گئے۔
انھوں نے دعویٰ کیا کہ اس کے بعد ایران میں مشتبہ غیر ملکی جاسوسوں پر نظر رکھنے والے اداروں کو حکم دیا گیا کہ وہ ملک میں موجود یورپی جاسوسوں کا پتہ لگائیں۔
’حکومت کو اقتدار میں آئے ایک سال کا عرصہ بھی نہیں گزرا تھا کہ یہ مقصد حاصل ہو گیا اور ایک یورپی جاسوس جو کہ ایک امدادی کارکن کے روپ میں ملک میں داخل ہوا تھا، کو گرفتار کر لیا گیا۔‘
اولیور وینڈیکاسٹیلی (دائیں)، اسداللہ اسدی (بائیں)اسدی کا کہنا ہے کہ اس گرفتاری نے حالات کا رخ بدل دیا۔
انھوں نے اخبار کو بتایا کہ اس کے بعد یورپی حکومتیں ایران میں قید احمد رضا جلالی کی سزائے موت کے خاتمے کا مطالبہ چھوڑ کر مجھے رہا کرنے پر آمادہ ہو گئیں۔
بدلے میں ایران نے بیلجئم کے ایک شہری کیا جسے ایران میں جاسوسی کے الزام میں 40 سال قید کی سزا سنائی گئی تھی۔
اسدی جب رہائی کے بعد 26 مئی 2023 کو تہران ایئر پورٹ پہنچے تو ایرانی حکام نے ان کا استقبال کیا۔
احمد رضا جلالی جن کا حوالہ اسدی نے دیا ایک ایرانی نژاد سویڈش ڈاکٹر اور کرائسس مینجمنٹ ریسرچر تھے۔ وہ 2016 میں تہران یونیورسٹی کی دعوت پر ایران گئے تھے تاہم مئی 2016 میں ان کی سویڈن واپسی سے محض تین روز قبل انھیں گرفتار کر لیا گیا تھا۔
ایرانی کی ایک عدالت نے انھیں جاسوسی کے الزام میں سزائے موت سنائی ہے۔ جلالی اپنے اوپر لگے الزامات کی تردید کرتے ہیں۔
اسداللہ اسدی پر الزام کیا تھا؟
2018 میں گرفتاری کے وقت اسدی آسٹریا میں ایرانی سفارتخانے میں تعینات تھے۔
اس وقت یورپی انٹیلی جنس سروسز نے انھیں بیلجیئم کے ایک ایرانی نژاد جوڑے کو دھماکہ خیز مواد اور ڈیٹونیٹر فراہم کرتے دیکھا۔
اس جوڑے پر الزام تھا کہ وہ ایرانی حکومت کے خلاف کام کرنے والی تنظیم مجاہدینِ خلق (ایم ای کے) کے سیاسی ونگ قومی مزاحمتی کونسل (این سی آر آئی) کی ایک ریلی پر بم حملے کا منصوبہ بنا رہے تھے۔
ریلی کے دن بیلجیئم کی پولیس نے ان دونوں افراد کو گرفتار کرکے اُن کے پاس سے آدھا کلو دیسی ساختہ دھماکہ خیز مواد اور ڈیٹونیٹر برآمد کیا تھا۔
اس کے بعد اسدی کو جرمنی سے آسٹریا واپس جاتے ہوئے گرفتار کر لیا گیا۔
سنہ 2021 میں اولیور ایران چھوڑ کر بیلجیئم واپس آ گئے۔ تاہم وہ فروری 2022 میں بیلجیئم کی حکومت کے مشورے کے خلاف تہران لوٹے تاکہ وہ اپنا اپارٹمنٹ بیچ سکیں۔بعد ازاں جرمنی کی ایک عدالت نے فیصلہ سنایا کہ جرمنی میں ان کے سفارتی استثنیٰ کا اطلاق نہیں ہوتا کیونکہ انھیں اپنی میزبان ریاست آسٹریا سے باہر چھٹیوں کے دوران گرفتار کیا گیا تھا۔
عدالت کے فیصلے کے بعد جرمنی انھیں بیلجیئم کے حوالے کرنے میں کامیاب رہا جہاں ان پر مقدمہ چلایا گیا۔
بیلجیئم کی ایک عدالت نے فرانس میں جلاوطن ایرانی اپوزیشن گروپ کی ریلی پر بم حملے کی منصوبہ بندی کرنے کے الزام میں اسدی کو 20 سال قید کی سزا سنائی۔
ایران نے اسدی کی گرفتاری، ٹرائل اور سزا کو بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی قرار دیا۔
اسداللہ اسدی کے بدلے رہائی پانے والے اولیور کون ہیں؟
اولیور وینڈیکاسٹیلی نے چھ سال تک ایران میں نارویجن ریفیوجی کونسل اور دیگر امدادی ایجنسیوں کے لیے کام کیا۔
سنہ 2021 میں اولیور ایران چھوڑ کر بیلجیئم واپس آ گئے۔ تاہم وہ فروری 2022 میں بیلجیئم کی حکومت کے مشورے کے خلاف تہران لوٹے تاکہ وہ اپنا اپارٹمنٹ بیچ سکیں۔
اس دوران انھیں ایران کی پاسداران انقلاب نے گرفتار کر لیا اور تہران کی ایون جیل منتقل کر دیا گیا۔
جنوری 2023 میں ایران کی ایک عدالت نے انھیں جاسوسی کے الزام میں 40 سال قید اور 74 کوڑوں کی سزا سنائی۔
اولیور اپنے اوپر لگے الزامات کی تردید کرتے ہیں جبکہ بیلجیئم نے ان الزامات کو ’من گھڑت‘ قرار دیتے ہوئے اسے اسدی کی سزا کا بدلہ لینے کی کوشش قرار دیا۔
2023 میں بیلجیئم اور ایران کے درمیان طے پانے والے معاہدے کے تحت بالآخر انھیں رہا کر دیا گیا۔