ایشیئن کرکٹ کونسل کے صدر، پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین اور وفاقی وزیرِ داخلہ محسن نقوی کا کہنا ہے کہ ’انڈین میڈیا حقائق پر نہیں بلکہ جھوٹ پر چلتا ہے۔ میں بالکل واضح کر دوں کہ میں نے کچھ غلط نہیں کیا اور نہ ہی کبھی بی سی سی آئی سے معافی مانگی ہے، نہ ہی کبھی مانگوں گا۔‘
ایشیا کپ ختم ہو چکا ہے اور انڈین ٹیم تاریخ میںنویں مرتبہ یہ ٹائٹل جیتنے میں کامیاب رہی ہے لیکن اس کے باوجود بھی اس ٹورنامنٹ سے جُڑے تنازعات ختم ہونے کا نام نہیں لے رہے ہیں۔
گذشتہ اتوار کی شب ایشیا کپ 2025 کی اختتامی تقریب پاکستان اور انڈیا کے بیچ جاری کشیدگی کی صحیح معنوں میں عکاسی کرتی نظر آئی تھی اور شاید اس ٹورنامنٹ کی دہائیوں پر محیط تاریخ میں پہلی مرتبہ ایسا ہوا کہ فاتح ٹیم بِنا ٹرافی حاصل کیے ہی گراؤنڈ سے رخصت ہوئی۔
اس کے بعد انڈین میڈیا میں کچھ اطلاعات سامنے آئیں جن میں دعویٰ کیا گیا کہ پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین محسن نقوی نے 28 ستمبر کو ایشیا کپ کے فائنل کے بعد پیدا ہونے والی بدنظمی پر انڈین کرکٹ بورڈ (بی سی سی آئی) سے معافی مانگ لی ہے۔تاہم بدھ کو محسن نقوی نے ان تمام اطلاعات کو مسترد کردیا ہے۔
بدھ کو ایشین کرکٹ کونسل کے صدر، پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین اور وزیرِ داخلہ محسن نقوی نے کہا کہ ’انڈین میڈیا حقائق پر نہیں بلکہ جھوٹ پر چلتا ہے۔ میں بالکل واضح کر دوں کہ میں نے کچھ غلط نہیں کیا اور نہ ہی کبھی بی سی سی آئی سے معافی مانگی ہے، نہ ہی کبھی مانگوں گا۔‘
ایکس پر ایک ٹویٹ میں محسن نقوی نے انڈین میڈیا میں چلنے والی خبروں کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’یہ من گھڑت باتیں سستے پروپیگنڈہ کے سوا کچھ نہیں، جس کا مقصد صرف اپنی عوام کو گمراہ کرنا ہے۔ بدقسمتی سے انڈیا سیاست کو کرکٹ میں گھسیٹتا رہتا ہے اور کھیل کی اصل روح کو نقصان پہنچا رہا ہے۔‘
محسن نقوی کا کہنا ہے کہ ’بطور صدر اے سی سی، میں اس دن بھی ٹرافی دینے کے لیے تیار تھا اور آج بھی تیار ہوں۔ اگر انڈین ٹیم واقعی ٹرافی چاہتی ہے تو خوشی سے اے سی سی کے دفتر آکر مجھ سے ٹرافی لے جائیں۔‘
خیال رہے گذشتہ اتوار کو دبئی میں کھیلے گئے ایشیا کپ کے فائنل میں انڈیا نے 147 رنز کا ہدف آخری اوور میں حاصل کر کے پاکستان کو پانچ وکٹوں سے شکست دی تھی۔
فائنل کے اختتام پر صورتحال اُس وقت کشیدہ ہوئی جب انڈین کرکٹ ٹیم نے ٹرافی وصول کرنے سے انکار کیا۔ یاد رہے کہ پاکستان کے وزیر داخلہ محسن نقوی کو بطور ایشیئن کرکٹ کونسل کے سربراہ یہ ٹرافی جیتنے والی ٹیم کو پیش کرنا تھی۔
انڈین میڈیا میں کیا دعویٰ کیا گیا ہے؟
انڈین میڈیا میں دعویٰ کیا گیا کہ پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین محسن نقوی نے اتوار 28 ستمبر کو ایشیا کپ کے فائنل کے بعد پیدا ہونے والی بدنظمی پر انڈین کرکٹ بورڈ (بی سی سی آئی) سے معافی مانگ لی ہے۔
خبروں میں دعویٰ کیا گیا کہ محسن نقوی نے بعد میں ہونے والے ایشین کرکٹ کونسل (اے سی سی) کے اجلاس میں نسبتاً نرم رویہ اختیار کیا، جس سے قبل وہ اس متنازعہ واقعے میں انڈین ٹیم کو میدان میں ہی ٹرافی کے ساتھ جشن منانے کی اجازت دینے سے انکار کر چکے تھے۔
خیال رہے اختتامی تقریب میں پاکستان کے کپتان سلمان علی آغا نے رنرز اپ ٹرافی وصول کی جبکہ انڈیا کے تلک ورما، کلدیپ یادیو اور ابھیشیک شرما نے بھی اپنے اپنے انفرادی ایوارڈز وصول کیے تھے۔
ٹرافی کو وصول کرنے کے معاملے پر شروع ہونے والے تنازع کے باعث اختتامی تقریب کا آغاز لگ بھگ ایک گھنٹے کی تاخیر سے ہوا۔
یاد رہے کہ رواں برس مئی میں پاکستان اور انڈیا کے درمیان ہونے والے فوجی تناؤ کے بعد ایشیا کپ پہلا ٹورنامنٹ تھا جہاں دونوں ملکوں کی ٹیمیں مدِ مقابل آئی تھیں۔ انڈیا کا محسن نقوی سے ٹرافی لینے سے انکار دونوں ممالک کے درمیان کرکٹ تعلقات میں تاریخی پستی کی نشاندہی کرتا ہے، ایک ایسے کھیل میں جس نے ماضی میں دونوں ممالک میں سفارتکاری کا کام بھی کیا ہے۔
فائنل کے بعد پریس کانفرنس میں ایک صحافی نے انڈین کپتان سوریا کمار یادیو سے پوچھا کہ آپ کیا کہیں گے کہ تمام سات میچز جیتنے والی ٹیم کو ان کے حق کی ٹرافی نہ دی جائے؟ اس کے جواب میں سوریہ کمار یادو نے کہا کہ ’ہم نے جب سے کرکٹ کھیلنی اور دیکھنی شروع کی ہے ایسا کبھی نہیں دیکھا کہ ایک چیمپیئن ٹیم کو ٹرافی سے محروم رکھا گیا ہو، اور وہ بھی بہت محنت سے جیتی ہوئی۔۔۔ ہم اس کے مستحق تھے اور میں مزید کچھ نہیں کہنا چاہتا کہ میں نے اچھی طرح سے اس کی ترجمانی کر دی ہے۔‘

انھوں نے مزید کہا کہ ’اگر آپ ٹرافی کی بات کرتے ہیں تو میری ٹرافی میرے ڈریسنگ روم میں ہے اور وہ میرے سارے 14 کھلاڑی اور سپورٹنگ سٹاف ہیں۔‘
’ایشیا کپ میں جو کچھ ہوا وہ نہایت افسوسناک اور شرمناک ہے‘
ابتدائی میچ میں ’نو ہینڈ شیک‘ سے شروع ہونے والا تنازع فائنل میں محسن نقوی سے ٹرافی وصول نہ کرنے پر ختم نہیں ہوا، بلکہ اس معاملے پر بحث تاحال سوشل میڈیا پر جاری ہے۔
انڈیا کے سابق کوچ روی شاستری اس ساری صورتحال سے خوش نہیں آئےاور انھوں نے انڈین میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’میچ فائنل کے لائق تھا اور پھر آپ کو 45 منٹ تک انتظار کرنا پڑا کہ پتا ہی نہیں چل رہا کیا ہو رہا ہے۔ یہ بالکل مضحکہ خیز ہے۔‘
سابق انڈین کرکٹر سید کرمانی نے انڈین خبر رساں ادارے اے این آئی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’جس طرح آج کل دنیا بھر میں کرکٹ کھیلی جا رہی ہے، اس میں وہ شائستگی باقی نہیں رہی جو کبھی اس کھیل کی پہچان تھی۔ میدان میں انتہائی بدتمیزی اور مغرورانہ رویے دیکھنے کو مل رہے ہیں۔ مجھے ہر جگہ سے پیغامات موصول ہو رہے ہیں کہ انڈین ٹیم نے یہ کیا کر دیا؟ میدان میں آخر کون سی سیاست چل رہی ہے؟‘
انھوں نے کہا ’میں جو تبصرے سن رہا ہوں، ان پر شرمندہ ہوں۔ موجودہ دور کے کرکٹرز کو کیا ہو گیا ہے؟ ایشیا کپ میں جو کچھ ہوا وہ نہایت افسوسناک اور شرمناک ہے۔ یہ سب دیکھ کر دل بہت بوجھل ہو جاتا ہے کہ کھیل کے میدان میں، خاص طور پر کرکٹ میں، حالات کس طرف جا رہے ہیں۔‘
سید کرمانی نے کہا ’جو ہوا اچھا نہیں ہوا۔ سیاست کو کھیل میں داخل نہیں ہونا چاہیے۔ کھیل سے باہر جو کچھ بھی ہوتا ہے، اسے وہیں رہنے دیں۔۔۔ لیکن سیاست کو اس عظیم کھیل سے نہ جوڑیں۔‘
’ہمارے زمانے میں کرکٹرز کے درمیان شاندار دوستی اور بھائی چارہ تھا۔ پاکستانی کھلاڑی انڈیا آتے، ہم پاکستان جاتے۔ کیسی شاندار مہمان نوازی، کیسی محبت اور کیسی چاہت ملتی تھی۔ آج بطور کرکٹر میرا سر جھک گیا ہے۔‘
ادھر پاکستان میں سوشل میڈیا صارفین اپنے مؤقف پر ڈٹے رہنے پر محسن نقوی کو داد دے رہے ہیں۔
مشاق احمد نامی صارف نے لکھا ہمارے محسن نقوی سے لاکھ اختلافات ہو سکتے ہیں ’لیکن بی سی سی آئی کے اختیارات کے غلط استعمال اور کھیلوں میں سیاسی مداخلت کے خلاف جو مؤقف انھوں نے اختیار کیا، وہ قابلِ تحسین ہے۔ اس معاملے میں میں ان کے ساتھ کھڑا ہوں۔ انھوں نے کبھی ٹرافی دینے سے انکار نہیں کیا؛ فاتح ٹیم جب چاہے جا کر اسے وصول کر سکتی ہے۔‘
ایک اور صارف نے لکھا ’ہم ان کے سیاسی موقف سے اختلاف کر سکتے ہیں اور پی سی بی میں کرکٹ کے معاملات کے حوالے سے ان پر تنقید بھی کر سکتے ہیں۔ لیکن جب بات پاکستان کی نمائندگی کرنے کی آتی ہے، بطور چیئرمین یا اے سی سی کے صدر، انھوں نے ہمیں کبھی مایوس نہیں کیا۔ شاباش، محسن صاحب۔‘