جہاد الشامی: مانچسٹر میں یہودی عبادت گاہ پر حملہ کرنے والا شخص کون ہے اور ان کے والد کے فیس بُک اکاؤنٹ پر بی بی سی نے کیا دیکھا؟

جمعرات کو مانچسٹر میں یہودی عبادت گاہ پر کرنے والے جہاد الشامی ماضی میں ریپ کے شبے میں گرفتار ہوئے تھے اور انھیں ضمانت پر رہائی ملی تھی۔ الشامی برطانیہ میں کم عمری میں داخل ہوئے تھے اور انھیں سنہ 2006 میں 16 برس کی عمر میں برطانوی شہریت دی گئی تھی۔
جہاد الشامی
Facebook
جہاد الشامی کو 16 برس کی عمر میں برطانوی شہریت ملی تھی

جمعرات کو مانچسٹر میں یہودی عبادت گاہ پر کرنے والے 35 سالہ شامی نژاد جہاد الشامی ماضی میں ریپ کے شبے میں گرفتار ہوئےتھے اور انھیں ضمانت پر رہائی ملی تھی۔

تاہمجہاد الشامی پر باقاعدہ طور پر باقاعدہ طور پر کبھی ریپ کا الزام عائد نہیں کیا گیا تھا۔

یاد رہے کہ الشامی نے مانچسٹر میں یہودی عبادت گاہ کے باہر لوگوں پر گاڑی چڑھا دی تھی اور ایک شخص پر چاقو سے وار کیا تھا۔ اس حملے میں دو افراد ہلاک ہوئے تھے اور برطانوی پولیس نے اسے ’دہشتگردی کا واقعہ‘ قرار دیا تھا۔

جہاد الشامی برطانیہ میں کم عمری میں داخل ہوئے تھے اور انھیں سنہ 2006 میں 16 برس کی عمر میں برطانوی شہریت دی گئی تھی۔ وہ مانچسٹر کے علاقے پریسٹوچ کے رہائشی تھے۔

اس حملے کے بعد الشامی کے خاندان نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ’ہم اس حملے سے لاتعلقی کا اعلان کرتے ہیں اور جو کچھ ہوا اس پر دکھ اور افسوس کا اظہار کرتے ہیں۔‘

’ہمارے دل اور دعائیں متاثرین اور ان کے خاندانوں کے ساتھ ہیں اور ہم دعا کرتے ہیں کہ انھیں طاقت اور آرام ملے۔‘

پریسٹوچ میں لوگوں نے بی بی سی کو بتایا تھا کہ الشامی ویٹ لفٹنگ کے شوقین تھے اور پڑوسیوں سے شاز و نادر ہی بات کیا کرتے تھے۔

الشامی کے خاندان نے کیا کہا؟

برطانیہ میں اور اس سے باہر اپنے خاندان کے افراد کی جانب سے جاری بیان میں الشامی کے والد فراج الشامی کا کہنا تھا کہ ’مانچسٹر میں یہودی عبادت گاہ پر دہشت گرد حملے کی خبر سے ہمیں شدید صدمہ پہنچا ہے۔‘

’برطانیہ اور اس سے باہر مقیم الشامی خاندان اس گھناؤنے عمل کی سخت مذمت کرتا ہے جس میں پُرامن اور معصوم عام شہریوں کو نشانہ بنایا گیا ہے۔‘

بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ ’ہم تمام میڈیا آؤٹ لیٹس سے گزارش کرتے ہیں کہ وہ اس مشکل وقت میں خاندان کی پرائیویسی کا خیال رکھیں اور اس المناک واقعے کو کوئی بھی ایسے معنی نہ دیں جو کہ سچ کے برعکس ہو۔‘

’خدا بے گناہ متاثرین پر رحم کر اور ہم زخمیوں کی جلد صحتیابی کے لیے دعا کریں گے۔‘

مانچسٹر
EPA
جائے حملہ پر لوگوں کی جانب سے رکھے گئے پھول

الشامی کے والد کے فیس بُک پیج پر موجود ایک پوسٹ کی بی بی سی نے تصدیق کی ہے جو کہ بظاہر سات اکتوبر 2023 کو حماس کے حملے کو سراہنے کے لیے لکھی گئی تھی۔

سات اکتوبر کو حماس کے جنگجوؤں نے سرحد پار کر کے اسرائیل میں حملہ کیا تھا۔ اس حملے میں تقریباً 1200 افراد ہلاک ہوئے تھے اور 251 افراد کو یرغمال بنا لیا گیا تھا۔

الشامی کے والد نے اپنی پوسٹ میں لکھا تھا کہ ’الا اقصیٰ بریگیڈ کی جانب سے نشر کیے گئے مناظر، جس میں جنگجوؤں کے ایک گروہ کو آسانی سے غباروں اور موٹرسائیکلوں کی مدد سے قابض فوج کے کیمپ میں گھستے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے، بغیر کسی شک و شبے کے یہ ثابت کرتے ہیں کہ اسرائیل کا وجود نہیں رہے گا۔‘

’ایسے افراد یہ ثابت کرتے ہیں کہ یہ زمین پر اللہ کے بندے ہیں۔ اس سے فرق نہیں پڑتا کہ ان کی قیادت کون کر رہا ہے، کم وسائل کے باوجود بھی وہ فتح پر یقین رکھتے ہیں۔‘

الشامی کے پڑوسی کیا کہتے ہیں؟

جیف ہالیویل پریسٹوچ کے علاقے میں لینگلی کریسنٹ کے قریب رہتے ہیں جو کہ الشامی کا خاندانی گھر ہے۔ جمعرات کو وہاں پولیس کا چھاپہ بھی پڑا تھا۔

72 سالہ جیف کہتے ہیں کہ وہ الشامی کو ’تھوڑا سے جانتے تھے‘ اور وہ ’اچھے لوگ تھے۔‘

مانچسٹر حملے کی خبر سن کر جیف ’حیران‘ رہ گئے تھے اور صدمے میں چلے گئے تھے۔ ان کا کہنا ہے کہ الشامی خاندان اس سڑک پر واقع گھر میں 15 برس پہلے منتقل ہوا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ الشامی کے والد یہاں پانچ یا چھ برس رہے تھے اور اس کے بعد گھر چھوڑ گئے تھے۔ تاہم وہ بعد میں فرانسیسی نمبر پلیٹ والی ایک گاڑی میں وہاں آتے رہتے تھے۔

جیف نے مزید بتایا کہ الشامی اکثر مغربی لباس پہنتے تھے اور کبھی کبھی روایتی شامی کپڑے۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ وہ اکثر الشامی کو بینچز پر کثرت کرتے ہوئے بھی دیکھا کرتے تھے۔

’میں انھیں ہفتے میں ایک یا دو بار دیکھتا تھا۔ بس میں ایک دوسرے کو ہیلو ہی کہتے تھے۔‘

’ میں ان کا نام بھی نہیں جانتا تھا۔ وہ مجھے سیدھا سادہ اور عام سا نوجوان لگتا تھا۔ وہ ایسا بالکل نہیں نظر آتا تھا جیسا وہ تھا۔‘

ایک اور پڑوسی نے بی بی سی کو بتایا کہ انھوں نے اس پتے پر ایک بچے کو بھی دیکھا تھا لیکن انھیں یہ یاد نہیں کہ کبھی انھوں نے وہاں کسی خاتون کو دیکھا ہو۔

ان پڑوسی خاتون کا مزید کہنا تھا کہ ’ہم اسے (الشامی کو) اکثر گارڈن میں ورزش کرتے ہوئے دیکھتے تھے۔ ‘

ان کے مطابق الشامی کا حلیہ اکثر بدلا ہوا ہوتا تھا،

’ایک دن وہ جبّہ پہنا ہوا ہوتا تھا جو زمین تک لٹک رہا ہوتا تھا اور اگلے ہی دن وہ جینز میں ملبوس ہوتا تھا۔‘

مانچسٹر
PA Media
یہودی عبادت گاہ کے باہر برطانوی پولیس کی فارنزک ٹیم موجود تھی

پریسٹوچ کے ایک اور رہائشی نے روزنامہ ٹیلیگراف کو بتایا کہ ’میں نے الشامی کو حملہ آور کی تصویر دیکھ کر پہچانا تھا۔ میں نے اس کی چھوٹی کییا کا پہچان لی تھی کیونکہ وہ اکثر اسے ہمارے گھر کے باہر بھی پارک کیا کرتا تھا۔‘

’ہم اسے اکثر پاجامہ اور سینڈل پہنے یا ہاتھ میں شاپنگ بیگ پکڑے ہوئے آتا جاتا دیکھتے تھے۔ وہ کافی صحت مند تھا اور گیراج میں اپنا کثرت کا سامان رکھا کرتا تھا۔‘

’وہ کبھی اپنے اطراف میں موجود لوگوں سے بات نہیں کرتا تھا۔‘

’بطور مسلم میں نے جہاد نام کبھی نہیں سُنا‘

پولیس اور سکیورٹی اداروں کی ابتدائی سرچ کے دوران انھیں الشامی کا نام اپنے ریکارڈ میں نہیں ملا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ وہ کسی بھی تحقیقات کے دائرے میں نہیں تھے۔

ایسی اطلاعات بھی موجود ہیں کہ الشامی بطور انگریزی اور کمپیوٹر پروگرامنگ کے ٹیوٹر بھی کام کرتے تھے جبکہ ان کے والد ایک سرجن ہیں۔

برطانیہ کی سیکریٹری داخلہ شبانہ محمود کا کہنا ہے کہ وہ حملے کا نام سُن کر ’حیران‘ رہ گئی تھی۔

ایل بی سی سے بات چیت کے دوران شبانہ محمود نے حملہ آور کا نام جہاد الشامی بتایا تھا۔ جس کا ترجمہ میزبان نِک فیراری نے ’شامیوں کی جدوجہد‘ کیا تھا۔

شبانہ محمود نے اس وقت کہا تھا کہ ’میں یہ نام سُن کر حیران رہ گئی تھی۔‘

’دراصل بطور مسلمان میں نے کبھی کسی کا نام جہاد نہیں سُنا لیکن وہ اسی نام کے ساتھ پیدا ہوئے تھے اور یہی ہمیشہ ان کا نام رہا ہے۔‘

اس وقت سیرین برٹش کنسورشیم، ری تھنگ ری بلڈ سوسائٹی اور سیریا سولیڈیریٹی کمپین نے ایک مشترکہ بیان بھی جاری کیا تھا۔ اس بیان میں کہا گیا تھا کہ ’اس مرحلے پر مانچسٹر اور اس سے باہر ہماری شامی برادری کے نیٹ ورک اس حملے میں ملوث فرد کی شناخت نہیں کر پائے اور نہ ہی انھیں ذاتی طور پر جاننے کی تصدیق کی جا سکی ہے۔‘


News Source

مزید خبریں

BBC

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Follow US