محسن نقوی کو ادراک رکھنا ہو گا کہ اگرچہ کرکٹ نے پیسہ بنانے کا آغاز اپنی بقا کے لیے کیا تھا مگر اب آئی سی سی کے تلے کرکٹ اب صرف پیسے کی بقا کا ذریعہ بن کر رہ گئی ہے: پڑھیے سمیع چوہدری کی تحریر

ہفتہ بھر پاکستان کرکٹ ہمہ قسمی غیر کرکٹنگ شہ سرخیوں میں الجھی رہی مگر سوال دراصل یہ نہیں تھا کہ انڈین ٹیم نے پاکستان ٹیم سے ہاتھ کیوں نہ ملائے، سوال تو یہ تھا کہ اس ’رسمِ ہاتھ ملائی‘ سے پہلے جو پنجہ آزمائی گراؤنڈ پہ ہوئی، اس میں پاکستان نے کیا ہاتھ دکھائے۔
جو بے جوڑ کرکٹ اس میچ میں دیکھنے کو ملی، وہ انڈیا پاکستان مقابلوں کی شہرت پہ سوالیہ نشان تو تھی ہی، پاکستان کرکٹ کے برانڈ پہ بھی ایک سوالیہ نشان کی مانند لٹک رہی ہے۔
یہ کوئی اتفاق نہیں کہ جیسے جیسے انڈیا پاکستان ٹاکروں کا معیار پست تر ہوتا جا رہا ہے، ویسے ہی پاکستان کرکٹ کا برانڈ بھی اسی ڈگر پہ جاتا دکھائی دیتا ہے۔
صرف پاکستانی ہی نہیں، انڈین شائقین کے ہاں بھی ’سٹار‘ کا درجہ وہی کھلاڑی پا سکتا ہے جو روایتی حریف کے سامنے قدم جما کر کوئی یادگار جیت رقم کر جائے۔
اکثر شائقین یہ یاد نہیں رکھ پاتے کہ نیوزی لینڈ کے خلاف کس نے سینچری بنائی تھی یا جنوبی افریقہ کے خلاف کس نے پانچ وکٹیں لی تھیں۔ مگر وہی شائقین کبھی بھول بھی نہیں پاتے کہ انڈیا کے خلاف کس نے تین وکٹیں لی تھیں اور ففٹی کس نے بنائی تھی۔
یہ مقابلے کھلاڑیوں کے کرئیرز بنانے اور بگاڑنے میں فیصلہ کن ہوتے ہیں۔ پاکستان کرکٹ اس مسابقت میں جس قدر کمزور دکھائی دی ہے، اب اس کا پلٹ کر وار کرنا بھی اتنا ہی ضروری ہے۔
بات اگر صرف ایک میچ کی وجہ شہرت سے انصاف نہ کر پانے تک ہی رہے تو شاید یہ پاکستان کے لیے کوئی بڑی خطرے کی گھنٹی نہ ہو گی۔ مگر معاملہ یہاں سٹارز کی اس نئی کھیپ کی تلاش کا ہے کہ جو اگر اب بھی ابھر کر سامنے نہ آئی تو پھر شائقین اس ٹیم کی پسندیدگی کا جواز کہاں سے لائیں گے؟

انڈین ٹیم عیاں کر چکی ہے کہ وراٹ کوہلی اور روہت شرما کی ریٹائرمنٹ سے انھیں ذرا فرق نہیں پڑا کہ نہ صرف وہاں ٹیلنٹ پُول بہت وسیع ہے بلکہ شبھمان گل، ابھیشک شرما اور تِلک ورما کے اردگرد ایک ایسی ٹیم جُڑ چکی ہے کہ کسی کو پلٹ کر کچھ یاد کرنے کی ضرورت نہیں رہتی۔
پاکستان کے معاملے میں قصہ یکسر الگ ہے۔ گو دو طرفہ مسابقت میں انڈیا کے خلاف، ایک جیت کے سوا، بابر و رضوان کے دور میں بھی حالات بہت قابلِ رشک نہیں تھے مگر آج شائقین پلٹ کر انھی دونوں کو یاد کرنے پہ مجبور ہیں۔
قسمت کی ستم ظریفی بھی عجب ہے کہ سال بھر پہلے یہی شائقین انھی دونوں کو تمام تر زوال کی جڑ ٹھہرا رہے تھے۔ مگر آج انھی شائقین کا اپنے گذشتہ موقف سے رجوع کرنا یہ بھی ظاہر کرتا ہے کہ نئے پاکستانی بلے باز تجربے کی اس کمی کو پورا نہیں کر پائے جو ان دونوں کے یہاں موجود تھی۔
ایسے میں آج شام کا میچ صرف پاکستان ہی کے لیے اہم ہے کہ اگر کھلاڑیوں کی اس نئی کھیپ میں وہ ’فائٹ‘ نظر آ گئی جو ایک پاکستانی کرکٹ فین انڈیا کے خلاف میچ میں اپنی ٹیم سے دیکھنا چاہتا ہے تو شاید پاکستان کی یہ ٹیم اپنے لیے کچھ نئے شائقین حاصل کر پائے۔
اس میں شبہ نہیں کہ انڈیا تینوں شعبوں میں پاکستان پہ بھاری برتری رکھتا ہے لیکن اگر پاکستان سٹریٹیجی میں اس کے لیے کوئی سرپرائز پیدا کر پایا تو شاید کچھ مقابلے کی صورت بن جائے۔

جے شاہ کے ہاتھوں میں کسی سٹاک ایکسچینج کی طرح ’نکھرتی‘ آئی سی سی اپنے سیاسی مقاصد کے حصول میں بدستور مگن ہے کہ ٹورنامنٹ کے لیے دوسرا ریفری دستیاب ہونے کے باوجود اینڈی پائی کرافٹ ہی آج شام کو بھی میچ کی نگرانی کر رہے ہوں گے۔
محسن نقوی کو ادراک رکھنا ہو گا کہ اگرچہ کرکٹ نے پیسہ بنانے کا آغاز اپنی بقا کے لیے کیا تھا مگر اب آئی سی سی کے تلے کرکٹ اب صرف پیسے کی بقا کا ذریعہ بن کر رہ گئی ہے۔ ایسے میں یہ تماشے آئے روز ہوا کریں گے کہ کبھی انڈین ٹیم ہاتھ نہیں ملائے گی، کبھی وہ پاکستان کے خلاف بائیکاٹ کی مہم جوئی کرے گی تو کبھی آئی سی سی (جے شاہ) پی سی بی کو شکایت لگائے گی۔
پاکستان کو ان سبھی مظاہر پہ شکایت کناں ہونے کی بجائے ان سے محظوظ ہونے کی ضرورت ہے کہ بہرحال انڈین کرکٹ خود ہی اپنے معاشرے کا وہ چہرہ پیش کر رہی ہے جسے وہ درست سمجھتی ہے۔ جبکہ پاکستان کے لیے اہم یہاں ہاتھ ملانا نہیں بلکہ پنجہ لڑانا اور اپنی صحیح کرکٹنگ قوت دکھانا ہے۔
کھیل کی مہارت میں انڈین ٹیم ہر لحاظ سے برتر ہے۔ پاکستان کو اپنی ٹیم سلیکشن میں انڈین بیٹنگ کی سپن کے خلاف قوت کو بھی ملحوظ رکھنا ہو گا۔
پری میچ میڈیا انٹرایکشن منسوخ کر کے پاکستان نے کرکٹ پہ فوکس رکھنے کا بجا فیصلہ کیا۔ اب اس فیصلے کا عملی ثمر نظر آنا بھی ضروری ہے۔