ٹرمپ کی دوستی اور نتن یاہو کی مشکل: امن معاہدے سے جان چھڑانا اسرائیلی وزیراعظم کو کتنا مہنگا پڑ سکتا ہے؟

نتن یاہو کے انتہائی دائیں بازو کے اتحادیوں نے دھمکی دی ہے کہ اگر وہ جنگ ختم کرنے میں بہت زیادہ رعایتیں دینے پر آئے تو وہ ان کی حکومت چھوڑ سکتے ہیں اور ممکنہ طور پر اسے گرا بھی سکتے ہیں۔
تصویر
BBC
نتن یاہو کے انتہائی دائیں بازو کے اتحادیوں نے دھمکی دی ہے کہ اگر وہ جنگ ختم کرنے میں بہت زیادہ رعایتیں دینے پر آئے تو وہ ان کی حکومت چھوڑ سکتے ہیں اور ممکنہ طور پر اسے گرا بھی سکتے ہیں

نتن یاہو جنھوں نے اسرائیل کے لیے مکمل فتح کا وعدہ کیا تھا، پیر کے روز وائٹ ہاؤس میں ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ کھڑے کچھ شکست خوردہ سے دکھائی دیے۔

اسرائیل کے وزیر اعظم وہ تمام باتیں کر رہے تھے جو امن معاہدے کے بارے میں انھیں کرنی چاہییں تھیں اور جس پر انھوں نے کچھ دیر قبل ہی اتفاق کیا تھا۔۔۔ لیکن جب انھوں نے ٹرمپ کی تعریف کی کہ ’وہ وائٹ ہاؤس میں اسرائیل کے سب سے بہترین دوست ہیں‘ تو یہ بات کرتے ہوئے وہ بظاہر پریشان دکھائی دے رہے تھے، اُن کی آواز بوجھل تھی اور وہ کچھ بجھے بجھے لگ رہے تھے۔

ٹرمپ کے ساتھ اُن کی یہ دوستی اسرائیل میں اُن کی حکومت کو خطرے میں ڈال سکتی ہے۔

نتن یاہو کی حکومت کے انتہائی دائیں بازو کے اتحادیوں نے دھمکی دی ہے کہ اگر انھوں نے غزہ جنگ ختم کرنے کے عوض بہت زیادہ رعایتیں دیں تو وہ اُن کی اتحادی حکومت چھوڑ سکتے ہیں اور ممکنہ طور پر اسے گِرا بھی سکتے ہیں۔

بیزلیل سموٹریچ اور ایتمار بن گویر جیسے اتحادی شراکت داروں نے غزہ کو اسرائیل میں ضم کرنے، فلسطینیوں کو وہاں سے بیدخل کرنے اور وہاں یہودی بستیوں کو دوبارہ قائم کرنے کی اپنی خواہشوں کو زیادہ چھپایا نہیں ہے۔

یہ اتحادی رہنما اور نیتن یاہو بذات خود فلسطینی اتھارٹی کے غزہ میں کسی کردار یا فلسطینی ریاست بننے کے کسی امکان کے سخت مخالف ہیں۔ لیکن نتن یاہو نے اب ایک ایسے معاہدے پر اتفاق کیا ہے جس میں مشروط انداز میں یہ دونوں باتیں شامل ہیں۔

ٹرمپ جانتے ہیں کہ اسرائیلی وزیراعظم کو اس معاہدے کی طرف دھکیل کر وہ اُن (نتن یاہو) سے اپنی حکومت کو خطرے میں ڈالنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ بدلے میں وہ ایک تاریخی وراثت کا امکان پیش کر رہے ہیں۔۔ جس میں خطے کے لیے ایک نیا، زیادہ پرامن اسرائیل اور اس کے عرب ہمسایوں کے درمیان نئے تعلقات شامل ہیں۔

واشنگٹن جانے سے پہلے ہی نتن یاہو کو معلوم تھا کہ انھیں وائٹ ہاؤس میں ایک مشکل فیصلہ کرنا پڑے گا
Getty Images
واشنگٹن جانے سے پہلے ہی نتن یاہو کو معلوم تھا کہ انھیں وائٹ ہاؤس میں ایک مشکل فیصلہ کرنا پڑے گا

واشنگٹن جانے سے پہلے ہی نتن یاہو کو معلوم تھا کہ انھیں وائٹ ہاؤس میں ایک مشکل فیصلہ کرنا پڑے گا۔

اسرائیل کے صدر آئزک ہرزوگ نے ایک ریڈیو پروگرام میں بتایا کہ وہ نتن یاہو کو بدعنوانی کے اُن مقدمات میں معافی دینے پر غور کر رہے ہیں، جن کا نتن یاہو کو سامنا ہے۔

نتن یاہو کے ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ مقدمات ایک بڑی وجہ ہیں جس کی بنیاد پر نتن یاہو اقتدار چھوڑنے سے ہچکچا رہے ہیں کیونکہ وزیراعظم کے عہدے کی طاقت اور حیثیت انھیں عدالت میں تحفظ دیتی ہے۔

لیکن اس وقت جو سیاسی موقع انھیں دیا جا رہا ہے۔۔۔یعنی خطے میں ایک تاریخی میراث کے بدلے اُن کی حکومت اور شاید سیاسی کیریئر کی قربانی، وہ اس سے پوری طرح مطمئن نہیں دکھائی دیتے۔

اور اس کا ایک ثبوت یہ ہے کہ وائٹ ہاؤس میں امن معاہدے کے فوراً بعد انھوں نے اپنے ایک ویڈیو پیغام میں اپنے ملک کے لوگوں سے کہا کہ ’میں نے فلسطینی ریاست کے قیام سے اتفاق نہیں کیا۔‘ کیمرے کے سامنے ایک سوال کے جواب میں انھوں نے کہا ’بالکل نہیں۔ یہ معاہدے میں لکھا بھی نہیں ہے (فلسطینی ریاست کا قیام)۔ ہم نے ایک بات ضرور کہی ہے اور وہ یہ ہے کہ ہم فلسطینی ریاست کے قیام کی سختی سے مخالفت کریں گے۔‘

اسرائیلی میڈیا کی حالیہ رپورٹس کے مطابق، اسرائیلی کابینہ اس مجوزہ معاہدے کی تمام شرائط پر ووٹ نہیں دے گی بلکہ صرف اسرائیلی یرغمالیوں کے بدلے فلسطینی قیدیوں کی رہائی پر ووٹ ہو گا۔

سوال یہ ہے کہ نتن یاہو کے یہ اقدامات ان کے سیاسی منصوبوں کے بارے میں کیا ظاہر کرتے ہیں؟

کیا وہ اپنی حکومت کو اُس وقت تک بچانے کی کوشش کر رہے ہیں جب تک کہ وہ انتخابات میں کسی معـجزے کے نتیجے میں دوبارہ کامیابی حاصل نہ کر لیں؟ کیونکہ انتخابات سے قبل ہوئے ایک حالیہ سروے میں اُن کی ہار کی پیش گوئی کی گئی ہے۔

یا پھر وہ اس بات پر انحصار کر رہے ہیں کہ حماس خود ہی یہ معاہدہ مسترد کر دے گی یا غزہ میں اپنے کمانڈروں کو کنٹرول نہیں کر پائے گی اور جنگ بدستور جاری رہے گی؟

Getty Images
Getty Images
جب آپ نے وہی چیزیں تسلیم کر لیں جنھیں روکنے کے لیے آپ نے اپنا پورا کیریئر لگا دیا اور آپ اپنے دشمن کے جواب کے منتظر ہیں، تو ’مکمل فتح‘ کا دعویٰ برقرار رکھنا مشکل ہو جاتا ہے

واشنگٹن میں ایک پریس کانفرنس کے دوران نتن یاہو نے جنگ جاری رہنے کے امکان پر زور دیا۔ انھوں نے ٹرمپ کی حمایت کے ساتھ کہا کہ اگر حماس نے اپنے وعدوں پر عمل نہ کیا تو اسرائیل کو جنگ ختم کرنے کی ’مکمل آزادی‘ ہو گی۔

اس تناظر میں یہ مشکل لمحہ امریکہ کی جنگ کے لیے حمایت جاری رکھنے کی قیمت ہو سکتا ہے۔

نتن یاہو کو سیاسی چالوں کا ماہر سمجھا جاتا ہے۔ وہ ہمیشہ سیاسی رکاوٹوں کے درمیان راستہ نکال لیتے ہیں تاکہ وقت حاصل کر سکیں۔ ماضی میں بھی جب جب بات جنگ کے مستقل خاتمے پر آئی، وہ مذاکرات کے دوران اپنا مؤقف بدلتے رہے ہیں اور جنگ بندی کے معاہدوں سے پیچھے ہٹتے رہے ہیں۔

بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ وہ کبھی بھی اس جنگ کو مذاکرات کے ذریعے ختم نہیں کرنا چاہتے، بلکہ حماس کو اسرائیل کی شرائط پر ہتھیار ڈالنے پر مجبور کرنا چاہتے ہیں۔

لیکن جب آپ نے وہی چیزیں تسلیم کر لیں جنھیں روکنے کے لیے آپ نے اپنا پورا کیریئر لگا دیا اور اب آپ اپنے دشمن کے جواب کے منتظر ہیں، تو ’مکمل فتح‘ کا دعویٰ برقرار رکھنا مشکل ہو جاتا ہے۔

جنگ شروع ہونے کے بعد پہلی بار ایسا لگتا ہے کہ اس معاہدے سے انکار کے نتائج اسے قبول کرنے کے نتائج سے بدتر ہیں۔

اور اگر واقعی ٹرمپ نے نتن یاہو کو واشنگٹن میں اپنے حلیف اور اپنے ملک میں حلیفوں کے درمیان انتخاب کرنے پر مجبور کیا، تو جو بائیڈن نے ایسا کیوں نہیں کیا جب نو ماہ پہلے ایک ایسا ہی معاہدہ زیر غور تھا اور تب غزہ میں تقریباً 30 ہزار سے زیادہ لوگ ابھی زندہ تھے (یعنی وہ 30 ہزار فلسطینی جنھیں گذشتہ نو ماہ کے دوران مارا جا چکا ہے)؟


News Source

مزید خبریں

BBC

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Follow US